غزہ پٹی میں انسانی بحران ایک نئی اور خوفناک شدت اختیار کر گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، اسرائیلی فوج نے شمال، مشرق اور جنوب کے وسیع علاقوں کو خالی کروا لیا ہے، جس میں رفح کا تل السلطانیہ علاقہ بھی شامل ہے۔ یہ انخلاء انتہائی مشکل حالات میں ہو رہا ہے: لوگوں کو روزے کی حالت ، سردی میں، ننگے پاؤں، بے سر و سامانی کی حالت میں، اپنے بیماروں اور بچوں کو اٹھائے، گھروں سے بے دخل کر کے طویل فاصلے طے کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس دوران دل دہلا دینے والی شہادتیں سامنے آ ئیں، جن میں ماؤں نے اپنے بچوں کو آنکھوں کے سامنے گولی لگتے یا بمباری میں ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر مہینوں “رفح پر نظر رکھو” کی مہم چلنے کے باوجود آج رفح مکمل طور پر زمین بوس ہو چکا ہے۔

یہ صورتحال صرف انخلاء تک محدود نہیں ہے۔ ہزاروں افراد، جن میں طبی عملہ بھی شامل ہے، تل السلطانیہ جیسے علاقوں میں اسرائیلی فوج کے محاصرے میں ہیں، جہاں نہ کوئی اندر آ سکتا ہے، نہ باہر جا سکتا ہے، اور نہ ہی باہر سے کوئی امداد پہنچ سکتی ہے۔ غزہ پٹی پر گزشتہ دو ماہ سے مکمل ناکہ بندی ہے، جس کے باعث خوراک، ادویات اور ایندھن کی شدید قلت ہے۔ اس دوران، نصر میڈیکل کمپلیکس جیسے اہم اور فعال ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جو پہلے ہی بمباری کا شکار ہونے کے بعد بڑی مشکل سے بحال ہوئے تھے۔ خیموں، کیمپوں، بازاروں اور بیکریوں کے باہر جمع عام شہریوں پر صیہونی حملے روز کا معمول بن چکے ہیں۔

اس موجودہ المیے کو سمجھنے کے لیے تاریخی تناظر اور بیانیے کی جنگ کو دیکھنا ضروری ہے۔ ایک طویل عرصے تک، خاص طور پر 1980 کی دہائی کے آخر تک، اسرائیل نے اپنے قیام اور اقدامات کے بارے میں بیانیے کو انتہائی اہمیت دی اورپوری دنیا میں اس کو کامیابی سے کنٹرول کیا۔ لیون یورس کی کتاب ‘Exodus’ اور اس پر مبنی فلم جیسی تخلیقات نے اسرائیلیوں کو مثبت اور عربوں کو منفی شکل میں پیش کیا۔ تاہم، بعد میں آنے والے اسرائیل کے ‘جدید مورخین’ نے سرکاری دستاویزات تک رسائی حاصل کرکے اس قائم شدہ بیانیے کو چیلنج کیا اور اسرائیل کے قیام سے متعلق کئی من گھڑت باتوں کو بے نقاب کیا۔ہاتھ میں لے کر گھومنے والے کیمروں کے عام ہونے کے بعد سیاحوں نے صابرہ اور شتیلہ کے قتل عام کی ویڈیوز مغرب تک پہنچائیں تو ایک دفعہ پھر عالمی سطح پر بیانیے کو کنٹرول کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی جس کے لیے عالمی میڈیا کو ہتھیار بنایا گیا۔

مغربی میڈیا، خاص طور پر ٹیلی ویژن، اکثر جنگ کی ہولناکیوں کو مغربی عوام کے سامنے نہیں رکھتا۔ جیسا کہ ایک تجربہ کار صحافی رابرٹ فسک نے عراق کی جنگ کے دوران بصرہ کے ہسپتال پر بمباری کی فوٹیج کے حوالے سے بتایا، کہ مغربی نشریاتی ادارے اکثر خونریزی، زخمی بچوں اور لاشوں کی “واہیات” تصاویر دکھانے سے گریز کرتے ہیں تاکہ مغربی ناظرین کو “چائے کے وقت” پریشان نہ کیا جائے۔ کٹے پھٹے جسموں کے ٹکڑوں کو چھپانے اور دھندلانے کا اصل مقصد جنگ کو ایک غیر حقیقی، خونریزی سے پاک مشق کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے۔ یوں سیاسی رہنما (جنہیں اکثر جنگ کا کوئی ذاتی تجربہ نہیں ہوتا) عوام کے سامنے جنگ کی مارکیٹنگ فتح و شکست کے ایک کھیل کے طور پر کرنے میں آسانی سے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ تاہم حقیقت میں جنگ ایک بہت مختلف چیز ہے۔ یہ بڑے پیمانے پر موت اور انسانی روح اور احساس کی مکمل ناکامی کا دوسرا نام ہے۔

جہاں اسرائیل روایتی میڈیا (جیسے ٹی وی، ہالی وڈ، اخبارات) پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہیں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی غیر فلٹر شدہ ویڈیوز کو کنٹرول کرنا اس کے لیے ایک “ڈراؤنا خواب” ثابت ہو رہا ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا، خاص طور پر ٹک ٹاک جیسی ایپس، نے اس بیانیے کی جنگ میں ایک نیا انقلاب برپا کر دیا ہے۔ لوگ براہ راست دیکھ رہے ہیں کہ زمین پر کیا ہو رہا ہے۔ حیرت انگیز طور پر، بعض اوقات اسرائیلی فوجی خود فلسطینیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کی ویڈیوز بنا کر آن لائن پوسٹ کر رہے ہیں، جو اسرائیل کے لیے تعلقات عامہ کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ پوری دنیا براہ راست دیکھ رہی ہے کہ فلسطینیوں کو کس قسم کی درندگی اور پسماندہ ذہنیت کا سامنا ہے۔

انہی ویڈیوز اور زمینی حقائق نے جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالت انصاف (ICJ) میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے کو تقویت بخشی ہے۔ مقدمے میں دلیل دی گئی ہے کہ نسل کشی ثابت کرنے کے لیے نیت اور عمل دونوں کا ثبوت 7 اکتوبر کے بعد اسرائیلی رہنماؤں کے سوشل میڈیا بیانات خود ہیں۔یہاں تک کہ ان ویڈیوز کو ہارٹز جیسے بنیاد پرست اسرائیلی اخبار نے بھی “دی ہیگ کی عالمی عدالت کا راستہ ہموار کرنے والا” قرار دیا کہ یہ نسل کشی کی نیت کا واضح ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ نہ صرف ٹک ٹاک، بلکہ دیگر تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لوگوں نے فلسطینیوں کی تکلیف کو محسوس کیا اور ان کی آواز کو آگے پہنچانے میں حصہ ڈالا یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا کہ تمام تر اقدامات کے باوجود ان کمپنیوں کی سنسرشپ کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔ دوسری طرف آج ٹک ٹاک پر شدید دباؤ ہے کہ وہ اپنے آپریشنز کسی امریکی کمپنی کو بیچ دے، یعنی مغربی سنسرشپ کو قبول کر لے۔ اسرائیل اور اس کے امریکی ہمنواؤں کو امید ہے کہ اس کے بعد وہ ایک دفعہ پھر بیانیے کو کنٹرول کرنے پر قادر ہو جائیں گے۔

غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف ایک علاقائی تنازعہ نہیں، بلکہ انسانیت کا امتحان ہے۔ ایک طرف ناقابل بیان مصائب اور منظم تباہی ہے، اور دوسری طرف بیانیے کی جنگ، جہاں سوشل میڈیا ان حقائق کو سامنے لا رہا ہے جنہیں روایتی میڈیا ایک عرصے سے کامیابی سے چھپاتا رہا ہے۔ یہ دنیا کی پہلی براہ راست نشر ہونے والی جنگ ہے جس کی ہولناکیوں کو پوری دنیا کے چھوٹوں بڑوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ کسی طرح بھی کوئی مذاق نہیں ہے۔ تاہم ڈر اس بات کا ہے کہ لوگ ان جرائم کو معمول کی کاروائی سمجھ کر بے حسی کی طرف مائل نہ ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ سے آنے والی ان آوازوں، ویڈیوز اور شہادتوں کو دوسروں تک پہنچانا انتہائی اہم ہے۔ ان معلومات نے پہلے سے قائم اور یکطرفہ بیانیے کو توڑنے اور عالمی رائے عامہ کو تبدیل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا تاہم اسے رکنا نہیں چاہیئے۔ ہم سب دیکھ چکے ہیں کہ احساس اور درد مندی ان الگورتھمز کی تمام دیواروں کو توڑ سکتے ہیں۔ ان معلومات کو مسلسل شئیر کرنا اس لیے ضروری ہے کہ حقائق دب نہ جائیں، دنیا باخبر رہے، اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر جوابدہی کا مطالبہ زندہ رہے۔

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech