جمہوریت کا مقصد یہ ہے کہ حکومت عوام کی مرضی کے مطابق چلے۔ ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں عوام تو کیا پڑھے لکھے دانش ور قسم کے لوگ بھی یہ نہیں سمجھتے کہ قوانین کیا اور کیوں ہیں اور معاملات کا انتظام کیسے چلایا جانا چاہیئے، وہاں حکومت کو عوام کی مرضی کے مطابق چلانا بھلا کہاں ممکن ہو گا؟
مثال یہ لیں کہ ایک ہوائی جہاز 2010 میں مارگلہ کے پہاڑوں میں حادثے کا شکار ہو گیا۔ اس کے بعد سے اس میں مرنے والوں کے لواحقین جدوجہد کر رہے تھے کہ جہازوں کی سیفٹی کے انتظامات بہتر بنائے جائیں۔ لیکن حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ عدالت کے کہنے پر قوانین کے مسودے تیار ہوئے لیکن پارلیمنٹ نے ان کو قانون بنانے یا ان پر عملدرآمد کروانے پر کوئی خاص توجہ نہیں کی جیسے آج کل سموگ کے معاملے پر حال ہے۔ یہاں تک کہ ایک اور حادثہ 2016 میں ہوا جس میں جنید جمشید بھی جاںبحق ہوئے تھے۔ پھر ایک اور حادثہ 2020 میں کراچی میں ہوا۔ نتیجہ یہ کہ غیر ملکی اداروں نے سخت فیصلہ لیتے ہوئے نہ صرف پاکستانی جہازوں کے اپنے علاقوں میں داخلے پر پابندی لگا دی بلکہ غیر ملکی جہازوں کے پاکستان سے صرف گزرنے سے بھی پابندی لگا دی گئی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ مسئلہ صرف پائلٹس کی غلطی کا نہیں بلکہ انتظام چلانے والے تمام لوگوں کا تھا جو عام لوگوں کی طرح ہر معاملے میں جگاڑ اور لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہے تھے کہ یہ پیچ کسنے یا نہ کسنے سے کیا ہو جائے گا، یا میں دس منٹ لیٹ ہو گیا تو کون سی قیامت آ جائے گی، یا ایک دن سینسر کی ریڈنگ نوٹ نہیں ہو سکی تو کیا جہاز گر گیا ہے، یا میں تھوڑا سا پینٹ چرا کر گھر لے جاؤں تو کیا کمی ہو جائے گی، یا کسی ملازم نے کوتاہی کر دی ہے تو میں بطور افسر اس کے خلاف تادیبی کاروائی کے جھنجھٹ میں کیوں پڑوں۔ یہ وہ رویے ہیں جو کسی ایک محکمے کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر محکمے اور ہر جگہ دیکھنے کو ہی مل جائیں گے خواہ نظام سرکاری ہو یا نجی۔ اور ان روئیوں کی وجہ سے ہونے والی بربادی کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ اس ملک میں رہنا نہیں چاہتے، اس کے اداروں میں پڑھنا نہیں چاہتے، اس کے ہسپتالوں میں علاج نہیں کرانا چاہتے اور یہاں کام کرنے سے جان چھڑاتے ہیں۔
خیر بالاخر عالمی اداروں کی طرف سے ان پابندیوں کے نتیجے میں حکومت کو ہوش آیا جس پر سخت اقدامات شروع ہوئے اور کئی سال پابندیوں، سختیوں، ٹریننگنز، سٹینڈرڈائزیشن، ٹیسٹنگ اور دیگر بہت سے مراحل کے بعد ایک خوشی کی نوید سنائی دی ہے۔ تاہم ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی ان معاملات کو سمجھنے کے بجائے یہ سمجھتا ہے کہ پابندی ایک شخص کی مرضی اور ذاتی خواہش پر لگ گئی تھی تو اب ہٹ بھی ایک شخص کی وجہ سے گئی ہے۔ ایسے میں کم تعلیم یافتہ عوام کو یہ سارے پروسیجرز سمجھانا اور ان کو اس لائق بنانا کہ کل کو وہ اپنی مرضی سے قوانین بنوائیں، دیوانے کا خواب نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ایک ایم پی اے کی فون کال سے نوکری مل جائے گی، یا کالج میں میرٹ کے خلاف داخلہ ہو جائے گا، یا جس سرکاری زمین پر اس نے قبضہ کیا ہوا ہے وہاں سے کھمبا ہٹ جائے گا، تو اس کی سوچ پڑھے لکھے گریجوایٹ سے مختلف تو نہیں ہے۔ دونوں کی سمجھ ایک جیسی ہی ہے۔
اسلیے ہمارے جیسے ملکوں میں تمام پالیسیز اسی طرح باہر کے ادارے ڈنڈے کے زور پر بنواتے ہیں۔ اسی کی ایک اور مثال پی ٹی آئی کی طرف سے میٹرو بس منصوبے کی مخالفت کی ہے، کہ سالہا سال مذاق بناتے رہے اور پھر ورلڈ بینک نے پشاور میں وہی کام کروایا تو اس کا کریڈٹ لیتے رہے۔ یہی چیز آئی ایم ایف کی مخالفت میں بھی نظر آتی ہے کہ ہر پارٹی حکومت میں ہو تو ان کے پاس جاتی بھی ہے اور جب حکومت میں نہیں ہوتی تو ان کے خلاف پراپیگینڈا بھی خوب کرتی ہے۔
تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت کا بالکل فائدہ نہیں ہے؟ میرے خیال میں یہ کہنا بھی درست نہیں ہو گا۔ ہم جیسے ملکوں میں جمہوریت کا کم سے کم یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ لوگوں کو باری باری اپنی مرضی کی حکومت ہونے کا احساس رہتا ہے۔ جب مخالف حکومت میں وہ مہنگائی کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتے ہیں اور شدید مضطرب ہوتے ہیں تو اپنی مرضی کی حکومت میں ہونے والی ریکارڈ مہنگائی پر وہ پرسکون بھی ہوتے ہیں کہ کوئی بات نہیں، اور اپنے دماغ اور دوسروں کو دلائل بھی دیتے ہیں کہ مشکل وقت گزر جائے گا۔ لوگوں کو جب اس چیز کا احساس ہو کہ حکومت ہماری مرضی کی ہے تو وہ اطمینان محسوس کرتے ہیں خواہ حالات اچھے ہوں یا برے اور نتیجے میں وہ بہتر پرفارم کرتے ہیں، ملک کے لیے جوش و جذبے سے کام کرتے ہیں اور اپنائیت کا احساس بھی رکھتے ہیں۔
تاہم جب لوگوں کی اکثریت سے ووٹ کا بے معنی سا یہ حق بھی چھین لیا جائے تو ویسی ہی پژمردگی اور بے دلی چھائی رہتی ہے جیسی آج کل ہر کسی کی شکل اور باتوں میں چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔