کچھ دن پہلے مجھے ایک گاؤں جانے کا اتفاق ہوا۔ جن کے پاس میں گیا ان کا ذاتی باڑہ تھا جہاں چند گائیں تھیں اور صرف گھر کے لیے دودھ ہوتا ہے جسے وہ بیچتے نہیں ہیں۔ باڑے میں میں نے آکسی ٹوسن کے انجیکشن پڑے دیکھے، مجھے حیرت ہوئی اور ان سے پوچھا کہ آپ لوگ تو گھر کے لیے دودھ نکالتے ہیں پھر یہ زہر اپنے بچوں کو کیوں پلا رہے ہیں۔ جواب ملا کہ اسکے بغیر گائیں دودھ نہیں دیتیں۔

ہمارے یہاں افواہ ہے کہ ویکسین سے بانجھ پن ہوتا ہے، یہاں تک کہ ویکسین پلانے والے ہیلتھ ورکرز اور پولیس والوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن جب بتایا جاتا ہے کہ آکسی ٹوسن ملا دودھ عورتوں میں بانجھ پن کا کنفرم باعث بنتا ہے تو اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ صورتحال اتنی سنگین ہے کہ اب اگر کسی جوڑے کو اس حوالے سے مشکلات ہوں تو پہلا کام ڈاکٹر یہ کرتے ہیں کہ دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات پر پابندی لگا دیتے ہیں۔

جولائی کا مہینا تھا اور کھیتوں میں چاول کی نئی فصل لگ رہی تھی۔ اس سے پہلے انہوں نے گندم لگائی تھی جو مارچ اپریل میں کٹ جاتی ہے۔ مارچ سے چونکہ گندم تیار ہوتی ہے تو اس پر اصولی طور پر کوئی حشرات کش دوا کا سپرے نہیں ہونا چاہیئے۔ یعنی پچھلے تین چار ماہ میں کوئی سپرے نہیں ہوا ہونا چاہیئے تھا۔

میں چونکہ حیاتیات کا طالبعلم ہوں اور ہر جگہ سے اپنی لیبارٹری کے لیے حشرات وغیرہ جمع کرنا میرا مشغلہ ہے تو میں وہاں کھیتوں کے درمیان درختوں کے جھنڈ میں کیڑے ڈھونڈنے لگا۔ کافی کوشش کے باوجود مجھے کوئی مکڑی، پتنگا، ٹڈا، مکھی یا مینٹس وغیرہ نظر نہیں آیا۔ گویا پانچ چھے ماہ پہلے جو سپرے کیا گیا تھا وہ اتنا تباہ کن تھا کہ فصل جانے کے بعد بھی جاندار پنپ نہیں پائے تھے۔ تو جو گندم اب گوداموں میں اور ہمارے گھروں میں، پلیٹوں پر تھی اس پر اس سپرے کے اثرات کتنے ہوں گے؟

ایک جامن کے درخت پر جامن توڑنے لگے تو وہاں کوئی جامن کھایا ہوا نہ نظر آیا ورنہ عموما پھلوں کے درخوں پر قدرتی ماحول میں بہت سے پرندے پلتے ہیں۔ گویا بے تحاشہ سپرے کی وجہ سے علاقے کے اکثر پرندے بھی مر چکے تھے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ گوالے کو دودھ میں پانی ملاتے، یا کسان کو غلط وقت پر سپرے کرتے پکڑ لیں تو آپ کیا کریں گے؟ اس سے بحث کریں گے؟ سمجھائیں گے؟ ہاتھا پائی کریں گے؟ کسی سرکاری محکمے سے اس کو جرمانہ کروائیں گے یا عدالت جا کر اپنے نقصان کا ازالہ کروائیں گے؟ زیادہ سے زیادہ اس کو کتنا جرمانہ ہو تو وہ آئندہ ایسی حرکت سے باز آئے گا؟ ہمارے یہاں عموما جرمانہ کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آئندہ وہ شخص زیادہ بے ایمانی کر کے اپنا نقصان پورا کرلیتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے ایک فلم دیکھی تھی جس میں ایک ڈیلوری ٹرک والا غلطی سے ایک آدمی کے گھر کے صحن میں لگے درخت سے ٹرک ٹکرا دیتا ہے۔ درخت مکان پر گرتا ہے جس سے ایک کمرے کی چھت گر جاتی ہے۔ مکان کے مالک کو فلم میں انتہائی کمینہ اور لالچی دکھایا گیا ہے۔ وہ ٹرک والے سے نام پتہ اور کمپنی کا نام پوچھتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ تم بے فکر رہو، تم غریب ہو، میں تم پر کیس نہیں کروں گا، کمپنی پر کیس کروں گا جنہوں نے تم جیسے نالائق کو نوکری پر رکھا کیونکہ ان سے زیادہ پیسے نکلوائے جا سکتے ہیں۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بڑی کمپنیان جان پوجھ کر لوگوں کو بیمار کرتی ہیں یا الٹی سیدھی چیزیں ملا دیتی ہیں وہ نیسلے، جانسن اینڈ جانسن اور پاکستان میں دراز اور قطر ایئر ویز جیسے بڑے گروپس پر ہونے والے مقدموں اور ان کے فیصلوں کا احوال دیکھ لیں۔ ذرا ذرا سی غفلت پر اربوں کے جرمانے ہوتے ہیں کمپنیوں کو۔ کسی چھوٹے دکاندار یا گوالے سے غلط چیز پیچنے پر آپ اس کو کتنا جرمانہ کروا لیں گے عدالت سے؟ اور بڑی کمپنیوں سے تو لوگ تاک میں رہتے ہیں کہ کوئی مسئلہ ہاتھ آہے صحیح۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں بھی نیسلے کے دودھ پر کیس چل رہا تھا کہ اس سے بچے کی موت ہوئی ہے۔ آپ واقعی ثابت کر دیں تو ساری عمر کچھ اور کام کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ باہر کی دنیا میں ایسے ہی کچھ کیسز کا احوال یوں ہے:

ایک عورت نے ثابت کیا کہ جانسن اینڈ جانسن کے بے بی پاؤڈر میں موجود ایسبسٹاس کے ذرات کی وجہ سے اسے کینسر ہوا۔ عدالت کے حکم پر جانسن اینڈ جانسن نے اس عورت کو سو ملین ڈالر ادا کیے۔

لوگوں نے عدالت میں ثابت کیا کہ دوا ساز کمپنیوں کی غفلت کی وجہ سے ہیموفیلیا کے مریضوں کو ایچ آئی وی اور ایچ سی وی کی انفیکشن ہوئی۔ کمپنیوں اور حکومت کو اربوں روپے کے ہرجانے بھرنے پڑے۔

ایک وکیل نے ثابت کیا کہ نان سٹک فرائنگ پین کی وجہ سے لوگوں کو کینسر ہو رہا ہے۔ کمپنی نے اس کے کلائنٹس کو $671 ملین ڈالر ہرجانہ ادا کیا۔

ایک وکالت کی فرم میں کام کرنے والی کلرک نے نوٹ کیا کہ ایک کمپنی زہریلے کیمیکل پانی میں ملا رہی تھی جس کی وجہ سے جب لوگوں کو کینسر ہوا تو جرمانے سے بچنے کے لئے وہ کمپنی مریضوں کو بغیر بتائے مالی امداد دیتی رہی۔ اس نے لوگوں کو سمجھایا کہ تم اس سے کہیں زیادہ پیسے نکلوا سکتے ہو۔ عدالت نے اس کمپنی پر 333$ ملین ڈالر جرمانہ کیا۔

پاکستان میں بھی صارف عدالتیں روز ہی کسی نہ کسی کمپنی یا دکاندار کو جرمانہ کرتی ہیں۔ یہاں کوئی اتنا امیر نہیں کہ اربوں میں جرمانہ ہو، نہ ان جرمانوں پر فلمیں بناتا ہے کوئی۔ حکومت کا کام قانون بنانا ہے۔ انہوں نے قانون بنا دیا۔ اب عوام کو اگر نقصان ہو رہا ہے تو ان کو عدالت میں لے جانا عوام کا کام ہے۔ جو مثالیں میں نے اوپر دی ہیں ان میں سب جگہ عوام نے سٹینڈ لیا ہے اور کئی جگہ حکومتی اداروں کا رویہ عوام مخالف تھا مثلا ہیموفیلیا والے کیس میں حکومتی ادارے دوا ساز کمپنیوں کی طرفداری کرتے رہے۔ ایک اور کیس میں سرکاری ماحولیاتی ادارے نے کمپنی کو بچانے کے لئے کیمیکل کی ہزاروں گنا زیادہ مقدار کو محفوظ قرار دے دیا۔ پھر بھی لوگوں نے لڑ کر اپنا حق لیا۔ کمپنیوں کی اکاؤنٹیبلٹی زیادہ ہے۔ ان کو قانون بھی پکڑ سکتا ہے، ان کو سزا بھی سخت ملتی ہے، ان کو اپنی ساکھ اور شہرت کا بھی خیال ہوتا ہے۔ اسلئے ان سے چیز خریدنا بہتر ہے بنسبت کھلی غیر معیاری چیزوں کے۔ اگر کمپنی نے کوئی نقصان دہ چیز ڈبے پر نہیں لکھی اور وہ موجود ہے اور آپ ثابت کر سکتے ہیں تو آپ عدالت میں کیس کر سکتے ہیں اور بہت آسانی سے کروڑوں کما سکتے ہیں۔

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech