ہر سال کی طرح اس سال بھی پودوں اور جانوروں کے چیپٹرز پڑھائے تو اس سوچ نے شدت اختیار کر لی کہ جن چیزوں کے بارے میں پڑھا رہا ہوں ان کو بچوں نے دیکھا تو ہوا نہیں ہے، تو ان کو سمجھ کیا خاک آئے گی۔ فروری میں ایک دفعہ پھر کلاس میں تعلیمی دورے کا شوشہ چھوڑا اور آج بتاریخ پندرہ مارچ دو ہزار تیئیس، ہم (میں اور فہیم نواز صاحب) نے اپنے بچوں (طلبا) کے ساتھ جامعہ پنجاب کے شعبہ حیوانیات و نباتیات کے دورے کا رخت سفر بالاخر باندھ ہی لیا۔ میں دونوں شعبہ جات کے صدور کا بہت شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمیں اس دورے کی اجازت دی اور ہماری رہنمائی کے لیے اہلکاروں کو متعین کیا۔ یونیورسٹی پہنچتے ہی پروفیسر ڈاکٹر ناصر صاحب کے پرسنل اسسٹنٹ عامر صاحب نے اپنی مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور ہمیں ہربیریم کا دورہ کروایا جہاں مختلف طرح کی فنجائی، ایلجی، پودوں، اور ان کے پھولوں کو محفوظ کیا گیا تھا۔ میں عامر صاحب کی محبت کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔ پورے دورے کے دوران مجھے ڈاکٹر ناصر صاحب کے سترہ سال پرانے اس کورس کی یاد آتی رہی جب وہ ہمیں لے کر بوٹینیکل گارڈن چلے جاتے اور آگے چلتے ہوئے اشارے کرتے جاتے کہ یہ سائیکس ہے، یہاں نیچے پانی کے کنارے دیکھیں تو موس اگ رہی ہے، اس پودے پر رسٹ ہے اور ہم پیچھے ان پودوں پر لپکتے رہتے تھے۔ آج پورا دن میں ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ ان کا وہ جملہ میرے لیے آج بھی پوری زندگی کا سرمایہ ہے جب میں نہر کے کنارے سے ایک کئی کلو کی بریکٹ فنگس ڈھونڈ کر ان کو دکھانے لے گیا تھا اور اس کو دیکھتے ہی ان کی زبان سے نکلا تھا “تمہیں تو باٹنی میں ہونا چاہیئے تھا”۔ بعض جملے انسان کو فرش سے اٹھا کر عرش پر لے جاتے ہیں اور اس ایک جملے نے ایسی آتشِ شوق جگائی کہ آج تک نہ بجھ سکی۔ یہی شوق کی آگ اب ہم اپنے بچوں میں جلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
ہربیریم سے نکلے تو باٹنی اور زوالوجی کے درمیان والے باغیچے میں بچوں کو فرنز دکھانے لگا۔ پھر وہیں میل سائکس، سرو اور قد آور ایروکیریا کے درخت تھے۔ اس کے بعد ہم زوالوجی ڈیپارٹمنٹ کے فاسل ڈسپلے سنٹر پہنچ گئے۔ یہاں پینتیس لاکھ سال پرانے ہاتھی کے دانت سے لے کر چار کروڑ سال پرانی سٹار فش اور سینکڑوں دوسری طرح کی مخلوقات کے فاسلز بچوں کو ورطہ حیرت میں ڈالتے رہے۔ مجھے امید ہے کہ ان فاسلز کو دیکھنے کے بعد بچے ارتقا کو بخوبی سمجھ بھی سکیں گے اور اپنی دھرتی کی کروڑوں سال پرانی تاریخ بھی ان کے ذہنوں میں نقش ہو جائے گی۔ یہاں ہمارا فائلیٹک لائنیج والا ٹاپک سیدھا ہو گیا۔ اس کے بعد فہیم صاحب ہمیں ڈویلپمنٹل بائیولوجی کی لیب اور اینیمل ہاؤس لے گئے جہاں ہم نے چوہوں کو پیار کیا۔ پھر ہمارا رخ بوٹینیکل گارڈن کی طرف ہوا جہاں مختلف طرح کے پودے اور درخت مثلا کئی طرح کے کیکٹس، پام، کیلے، واٹر لِلیز، سرو، چیڑھ، جنکگو، شاہ بلوط، لالہ، اور دیگر کئی قسموں کے پودوں نے بچوں کی باٹنی سیدھی کر دی۔ یہاں کھڑے کھڑے ہم نے پورا چیپٹر نائن پڑھ لیا۔ اور ساتھ ہی لائف سائیکل آف پائن بھی پریکٹیکل کے نظریے سے دیکھ لیا۔ وہاں سے نکلے تو اگلا پڑاؤ مگس بانی کا فارم تھا جہاں ورکرز نے ہمیں چہرے پر پہننے کے لیے جالیاں دیں اور ہمیں مکھیوں کے چھتوں کا تفصیلی دورہ کروایا۔ ہم نے چھتے سے شہد بھی چکھا اور مکھیوں کو اپنے ہاتھ پر بھی چلایا۔ چھتے میں سے بچے بھی دیکھے اور رانی بھی۔ انہوں نے ہمیں مکھیوں سے حاصل ہونے والے شہد، پولن، رائل جیلی، کے فوائد بتائے اور شہد کی خصوصیات بھی بتائیں۔ اور ہم اس ننھی سے مکھی کے کارنامے پر عش عش کرتے ہوئے اگلی منزل کی طرف چل پڑے۔
وہاں سے ساتھ ہی زوالوجی کا نیچرل ہسٹری میوزیم تھا۔ یہاں شبیر صاحب نے بچوں کو پاکستان کے ایمفی بیا، ریپٹائلز، برڈز اور میملز کے بارے میں اہم معلومات دیں۔ ہم نے مختلف فائلمز کے سینکڑوں نمونے دیکھے۔ ساتھ ہی جانوروں کے ڈھانچوں میں چھپے ارتقا کے رازوں سے پردے اٹھائے۔ یہاں ہم نے پورا چیپٹر نمبر دس ریوائز کیا۔ اس کے بعد ہم ساتھ ہی بنے فش فارمز پر پہنچ گئے۔ یہاں موجود اہلکاروں نے مچھلیوں کا کھانا ہمیں پیش کیا (کھانے کے لیے نہیں، کھلانے کے لیے)۔ ہم جب یہ گولیاں پانی میں پھینکتے تو چھوٹی چھوٹی مچھلیاں اسے کھانے کو لپکتیں۔ گندم کے کھیتوں سے ہم نے رسٹ اور سمٹ کے سیمپل اکٹھے کیے۔ اب دوپہر کے تین بج رہے تھے اور شدید خواہش کے باوجود ہم یونیورسٹی کا صرف ایک فیصد بھی نہیں دیکھ سکے تھے۔ ابھی تو ریسرچ لیبز بھی باقی تھیں اور ریسرچرز سے بھی ہم نہیں ملے۔ کسی استاد سے بھی بات نہیں کی۔ لیکن اب بچوں کی زبانیں پیاس سے باہر آ رہی تھیں اور پیٹ میں تتلیاں اڑنے لگی تھیں۔ وہ کبھی کوئی بیری ڈھونڈ کر اس کو وٹے مارتے اور کبھی کسی شہتوت سے لٹکنے لگتے۔ اس سے پہلے کہ وہ درختوں کے پتے ہڑپنا شروع کرتے، ہم نے انہیں ویگن میں بٹھایا اور یونیورسٹی سے نکلنا مناسب سمجھا۔ اب ہمارا رخ رافع چکن بریانی، برکت مارکیٹ کی طرف تھا جنہوں نے ہمارے لیے نہایت معقول ریٹ پر بریانی کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ یہاں جہاں کوئی کل کے ریٹ پر چیز نہیں دیتا، انہوں نے ہمیں ایک ماہ پرانے ریٹ پر بریانی کھلائی۔ اللہ ان کے کاروبار میں برکت دے۔
کھانے کے بعد دماغ کو خون کی ترسیل بحال ہوئی تو سوچا اب کیا کریں۔ کوئی بھی عقل مند ہوتا تو گھر کا رخ کرتا۔ لیکن ہم سرپھروں کا دورہ ابھی شروع ہونے لگا تھا۔ ہمارا اگلا ٹارگٹ اب لاہور سفاری زو تھا۔ دو تین غلط ٹرن لینے کے بعد سفاری کے گیٹ پر پہنچے تو ہمارے نہایت عزیز دوست غلام رسول اعوان صاحب پہلے ہی دربانوں کو ہماری تشریف آوری پر ہوشیار کر چکے تھے۔ وہ آج کل سفاری کے شیروں کے بادشاہ ہیں۔ دربانوں نے ہمیں سلام ٹھوکا اور وردیاں پہنے ہماری گاڑی کے آگے آگے ہماری رہنمائی کرنے لگے۔ ہم سانپ گھر کے کوبراز سے لطف اندوز ہو کر فارغ ہوئے ہی تھے کہ غلام رسول صاحب جیپ لے کر خود وارد ہو گئے اور ہمیں بٹھا کر شیروں کی کچھار میں لے گئے جہاں مستعد شیرنیوں اور ببر شیروں نے ہمارا استقبال کیا۔ پھر اس کے بعد ہم نے بچوں کی طرح جھولے لیے اور بڑھاپے کی وجہ سے خوب چینخیں بھی ماریں۔ سفاری کی جھیل میں کشتی کی سیر بھی کی اور ہرنیوں کی چھلانگیں بھی دیکھیں۔ اڑھائی سو ایکڑ کی اس جاگیر میں ہزاروں چرند پرند اکٹھے کیے گئے ہیں جو عوام کی تفریح اور تعلیم کا اہم ذریعہ ہیں۔ بالاخر صبح آٹھ بجے کے نکلے ہم رات آٹھ بجے گھر پہنچے تو سب کی زبانوں پر “الحمد للہ” کا کلمہ تھا۔ آخر میں میں تمام والدین کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کی اجازت اور خواہش سے یہ انتہائی فائدہ مند اور دلچسپ دورہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ ساتھ ہی اپنے ہر دل عزیز پروفیسر شہباز حسین صاحب کا شکریہ جنہوں نے صرف ایک فون کال پر ہمارا ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کروا دیا جو حالات کی وجہ سے شاید سب سے مشکل کام تھا۔ ساتھ ہی پرنسپل صاحب کا بھی شکریہ جنہوں نے آدھی زبان سے کہنے پر اس دورے کی اجازت دے دی۔ اب ٹانگوں میں بھی شدید درد ہے اور بازوؤں میں بھی جان ختم ہو رہی ہے لیکن یہ رپورتاژ درج کر دی ہے تاکہ سند رہے اور کالج میگزین چھپتے وقت کام آئے۔ اہم اطلاع: اس دوران جن لوگوں کی ہم نے تعریف کی انہوں نے ہمیں پبلسٹی کے لیے کوئی پیسے نہیں دیے ہیں۔ نہ ہم نے ان لوگوں کو پیسے دیے جو پورے دورے کے دوران ہماری تعریفیں کرتے رہے۔ اعلان ختم شد۔