ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی حکومت کرونا وائرس کی روک تھام کے لئے سماجی دوری کے قوانین نافظ کر رہی ہے، پاکستان میں اسلام کی سخاوت کا اصول کاروبار کی بندش سے متاثرہ لوگوں کی مدد کر رہا ہے۔

کراچی میں پرچون کی دکانوں کے باہر گزشتہ دو ہفتے سے ایک قابل ذکر واقعہ رونما ہو رہا ہے۔ سامان خریدنے کے بعد وائرس سے بچنے کے لئے فوری طور پر گھر کی راہ پکڑنے کے بجائے شہری رک کر ان لوگوں کو کھانا، پیسے یا دیگر خیرات بانٹتے دکھائی دیتے ہیں جن کے پاس سر چھپانے کی کوئی جگہ نہیں۔ سخاوت بھری اس پیشکش کے ساتھ ہی وہ لینے والوں سے دعا کی درخواست بھی کرتے ہیں کہ (کرونا وائرس کی) یہ آفت جلد از جلد ختم ہو جائے۔

بہت سے ملکوں کی طرح پاکستان کی حکومت نے بھی کرونا کی وبا کی روک تھام کے لئے بہت سے اقدامات کیے ہیں جن میں سکولوں کی بندش، اجتماعات پر پابندی اور روزمرہ کی ضروری اشیاء اور ادویات کے علاوہ تمام دکانوں کی بندش شامل ہیں۔ لیکن ایسے اقدامات کرنے والے دوسرے ملکوں کے برعکس یہاں ان اقدامات کے انتہائی دور رس معاشی بحران اور ممکنہ طور پر مہلک نتائج ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کرونا وائرس سے متعلقہ اپنے حالیہ خطاب میں کہا کہ پچیس فیص پاکستانی دو وقت کی روٹی بھی خریدنے کے متحمل نہیں۔ جوں جوں ملک میں زیادہ سخت لاک ڈاؤن کے قوانین نافض ہو رہے ہیں، دیہاڑی دار – گلی میں ٹھیلے لگانے والے سے لے کر جوتے پالش کرنے والے تک – نے کئی ہفتے سے ایک روپیہ بھی نہیں کمایا، اور وہ بھوکے ہیں۔

اسی خطاب کے دوران عمران خان نے پاکستان کی ڈراؤنی حقیقت کے بارے میں بھی بتایا “اگر ہم شہروں کو بند کر دیں گے۔۔۔ تو ہم انہیں کرونا سے تو بچا لیں گے۔۔۔ لیکن وہ بھوک سے مر جائیں گے۔ پاکستان میں امریکہ یا یورپ جیسے حالات نہیں۔ ہمارا ملک بہت غریب ہے”۔

لیکن یہاں امید ابھی باقی ہے۔

وبا کے باوجود پاکستانی ایک نئے اور پرعزم انداز میں غریبوں کی مدد کر کے آپس میں رشتہ مضبوط کر رہے ہیں۔ بالخصوص بہت سے لوگ غریب دیہاڑی دار لوگوں کو زکوۃ دے رہے ہیں جن کو تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں، ہیلتھ انشورنس یا معاشی تحفظ حاصل نہیں۔

عربی لفظ زکوۃ کا لفظی مطلب “پاک کرنے والا” ہے، اور یہ اسلام کے پانچ اہم ارکان میں سے ایک ہے جو تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ یہ فرض خیرات، ضرورت سے زیادہ سامانِ زندگی اور مال اسباب پر ڈھائی فیصد کے حساب سے سالانہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ “نصاب” کے تعین کے انتہائی سخت اصول مقرر ہیں، جن سے زیادہ مال پر مسلمان پر زکوۃ فرض ہو جاتی ہے اور جس سے کم پر کوئی شخص زکوۃ کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ یہ جہان فانی ہے اور جو کچھ ہے وہ سب ایک پروردگار کا دیا ہوا ہے، زکوۃ اس خیال کو پروان چڑھاتی ہے کہ غریبوں کا بھی اس مال میں حصہ ہے جو فی الحال وقتی طور پر معاشرے کو عطا کیا گیا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب زیادہ تر لوگ گرونا وائرس کی وبا کے دوران جسمانی صفائی پر توجہ دے رہے ہیں، ڈاکٹر امتیاز احمد خان، ہمدرد یونیورسٹی کراچی کے ایک مالیکیولر بیالوجسٹ، زکوۃ کو روحانی صفائی سے تشبیہ دیتے ہوئے ایک مشہور پاکستانی مقولہ “پیسہ ہاتھ کی میل ہے” دوہراتے ہیں۔

“زکوۃ مال سے گند صاف کر دیتی ہے” ڈاکٹر خان نے کہا۔ “اگر میرا ہمسایہ رات کو بھوکا سو جائے تو میں جواب دہ ہوں گا۔ میرا ہمسائے کو ضرورت ہو تو میرا باورچی خانہ بھرا کیسے رہ سکتا ہے؟”

سخاوت کا یہ جذبہ پاکستان کے ڈی این اے میں پکا جڑا ہوا ہے۔ درحقیقت، دنیا کے سینتالیس مسلم اکثریت والے ملکوں میں زکوۃ رضاکارانہ دی جاتی ہے لیکن پاکستان ان چھے ممالک میں سے ایک ہے جہاں حکومت خود زکوۃ کاٹتی اور جمع کرتی ہے۔ آکسفورڈ انسائیکلو پیڈیا آف اسلامک ورلڈ کے مصنف رضوان حسین کے مطابق “پاکستان وہ واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے” اور یہی گہری روحانیت اس کے قوانین میں بھی نظر آتی ہے۔

سٹینفورڈ سوشل انوویشن ریویو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنے جی ڈی پی کا ایک فیصد خیرات میں صرف کر کے انتہائی امیر ملکوں کی صف میں شامل ہو جاتا ہے (جیسے برطانیہ ایک اعشاریہ تین فیصد اور کینیڈا ایک اعشاریہ دو فیصد اور بھارت کی نسبت دوگنا زیادہ جی ڈی پی)۔ ملکی سطح پر ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ اٹھانوے فیصد پاکستانی خیرات کرتے ہیں یا اپنا وقت رضاکارانہ طور پر خرچ کرتے ہیں – یہ تعداد اس تعداد سے کہیں زیادہ ہے جن پر قانونی طور پر زکوۃ فرض ہے۔

“ہم ایک غریب ملک ضرور ہیں لیکن ہمارے دل بہت بڑے ہیں” یہ کہنا تھا پاکستانی نژاد محمد سہیل خان کا جو لگزم برگ میں رہتے ہیں۔ “آپ کسی بھی گاؤں میں چلے جائیں، وہ اپنے گھر آپ کے لئے کھول دیں گے؛ دینے میں پہل کرنا ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ ہم ہمدردی اور ایثار والے لوگ ہیں۔ شایہ یہ ہم میں کچھ زیادہ ہی ہے کیوں کہ لوگوں کو اس بات پر راضی کرنا بہت مشکل ہو گا کہ سماجی دوری کا اصل مطلب اپنے ہمسایوں کو چھوڑ دینا نہیں”۔

جیسے جیسے کرونا وائرس پھیل رہا ہے بہت سے پاکستانی زکوۃ کے ڈھائی فیصد کی نسبت کہیں زیادہ دے رہے ہیں، جب کہ بہت سے دوسرے جو اتنا نہیں کماتے کہ زکوۃ ان پر فرض ہو، وہ بھی جتنی ہو سکے خیرات کر رہے ہیں – اور ابھی تک یہ عطیات تیزی سے دوسروں تک پہنچائے جا رہے ہیں۔

بہت سے عطیات ماہانہ راشن پیکٹس کی صورت میں دئے جا رہے ہیں جس سے دیہاڑی دار مزدوروں اور غربا کی گھریلو ضرورت کی اشیا جیسے دالیں، گھی، آٹا، تیل، چینی اور چائے وغیرہ کی ضرورت پوری ہو گی۔ گرچہ عام طور پر یہ رمضان میں دیے جاتے ہیں، اب یہ ان غریبوں میں بانٹے جا رہے ہیں جو وبا کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ آج کل ان ڈبوں میں جراثیم کش صابن بھی شامل ہیں۔

فیصل بخاری ان غریب علاقوں میں راشن پیکٹ پہنچا رہے ہیں جن کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔ “اس ہفتے بہت زیادہ عطیات آئے ہیں” انہوں نے بتایا “میں روز بیس پچیس (دینے والوں کی طرف سے) درخواستیں یا آرڈر وصول کرتا ہوں اور بعض دفعہ تو اس سے بھی زیادہ”۔

دوسرے بھی ایسی ہی امدادی کوششیں کر رہے ہیں۔ “پچھلے چند دنوں میں ہم نے دیکھا کہ مزدوروں کی امداد کے لئے بہت سے امدادی گروپ بن گئے ہیں”، احمد سجاد نے بتایا جو کراچی انٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں پڑھاتے ہیں۔ “اس نے دو ہزار پانچ کے زلزلے کی یاد تازہ کر دی جب سب پاکستانی عطیات دینے کے لئے ایک ہو گئے تھے۔ اس دفعہ لاک ڈاؤن کے دوران سڑکوں کے کنارے ریلیف کیمپ لگانے کے بجائے لوگ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کر کے فنڈ اکٹھے کر رہے ہیں اور امداد پہنچا رہے ہیں”۔

شعیب اخلاق جو SSARA Foundation نامی ایک بین الاقوامی فلاحی تنظیم چلاتے ہیں، نے پاکستان کے حالات کی سنگینی کے بارے میں بتایا “حالات بہت خراب ہیں، (جب ہم راشن دینے گئے تو) ایک شخص زاروقطار رونے لگا کیونکہ اس کے گھر کے چاروں افراد نے انتیس گھنٹے سے کچھ نہیں کھایا تھا”۔

دوسروں کی تائید کرتے ہوئے اخلاق نے بتایا کہ SSARA کو کرونا وائرس لاک ڈاؤن کی وجہ سے پہلے سے زیادہ عطیات موصول ہو رہے ہیں۔

“ہم روزانہ دو سو افراد کو تازہ کھانا اور راشن پیکٹ فراہم کر رہے ہیں۔ پچیس مارچ کو ہم نے مخنثوں کی کمیونٹی کو ایک سو پچیس راشن پیکٹ دیے” آخلاق نے بتایا۔ “وہ سوسائٹی کا بہت الگ اور خطرے میں گھرا طبقہ ہے۔ ان کا تشکر اور حیرت دیکھ کر دل بہت ٹوٹا کہ کسی نے ان کا بھی سوچا۔ ان کے پاس بھی کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں”۔

پورے پاکستان میں عطیات کی اپیلیں واٹس ایپ اور سوشل میڈیا میں گردش کر رہی ہیں۔ ان خواتین کا بھی بہت کلیدی کردار ہے جنہوں نے اپنے گھروں کو اشیاء ضروریہ جیسے دالیں، گھی اور آٹے کے لئے کلیکشن پوائنٹ کے طور پر وقف کیا۔ کئی لوگوں نے اپنے ذاتی نمبر بھی عطیات جمع کرنے کے لئے پھیلا دئے۔ وبا سے پہلے عام طور پر پاکستان میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔

رضاکار تنظیمیں، جیسا کہ رابن ہڈ آرمی، ریستورانوں سے بچا ہوا کھانا اور راشن پیکٹ ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔ اور ایدھی اور سیلانی ٹرسٹ جیسی تنظیموں نے ضرورت مند خاندانوں کے بارے میں اطلاع کے لئے واٹس ایپ نمبر اور ہیلپ لائنز بنا دی ہیں۔

لگتا تو یہ ہے کہ یہ ابتدائی کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔ ثوبیہ شاہد، جو کراچی میں استاد ہیں، نے بتایا کہ کچھ دن پہلے انہوں نے خوراک عطیہ کرنا چاہا تو رابن ہڈ آرمی نے ان کو کہا کہ کچھ ہفتے بعد دوبارہ کوشش کریں۔ “کراچی والی کی بے تحاشہ سخاوت کی وجہ سے، انہوں نے مجھے کہا کہ اپریل یا مئی میں دوبارہ ان سے رابطہ کریں۔ تب تک کے ان کے تمام انتظامات پورے ہیں”۔

ایک تازہ حکومتی سروے کے مطابق پاکستانی بینکوں نے دو ہزار اٹھارہ سے انیس کے دوران سات اعشاریہ تین ارب روپے زکوۃ جمع کی۔ چونکہ بہت سے پاکستانی ضرورت مند لوگوں کو زکوۃ خود دیتے ہیں جس کا حساب لگانا مشکل ہے، لیکن اصل اعداد و شمار اس سے یقینا بہت زیادہ ہوں گے۔

بہت سے گھروں میں گھریلو خادموں کو ابھی بھی تنخواہیں دی جا رہی ہیں حالانکہ وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ کم کرنے کے لئے ان کو کام پر نہیں بلایا جا رہا۔ کچھ ادارے جن کے پاس اخراجات میں سے غیر متوقع طور پر بچت جمع ہو گئی تھی انہوں نے رقوم ضرورت مند لوگوں میں بانٹ دی ہیں۔ ان لوگوں میں سکولوں کے بہر چھلیاں بیچنے والے، گلیوں میں چکر لگا کر سبزیاں بیچنے والے اور برف بیچنے والے سب ہی شامل ہیں۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک کارپوریٹ بینکر عمران بلوچ نے بتایا کہ “پاکستان سب سے زیادہ انسان دوست ممالک میں سے ایک ہے، جہاں افرادیات اور سرمایہ داری کے اصول زیادہ پختہ نہیں۔ جو لوگ صاحب استطاعت میں شمار ہوتے ہیں، شعوری طور پر کوشش کرتے ہیں کہ ضرورت مند لوگوں پر بوجھ کم کیا جائے کیونکہ وہ اس کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ جذبہ کرونا کی وبا کے دوران واقعی سچ ہوتا نظر آ رہا ہے”۔

عام طور پر مسلمان زکوۃ رمضان کے مہینے میں ادا کرتے ہیں، جو اس سال تیئیس اپریل سے شروع ہو رہا ہے، کیونکہ مانا جاتا ہے کہ اس مہینے میں ثواب اور نیکیاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ ایک حالیہ سرکاری ٹی وی کی نشریات کے دوران ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب، جو اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ہیں، کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی امداد کے لئے وقت سے پہلے زکوۃ دینا ایک نیک اقدام ہو گا۔

ایک طرح سے پاکستان کے لئے اس وبا کا وقت بہت بہتر ہے۔ رمضان سے دو ماہ پہلے عام حالات میں غریب غربا دروازوں پر دستک دے کر زکوۃ کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ بہت سے غریب لوگ ان دنوں میں مالی امداد کی امید پر شادیاں اور دیگر اہم امور رکھتے ہیں۔ وہ اب بھی پر امید ہیں اور پاکستانی دینے میں پیچھے نہیں۔

سندس رشید، جو کراچی میں ایک ریڈیو سٹیشن میزبان ہیں، کا شہریوں کے وبا کے حوالے سے ردعمل پر کہنا تھا “کراچی والے زکوۃ کے علاوہ بھی بہت کچھ دیتے ہیں۔ میرے پاس ذاتی طور پر زکوۃ کے نصاب کے برابر بچت نہیں، لیکن کرونا کے حالات خراب ہونے سے ہیلے ہم نے صفائی کے سامان کے پیکٹ بانٹے۔ میں بندرگاہ کے نزدیک رہتی ہوں جہاں بہت سے دیہاڑی دار مزدور رہتے ہیں۔ ہم نے چار سو پیکٹ بانٹے صرف ان لوگوں کے ذریعے جن کو ہم جانتے تھے۔ اب معاملات اس نہج پر آ گئے ہیں کہ یہ صرف پیش بندی کے طور پر صفائی کا مسئلہ نہیں بلکہ زندہ رہنے کے لئے ضروری ہو گیا ہے”۔

ایک طرح سے پاکستانی زکوۃ اور خیرات کو ایک آفاقی قوت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اور اس وبا کے سامنے اس طاقت کو اس امید پر بڑھایا جا رہا ہے کہ یہ آفت ٹل جائے گی۔

ہم پاکستانی یقین رکھتے ہیں کہ اچھائی مزید اچھائی کو جنم دیتی ہے، اور شاید ہماری سخاوت وائرس کی نسبت تیزی سے پھیلے گی۔ اس اٹل یقین کے ساتھ کہ تمام انسانیت کا بھلا ہو گا، ہم ان لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرنا چاہتے ہیں جن کو اس کی ضرورت ہے اور ان کو امید دلانا چاہتے ہیں جن کو امید کی ضرورت ہے۔

اور آج کل، ہم سب کو ہی امید کی ضرورت ہے۔

 

عائشہ امتیاز کا یہ آرٹیکل انگریزی زبان میں بی بی سی ٹریول پر یکم اپریل دو ہزار بیس کو شائع ہوا۔

ترجمہ: محمد بلال

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech