یہ عام مشاہدہ ہے کہ غریب گھروں کے بچوں کے مقابلے میں امیر گھروں کے بچے تعلیمی میدان میں بہتر کارکاردگی دکھاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو یہ بات حیران کن نہیں لگے گی، کیونکہ زیادہ وسائل بہتر مستقبل کی ضمانت ہوتے ہیں- معیاری تعلیم تک رسائی کی وجہ سے امیر گھروں کے بچوں کا آگے نکلنا سمجھ آتا ہے۔ تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ محققین نے معلوم کیا ہے کہ ابتدائی چند سالوں کے دوران زبان کا درست استعمال تعلیمی زندگی میں بہتر نمبروں کی وجہ بنتا ہے اور اسی کی وجہ سے عدم مساوات کی ابتدا بھی ہوتی ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ اس کا تعلق الفاظ کے استعمال سے جڑا ہے۔ یعنی درست الفاظ کا استعمال۔ نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ والدین اور بچوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کا اثر آئندہ زندگی میں تعلیمی میدان کی کارکردگی پر پڑتا ہے۔ محققین نے دیکھا کہ امیر اور غریب گھرانوں میں بچوں سے بات کرنے کے انداز میں واضح فرق ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ زیادہ نمبر حاصل کرنے والوں کے مکالمے کیسے ہوتے ہیں۔

زیادہ الفاظ کی غلط فہمی

ایک لمبے عرصے تک، ماہرین کا خیال تھا کہ بچوں کے سامنے شروع عمر ہی سے زیادہ تعداد میں الفاظ بولنا ان کی زبانی مہارت اور بعد میں تعلیمی کامیابی کا باعث بنتا ہے۔ نوے کی دہائی کے اوائل میں، ایک چھوٹی سی تحقیق نے اب بدنام زمانہ “30 ملین لفظوں کے فرق” کے نظریے کو جنم دیا۔ اس تحقیق میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ متوسط طبقے کے بچوں کے مقابلے میں، غریب گھرانوں میں پروان چڑھنے والے بچے 3 سال کی عمر تک 30 ملین کم الفاظ سنتے۔ محققین کا خیال تھا کہ کم الفاظ سننے کی وجہ سے ان بچوں کا اپنا ذخیرہ الفاظ بہت کم ہو گا جو بعد میں ان کی بہتر کارکردگی میں رکاوٹ بن جائے گا۔

تاہم اب ہم جانتے ہیں کہ یہ درست نہیں ہے. بہت سی تحقیقات کے بعد اب یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ جب بچے کے دماغ کے اہم حصے اور صلاحیتیں بن رہے ہوتے ہیں تو اس دوران وہ جس قسم کی باتیں سنتا ہے، ان سے اس کے الفاظ سیکھنے کی صلاحیت پر فرق پڑتا ہے۔ یعنی تعداد کے برعکس طریقہ زیادہ اہم ہے۔

تیس ملین الفاظ والی تحقیق میں دو غلطیاں تھی۔ ایک یہ کہ اس میں بہت کم لوگوں کا ڈیٹا لیا گیا تھا اور دوسری یہ کہ نسلی تعصب کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھا۔ ان دونوں مسائل کو حل کر کے محققین نے یہ پتہ لگایا کہ والدین کی بچوں کے ساتھ گفتگو مختلف سماجی اور اقتصادی گروہوں میں دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایم آئی ٹی کی 2017 کی تحقیق کے مطابق، کم کمانے والے والدین اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ کمانے والوں کے مقابلے میں بہت کم بات چیت کرتے ہیں (اس مطالعے میں والدین کی سالانہ آمدنی $6,000 سے $250,000 تک تھی)۔ اس وجہ سے ان بچوں کی دماغی نشو و نما ٹھیک طرح نہیں ہو پاتی۔ محققین نے والدین سے کہا کہ وہ اپنے بچے کو کہانی پڑھ کر سنائیں۔ اور اس دوران بچوں کے دماغ کا ایم آر آئی سکین کیا گیا۔ کہانی سننے کے دوران دونوں کے مابین سوال جواب جتنے زیادہ ہوتے تھے، بچوں کے دماغ کے ان حصوں میں اتنی ہی زیادہ سرگرمی نظر آئی جو زبان کو سمجھنے کے ذمہ دار ہیں۔

ان نتائج کی بنیاد پر، ایم آئی ٹی کے سائنسدانوں نے زور دیا کہ بچوں کو صرف ہدایات دینے کے بجائے ان سے مکالمہ کرنا چاہیئے۔ سماجی و اقتصادی حیثیت سے قطع نظر، تمام والدین میں ایسا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ گفتگو، بدلے میں، بچے کی زبان کی مہارت کے لیے اور بعد میں اسکول میں ان کی کامیابی میں زیادہ مددگار ہو گی، بجائے اس کے کہ ان پر بہت سے دلکش الفاظ لادے جائیں۔

دوسرے محققین نے بھی ایسے طریقے تلاش کیے ہیں جن کے ذریعے بچوں اور والدین کے درمیان مکالمے کی کثرت اور سیاق و سباق کا تعلیمی استعداد پر واضح اثر نظر آتا ہے۔ میریمیک کالج میں چائلڈ ڈویلپمنٹ کی پروفیسر کیٹلین کرکول، ایجوکیشن ڈاکٹر، نے بوسٹن یونیورسٹی میں بطور گریجویٹ طالب علم اس موضوع پر تحقیق شروع کی تھی۔ انہوں نے اور ان کی ٹیم نے بالخصوص یہ تجزیہ کیا کہ مختلف سماجی اقتصادی گروپوں کے والدین اپنے پانچ سال سے چھوٹے بچوں سے کس طرح سوال جواب کرتے ہیں اور ان کے سمجھانے کا انداز ان کے بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت کو کیسے متاثر کر سکتا ہے۔

میکانکی زبان سے بچوں کی کارکردگی اچھی کیسے ہوتی ہے

ان کی تازہ ترین تحقیق میں، جو ابھی تک اشاعت کے مراحل میں ہے، محققین نے کم اور درمیانے سماجی اقتصادی گھروں کے 3 سے 5 سال کے بچوں کو، اپنے والدین کے ساتھ ایک کھلونے سے کھیلتے ہوئے ریکارڈ کیا۔ یہ کھلونا ایک سرکٹ بورڈ تھا جو اس عمر کے بچوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس کا مقصد بچوں میں تجسس پیدا کرنا اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت کو ابھارنا تھا۔ تمام ٹکڑوں کو ٹھیک جوڑنے سے، ایک لائٹ بلب جگمگا اٹھتا تھا۔ جیسا کہ عموما ہوتا ہے، بچوں نے کھیل کے دوران والدین سے بہت سے سوال پوچھے۔ اس حوالے سے کرکل کا کہنا تھا کہ “ہم نے والدین کے جوابات کا جائزہ لیا۔ مثلا تین سال کا بچہ ممکنہ طور پر پوچھ سکتا ہے ‘سوئچ کیسے کام کرتا ہے؟'”

بچوں کے پوچھے گئے سوالات کے بارے میں، دونوں سماجی اقتصادی گروپوں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ یعنی امیر اور غریب گھروں کے بچوں نے ایک جیسے ہی سوال پوچھے۔ کرکول کا کہنا ہے کہ “وہ بہت ملتے جلتے سوال پوچھتے ہیں جن کا مقصد بھی ایک سا ہی ہوتا ہے: مزید معلومات کی تلاش اور وجہ جاننے کی کوشش۔” “فرق اس بات میں تھا کہ والدین نے کیا جواب دیا۔” خاص طور پر، امیر گھرانوں کے والدین نے جس انداز میں جواب دیے، محققین اسے میکانکی زبان کہتے ہیں جبکہ غریب گھروں میں والدین نے ایسا نہیں کیا۔

میکانکی زبان میں تفصیل اور وضاحت ہوتی ہے، جس سے بچے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مثال کے طور پر، “سوئچ کیسے کام کرتا ہے؟” کا میکانکی جواب یہ ہو سکتا ہے “سوئچ سے سرکٹ مکمل بنتا ہے۔ ابھی، تار جڑی ہوئی نہیں ہے، جب آپ بٹن دباتے ہیں تو تار جڑ جاتی ہے، اور اس سے بلب کو کرنٹ ملتا ہے۔” دوسری طرف، ایک غیر میکانکی وضاحت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ “بٹن سے آن اور آف ہو جاتا ہے۔”

پہلے جواب میں استعمال کی گئی میکانکی زبان – وہ قسم جو تحقیق کے مطابق امیر والدین نے زیادہ استعمال کی – بچوں کو مزید معلومات فراہم کرتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سے بچوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ مزید سوال پوچھتے ہیں۔ بچوں کے سوالات، اور ان کے بعد کی گفتگو ان کے دماغ کی نشوونما کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔

زیادہ میکانکی زبان استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ، امیر گھرانوں میں والدین اپنے بچوں کے سوالات کے غیر سرکلر جوابات دینے کا بھی زیادہ امکان رکھتے تھے، جب کہ غریب گھرانوں کے والدین سرکلر جوابات دینے کا رجحان رکھتے تھے۔ سرکلر جوابات میں کوئی نئی معلومات شامل کیے بغیر اصل سوال کی بات ہی دوہرا دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی بچہ پوچھے کہ ابو کہاں گئے، تو ایک سرکلر جواب ہو سکتا ہے، “والد باہر گئے ہیں” – اس جواب میں کوئی نئی یا معلوماتی چیز نہیں ہے۔ تاہم، ایک غیر سرکلر وضاحت یہ ہو گی کہ “والد گھر کا سودا سلف خریدنے بازار جا رہے ہیں تاکہ ہمارے پاس پینے کے لیے دودھ اور کھانے کے لیے کھانا ہو” — اس میں بچے کے لیے اہم معلومات ہیں اور مکالمہ جاری رکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کا امکان زیادہ ہے۔

کرکول کا کہنا ہے کہ والدین کی اپنی تعلیم اورعلم کی سطح یہ بات طے کرے گی کہ وہ غیر سرکلر جوابات فراہم کرتے ہیں اور میکانکی زبان استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں۔ وہ کہتی ہیں، “یہ دو عوامل والدین کے اپنے ذخیرہ الفاظ پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں”۔ اس  سے واضح ہوتا ہے کہ کم سماجی اقتصادی گھرانوں میں والدین سرکلر جوابات پر زیادہ انحصار کیوں کرتے ہیں – ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس زیادہ معلومات افزا غیر سرکلر جوابات فراہم کرنے کے لیے ذخیرہ الفاظ اور معلومات موجود نہ ہوں۔

“اس کے علاوہ، [درمیانے اور اعلی سماجی اقتصادی] پس منظر والے والدین اپنے بچوں کو عجائب گھروں میں لے جا سکتے ہیں اور انہیں ایسے ماحول سے روشناس کراتے ہیں جہاں کم سماجی اقتصادی گھرانوں کے بچوں کو رسائی حاصل نہیں ہو سکتی،” کرکول مزید کہتی ہیں۔

ابتدائی زندگی میں زبان کیوں اہم ہے

ماضی کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ والدین کسی بھی سماجی اقتصادی گروپ سے تعلق رکھتے ہوں، وہ اپنے بچوں کو معلومات دینے میں کتراتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ان کے چھوٹے بچے اس کو سمجھ نہیں سکیں گے۔ کرکول کا کہنا ہے کہ “وہ پیچیدہ جواب نہیں دیتے کیونکہ  انہیں لگتا ہے کہ بات بتانے یا نہ بتانے سے فرق نہیں پڑتا – انہیں یقین ہے کہ ان کے بچے کو اس عمر میں یہ سب جاننے کی ضرورت نہیں ہے یا وہ بات سمجھ نہیں پائے گا۔ ہماری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بچے میں سمجھنے کی صلاحیت بن سکی ہو یا نہیں، زیادہ تر بچے مکمل تفصیل والی وضاحت کے خواہاں ہوتے ہیں، چاہے وہ تمام مواد کو نہ بھی سمجھ سکیں۔”

یعنی وہ آپ کی بات سمجھنے کی صلاحیت نہ بھی رکھتے ہوں، پھر بھی امید ہے کہ وہ اس میں سے کچھ نہ کچھ اپنے مطلب کی بات پکڑ لیں گے اور کچھ نقطوں کو جوڑیں گے، جس سے آپ کی تفصیلی وضاحت کا فائدہ ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کا بچہ آپ سے پوچھے کہ سرکٹ کیسے کام کرتا ہے اور آپ اسے مکمل تفصیل کے ساتھ سمجھاتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس میں سے بہت سی باتیں نہ سمجھ سکے، لیکن وہ اتنا ضرور سمجھ جائے گا کہ جب تمام ٹکڑے آپس میں جڑ جائیں تو روشنی کا بلب چلتا ہے. لیکن اگر آپ میکانکی زبان استعمال نہیں کرتے تو شاید وہ اتنا بھی نہیں جان سکے گا۔

اس تمام تحقیق سے یہ پتہ لگتا ہے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی اپنی تعلیم کم ہے یا زیادہ، آپ کے پاس کس قسم کی ملازمت ہے، یا آپ کتنا پیسہ کماتے ہیں۔ ضروری یہ ہے کہ بچے کے ساتھ بات کرنے کے انداز کو بہتر بنائیں اور گفتگو کو فائدہ مند بنائیں تاکہ آپ کے بچے کو زبان اور دیگر علوم سیکھنے میں بہترین مدد ملے جو اسے سکول اور آئندہ زندگی کے لیے تیار کرے گی۔

“اصل اہمیت معیار کی ہے، مقدار کی نہیں” کرکول کہتی ہیں “صرف اس بات پر توجہ مرکوز نہ کریں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بلکہ یہ بھی کہ آپ اسے کیسے کہہ رہے ہیں۔ جب آپ کا بچہ کوئی سوال پوچھتا ہے، تو کچھ بولنے سے پہلے اپنے دماغ میں سوچنے سمجھنے کے لیے دو یا تین سیکنڈ کا وقفہ لیں۔ اوریہ نہ کہیں کہ ‘میں نے کہہ دیا ہے اسلیے ایسا ہے،’ کیونکہ اس سے نہ تو بچے کو سیکھنے میں مدد ملتی ہےاور نہ وہ آپ کو معلومات کا اچھا ذریعہ سمجھے گا”۔

اس کے علاوہ، اگر آپ کسی سوال کا جواب نہیں جانتے، تو یہ نہ کہیں کہ “میں نہیں جانتا” کیوں کہ اس سے آپ کے بچے کے تجسس کو ٹھیس پہنچے گی۔ آن ڈیمانڈ معلومات کے اس دور میں، والدین کہہ سکتے ہیں کہ ‘میں نہیں جانتا… لیکن آؤ مل کر جواب ڈھونڈیں’۔ پھر آپ اور آپ کا بچہ ایک ساتھ سیکھ سکتے ہیں جو یقینا یادگار رہے گا۔

اصل مضمون کا لنک:

https://www.fatherly.com/health/raise-high-achieving-test-taker

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech