گزشتہ دنوں مجھے پشاور میں ایک نجی سکول کے زیر اہتمام منقعد ہونے والے سائنسی مقابلے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ بطور استاد اور سائنسدان ایسے مقابلے ہمیشہ ہی میرے لئے دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں، کیونکہ ایک طرف تو یہ مقابلے طلباء کی سائنسی موضوعات میں دلچسپی بڑھانے کا سبب بنتے ہیں تو دوسری طرف ان بچوں کا جوش و خروش ذاتی طور پر میرے لئے بھی تسکین اور امید کی کرن کے طور پہ کام آتا ہے۔
یہ مقابلہ پہلی سے پانچوں جماعت کے طلباء کا تھا جس میں کوئی نئی، انوکھی یا اچھوتی سائنسی اختراعات کی توقع ظاہر ہے کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اس مقابلے میں شریک بچوں نے اپنے اساتذہ کی رہنمائی میں مختلف ماڈلز بنائے ہوئے تھے جن میں نظامِ شمسی، ماحولیاتی موضوعات جیسے آلودگی وغیرہ، اور پانی کی ٹریٹمنٹ پلانٹ وغیرہ کے ماڈلز شامل تھے۔
اس مقابلے میں شرکت کے لئے کوئی درجن بھر سکولوں نے اپنے طلباء کی ٹیمیں بھیجی تھیں۔ اگرچہ پشاور جیسے شہر کے لئے کہ جہاں سینکڑوں سرکاری اور پرائیویٹ سکول ہیں وہاں اتنی تھوڑی سی تعداد یقیناً ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے سکول محض رٹے اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے نمبروں کی دوڑ سے باہر نکل ہی نہیں پا رہے ہیں۔ تمام تو نہیں لیکن ہمارے سکولوں کی ایک غالب اکثریت آج بھی ماضی بعید کے نظام اور طرزِ تعلیم میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جہاں ان کے خیال میں بچوں کے لئے کلاس روم سے باہر کوئی مثبت تعلیمی ایکٹیویٹی ہونا نا ممکن ہے۔

طبقاتی نظامِ تعلیم، معیارِ تعلیم اور ہمارے بچے 1
خیر واپس چلتے ہیں اس مقابلے کی جانب، ایسے مقابلوں میں ایک مثبت چیز جو ہمیشہ ہی میرے مشاہدے میں رہی ہے وہ ہے طلباء کا جوش اور خوش کن شمولیت۔ ہمارے بچے کتابوں کو رٹنے سے زیادہ نئی چیزیں کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ کوئی انہونی بات بھی نہیں ہے کیونکہ دنیا بھر میں طلباء کا یہی رجحان ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو طرزِ تعلیم ہی ایسا بنایا جاتا ہے کہ جس میں طلباء کو زیادہ سے زیادہ لرننگ ایکٹیویٹیز میں شامل ہونے کا موقع مل سکے۔
اس مقابلے میں سرکاری سکول، عام گلی محلے والے پرائیویٹ سکول اور برینڈڈ “برگر” پرائیویٹ سکولوں کی ٹیمیں شریک تھیں۔ ان سب ٹیموں کے ماڈلز بھی تقریباً یکساں موضوعات پہ ہی تھے، جن کا اوپر تذکرہ ہو چکا ہے۔ لیکن ایک چیز جو مجھے شدت کے ساتھ محسوس ہوئی وہ تھی ان بچوں کی تیاری کا فرق۔ جہاں سرکاری اور گلی محلے کے سکولوں سے آنے والے طلباء میں کانفیڈنس کی کمی دیکھنے کو ملی وہیں ان کے پاس اپنے استاتذہ کی طرف سے رٹوائے گئے سکرپٹڈ جملوں کے علاوہ کچھ اور کہنے کو نہیں تھا۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ان سارے کے سارے طلباء میں خود اعتمادی کی کمی تھی ان میں سے کچھ کافی پر اعتماد بھی تھے اپنے اپنے ماڈلز کے بارے میں۔ لیکن اکثر بچوں کو مجھے یہ کہنا پڑتا تھا کہ تھوڑی انوچی آواز میں بتاؤ کہ وہ بہت آہستہ آواز میں اپنا سکرپٹ دہرا رہے ہوتے تھے۔ کچھ ایسے طلباء بھی تھے کہ جن کی آواز تو تیز تھی کہ ان کی ٹیچر نے ان کی پوری پریزنٹیشن باقاعدہ ‘کوریوگراف’ کی ہوئی تھی لیکن سکرپٹ سے ہٹ کر انھیں کچھ اور نہیں پتہ تھا۔
عموماً میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اپنے لیکچر وغیرہ میں بھی اپنے طلباء کو سوچنے پہ مجبور کروں کہ محض وہ حاضری لگانے کی خاطر میری کلاس میں گم سم نہ بیٹھے ہوں، اسی طرح اس مقابلے میں بھی میں نے ہر ٹیم سے یہ کوشش کی کہ ان بچوں کو ان کے سکرپٹ سے ہٹ کر بات کرنے پہ لاوں، اس کا ایک طریقہ تو سوال پوچھنا ہی ہوتا ہے جو کہ میں نے پوچھے اور انھوں نے اپنی عمر اور کلاس کے مطابق جواب دئیے۔ لیکن ایک دوسرا بہت سادہ سا طریقہ جو میں نے اختیار کیا وہ یہ تھا کہ ان سب کو میں یہ کہہ دیتا تھا کہ مجھے انگریزی نہیں آتی ہے لہٰذا مجھے اردو میں بتاؤ۔ یہ بات کسی بھی شخص کو اپنے ذہن میں موجود معلومات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک زبان سے دوسری میں ترجمہ کرنے میں ٹھیک ٹھاک سوچ و بچار پہ مجبور کردیتی ہے۔ ترجمہ کرنا محض الفاظ کا الٹ پھیر نہیں ہوتا بلکہ آپ کو ایک عدد پورا با معنی جملہ بنانا ہوتا ہے تا کہ سامنے والے کو صحیح سے آپ کی بات سمجھ آسکے۔

طبقاتی نظامِ تعلیم، معیارِ تعلیم اور ہمارے بچے 2
عام سکولوں کی بنسبت بڑینڈڈ سکول کے بچوں میں نا تو مجھے کسی قسم کی خوداعتمادی کی کمی نظر آئی اور نا ہی کوئی سکرپٹ محسوس ہوا۔ ان کے ماڈل پہ مجھے ایک بار بھی یہ کہنے کی ضرورت نہیں پیش آئی کہ اونچا بولو بلکہ کئی مرتبہ مجھے یہ کہنا پڑا کہ ایک وقت میں ایک بچہ بات کرے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ایک برینڈڈ یا ‘برگر’ سکول میں اگلش پہ زیادہ زور ہوتا ہے لیکن ان طلباء سے بھی میں نے اردو میں ہی سارے سوال جواب کئے جن کا انھوں نے بغیر کسی رکاوٹ یا ججھک کے جواب دیا۔
ان سب بچوں میں کئی فرق تھے اور ہوںگے بھی، گھریلو ماحول، والدین کا تعلیمی اور معاشی پس منظرلیکن ان سب کے باوجود ایک بنیادی فرق جو باقی ہرقسم کی کمی بیشی کا مداوا کرنے کے قابل ہے وہ ہے ایک اچھا استاد۔ ایک ایسا استاد جو محض اپنی ڈیوٹی کے گھنٹے پورے نہیں کرتا بلکہ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتا ہے۔ ہم میں سے اکثریت کے والدین نے ٹاٹ والے سکولوں میں پڑھا ہوگا تختی لکھی ہوگی، ہمارے وقت میں سکولوں میں نا تو ٹاٹ تھا اور نا تختی، جبکہ آج کے بچے سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کے زمانے میں پڑھ رہے ہیں۔ لیکن ان سب چیزوں کے باوجود ایک اچھا استاد ایسی کسی بھی کمی کو اپنی محنت اور لگن سے پورا کر سکتا ہے۔

طبقاتی نظامِ تعلیم، معیارِ تعلیم اور ہمارے بچے 3
آپ نصاب کی نسبت سوال کر سکتے ہیں کہ شائد ہمارا نصابِ تعلیم دنیا کے مقابلے میں کم تر اور جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ لیکن اس اعتراض کا جواب میں اپنے ذاتی مشاہدے سے دینا پسند کروں گا ۔ آج سے کوئی بیس سال قبل جب میں انٹر کر رہا تھا تھو اس وقت میری کوشش ہوتی تھی ہے کالج کی لائبریری سے جتنا استفادہ ہوسکے کروں۔ کتابی کیڑا میں بچپن سے ہی ہوں لہٰذا جس ادارے میں بھی گیا وہاں سب سے پہلی دوستی میں نے لائبریرین کے ساتھ ہی بنائی تاکہ لائیبریری تک میری رسائی باقی سب کے مقابلے میں بہتر ہو ۔ خیر انٹر میں میں اے اور او لیول کی بیالوجی کیمسٹری اور فزکس وغیرہ کی کتب پڑھتا رہتا تھا اور اپنی انٹر کی کتب کے ساتھ ان کا تقابلی جائزہ بھی لیتا رہتا تھا۔ یقین کریں کے ہماری اور اے او لیول کی کتب میں معلومات کے حوالے سے کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ہے۔ ہاں جو بنیادی فرق تھا وہ معلومات پیش کرنے کے انداز میں تھا۔ اے اور او لیول کی کتب میں معلومات دلچسپ انداز میں ہوتی تھیں جبکہ ہماری کتب میں یہ محض بڑے بڑے نوٹس کی شکل میں ہوتی تھیں۔
غالباً سیکنڈ ائر کی بات ہے کہ اے لیول کی بائیو کی کتاب میں نائٹروجن سائکل ہماری کتاب سے مختلف انداز میں دکھایا گیا تھا۔ مجھے وہ دوسری کتاب والا انداز پسند آیا اور میں نے اپنے بائیو کی اسائمنٹ میں یا کسی ٹسٹ میں وہ والا سائکل بنا دیا ۔ اس پہ ہمارے بائیع کے استاد نے نا صرف مجھے منع کردیا کہ یہ امتحان میں مت بنانا کیونکہ بورڈ میں پرچے چیک کرنے والے صرف انٹر کی کتاب سے ہی پرچے چیک کریں گے اور اگر تم نے یہ والا سائکل بنایا تو وہ اس کو غلط سمجھ کر پورا سوال ہی غلط کر دے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ میرے بائیو کے ٹیچر کنوئیں کے مینڈک تھے یا پھر ان کو دوسری کتابوں سے استفادہ کرنا پسند نہیں تھا ہرگز نہیں ، بلکہ یہ ان کی ایک حقیقت پسندانہ سوچ تھی کہ میرے اس شاگرد کے نمبر نا کم آجائیں ، جو کہ ہمارے نظامِ تعلیم کی مروجہ سوچ ہے۔
کسی بھی استاد کی کامیابی یا اچھائی اس کے طلباء کے حاصل کردہ نمبروں سے نہیں بلکہ ان کے سوچنے سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے ناپی جانی چاہیئے جس طرح عامر خان کی فلم تھری ایڈیٹس میں پیغام دیا گیا تھا کہ
“قابل بنو کامیابی خود ہی جھک مارتی تمھارے پیچھے آئے گی”
ہمیں اپنے بچوں کو قابل بنانا ہے اپنے حصے کی کامیابیاں وہ خود ہی سمیٹ لیں گے اور اس کے لئے ہمیں اپنے استاد پہ محنت کرنا سخت ضروری ہے۔

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.