مجھے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوئے تقریباً دس سال ہو گئے ہیں۔ ان دس سالوں میں ہر سال انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ کے بعد کے حالات اپنے آپ میں ایک منفرد تجربہ ہوتے ہیں۔ ایک طرف جہاں طلبا کی اچھے رزلٹ کی خوشی ہوتی ہے تو وہیں بعض طلبا کے کم نمبروں پر دکھ بھی ہورہا ہوتا ہے۔ لیکن یہ خوشی اور غم تو شاید زندگی کا حصہ ہے۔ جو چیز زیادہ عجیب لگتی ہے وہ یہ کہ زیادہ تر طلبا اپنے نمبروں سے خوش نہیں ہوتے اور اپنے مستقبل کے بارے میں پہلے سے کہیں زیادہ کنفیوز نظر آتے ہیں۔ حالانکہ میٹرک کے امتحانات کے بعد وہ خاصے پر امید بھی تھے اور ان کو یہ بھی واضح تھا کہ آگے کیا کرنا ہے۔ لیکن انٹر کے  نتائج کے بعد صورتحال بہت مختلف ہوتی ہے۔ ایک تو امید سے کچھ کم نمبروں کی وجہ سے بچے پریشان اور شرمندہ ہوتے ہیں وہیں میٹرک کے بعد اپنے طے شدہ ہدف کو حاصل نہ کر پانے کی وجہ سے یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی ہوتی کہ اب کیا کریں۔ اس صورتحال میں جہاں طلبا کی ایک بڑی اکثریت تعلیم جاری ہی نہیں رکھ پاتی وہیں بہت سے طلبا جلد بازی اور پریشانی میں غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں جن کا نقصان انہیں بعد میں اٹھانا پڑتا ہے۔ گرچہ ہر انسان کا معاملہ مختلف ہوتا ہے لیکن ذیل میں چند بنیادی ہدایات دی جا رہی ہیں جو آپ کے فیصلے کو کسی حد تک آسان بنا سکتی ہیں۔

نمبر ذہانت کا معیار نہیں ہیں

ہمارے یہاں ایک عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ اگر نمبر کم ہیں تو آپ کچھ مخصوص شعبوں میں داخلہ لے سکتے ہیں اور دوسرے (اچھے) شعبے آپ کے بس کی بات نہیں۔ یہ انتہائی بے تکی بات ہے۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد طلبا کی ایک واضح اکثریت ایسے مضامین میں داخلہ لیتی ہے جن کے بارے میں وہ پہلے کچھ نہیں جانتے تھے یا جو مضامین انہوں نے پہلے پڑھے ہی نہیں ہیں۔ تو اگر کوئی چیز انہوں نے پڑھی ہی نہیں تو اس مضمون میں ان کے نمبر صفر ہوئے، تو پھر یہ سب لوگ ان مضامین کو آگے کیسے پڑھ لیتے ہیں؟ اس کا جواب بالکل سادہ سا ہے۔ اور وہ یہ کہ نمبر آپ کی ذہانت، سیکھنے، سمجھنے یا مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کو نہیں پرکھتے۔ یہ غلط فہمی ہمارے یہاں اس لیے ہے کہ عموما سرکاری اداروں میں محدود نشستیں ہوتی ہیں (بالخصوص میڈیکل اور انجینئرنگ کے اداروں میں)۔ مثلا میڈیکل میں چند ہزار سیٹوں کے لیے لاکھوں طلبا درخواست دیتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر آپ کے پاس داخلہ دینے کا اختیار ہو تو آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ رشوت، سفارش، یا دباؤ کے تحت اپنے جاننے والوں کو داخلہ دے دیں گے؟ اس مسئلے کے سد باب کے لیے مجبوراً کوئی نہ کوئی ایسا معیار رکھنا پڑتا ہے جو نسبتاً غیر جانبدار اور شفاف ہو اور ہمارے یہاں وہ معیار نمبر ہیں۔ یوں زیادہ نمبر والوں کو اپنی مرضی کے مضامین میں داخلہ مل جاتا ہے اور کم نمبر والوں کو مجبوری میں ایسے مضامین میں جانا پڑتا ہے جن کو وہ نہیں جانتے۔ دوسرے ممالک میں انٹرویو، حالات زندگی، شوق، ہم نصابی سرگرمیوں اور رضاکارانہ خدمات اور دوسری بہت سی چیزوں کو دیکھ کر داخلہ دیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بھی بہت سے ادارے کھیلوں، نعت، قرات، اور دیگر فنون میں مہارت پر داخلے بھی دیتے ہیں اور سکالرشپس بھی۔ اسلیے یہ غلط فہمی ذہن سے نکال دیں کہ آپ کے نمبر کم ہیں تو آپ اچھے شعبوں میں نہیں جا سکتے یا مثلاً اگر آپ نے حیاتیات کا مضمون رکھا تھا تو یہ سوچنا غلط ہے کہ اب آپ کمپیوٹر نہیں پڑھ سکتے۔

لوگوں سے بات کریں

ہمارے یہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بھی ہے کہ ہمیں روزگار کے حوالے سے رہنمائی دستیاب نہیں ہوتی۔ میں اکثر کلاس میں اپنے طلبا سے پوچھتا ہوں کہ ان کے والد کیا کام کرتے ہیں تو عموما نصف کے قریب ہی اپنے والد کا شعبہ بتا پاتے ہیں۔ اور ان میں سے بھی اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو صرف جاب ٹائٹل جانتے ہیں، اصل میں والد سارا دن کیا کرتے ہیں اس بارے میں ان کو علم نہیں ہوتا۔ ایک اور مسئلہ یہاں یہ بھی ہے کہ ہمارے بڑے عموما جو کام کر رہے ہوتے ہیں اس سے ناخوش ہوتے ہیں اور اپنے بچوں کو کسی اور شعبے میں جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ ایک غلط روش ہے۔ بچوں کو اپنے والد کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ان سے اس حوالے سے بات چیت کرنی چاہیے اور کام میں مزید بہتری یا ترقی کے امکانات پر گفتگو ہونی چاہیئے۔ اسی طرح خاندان کے دوسرے افراد، جیسے بڑے بہن بھائی، چچا یا ماموں، یا کزنز وغیرہ سے ان کے شعبہ جات کے حوالے سے گفتگو کی جانی چاہیے تاکہ بچوں کو مختلف شعبوں کے مثبت اور منفی پہلوؤں کے حوالے سے آگاہی ہو اور وہ عملی زندگی میں آنے سے پہلے بالکل کورے نہ ہوں۔ جب کسی مضمون کے بارے میں رائے بنا لیں تو اس مضمون کے کسی ماہر سے بھی اس حوالے سے رہنمائی ضرور لیں۔

کالج یا یونیورسٹی

ایک اور اہم سوال اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے یہ ہے کہ کالج میں داخلہ لیں یا یونیورسٹی میں؟ ہمارے یہاں یونیورسٹی اور کالجوں کے ماحول میں خاصا فرق ہوتا ہے جس کی وجہ سے طلبا کی واضح اکثریت کسی بڑے ٹارگٹ کے بغیر صرف خواہش کی بنا پر یونیورسٹی جانا چاہتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کا اصل مقصد تحقیق ہوتا ہے جبکہ کالجوں کا مقصد تدریس ہے۔ اسلئے آپ کو یونیورسٹیوں میں عموما ایسے استاد ملیں گے جو آپ کو لیکچر دینے سے زیادہ خود مواد ڈھونڈنے اور سیکھنے کی ترغیب دیں گے۔ اس کے مقابلے میں کالجوں میں عموما پڑھانے کا رجحان زیادہ ہونے کی وجہ سے ایسے اساتذہ ملیں گے جو چیزوں کو زیادہ اچھی طرح سمجھا سکتے ہیں۔ تو اگر آپ کسی مضمون پر مکمل دسترس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ کالج میں داخلہ لیں اور اگر آپ کو دوسروں کی مدد کے بغیر خود سے تحقیق کا شوق ہے تو یونیورسٹی بہتر ہے۔ یہاں ایک اور بات جو قابل غور ہے کہ ہمارے یہاں بہت سے ادارے یونیورسٹی ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن ان میں ریسرچ کا کلچر بالکل نہیں ہے۔ یعنی حقیقت میں وہ کالج ہی ہیں۔ اسلئے اگر آپ یونیورسٹی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس حوالے سے وہاں کے سینئرز یا سوشل میڈیا سے ضرور پوچھیں کہ وہاں ریسرچ کی سہولیات کیسی ہیں کیونکہ ریسرچ کے لیے عموما بہت سے وسائل چاہیے ہوتے ہیں۔

سرکاری یا پرائیویٹ ادارہ

سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں تین چیزوں کا واضح فرق ہوتا ہے۔ سب سے پہلا فرق تو فیس کا ہے۔ سرکاری کالجوں میں طلبا کا خرچ ٹیکس کے پیسوں سے ادا ہوتا ہے اسلیے فیس انتہائی معمولی یعنی چند ہزار روپے ہوتی ہے جبکہ پرائیویٹ اداروں میں دس سے تیس ہزار ماہانہ تک ہو سکتی ہے۔ دوسرا بڑا فرق سہولیات کا ہے۔ سرکاری اداروں میں چونکہ اخراجات ٹیکس کے پیسوں سے ادا ہوتے ہیں تو یہاں ایئر کنڈیشنرز، یو پی ایس یا ایسی دیگر سہولیات عموما موجود نہیں ہوتیں جبکہ پرائیویٹ اداروں میں آپ ایسی سہولیات اپنے پیسوں سے حاصل کرتے ہیں۔ تیسرا بڑا فرق اساتذہ کی قابلیت کا ہے۔ سرکاری اداروں میں تنخواہیں اور مراعات چونکہ پرکشش ہوتی ہیں اس لیے وہاں نوکری حاصل کرنے کے لیے کڑا مقابلہ ہوتا ہے جس کہ وجہ سے وہ لوگ سلیکٹ ہوتے ہیں جو ڈگریوں، ٹیسٹ اور انٹرویو کے سخت مقابلوں سے گزر کر آتے ہیں جبکہ پرائیویٹ اداروں میں پڑھانے والے عموما وہ ہوتے ہیں جو یہ ٹیسٹ اور انٹرویو کلیئر نہیں کر پاتے۔ جیسے کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ سرکاری اداروں میں چونکہ کم فیس کہ وجہ سے بہت سے لوگ داخلہ لینا چاہتے ہیں اسلیے وہاں داخلہ نمبروں کی بنیاد پر ہوتا ہے اور فارم جمع ہونے کے بعد میرٹ لسٹیں بنتی ہیں اور زیادہ نمبروں والوں کو پہلے داخلے کی پیشکش کی جاتی ہے۔ اگر سیٹیں پر نہ ہو سکیں تو پھر کم نمبر والوں کو موقع ملتا ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں چونکہ آپ نے اپنی فیس سے سہولیات لینی ہیں تو نمبروں وغیرہ کی شرط یا داخلے کے لیے کسی قسم کا مقابلہ عموما نہیں ہوتا اور آپ اپنی مرضی کے پرائیویٹ ادارے میں اپنی مرضی کے شعبے میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے مقابلے میں پرائیویٹ کالجوں کے حالات بہت برے ہیں۔ اس لیے چند بڑے ناموں کو چھوڑ کر میں کسی پرائیویٹ کالج سے بی ایس کرنے کا مشورہ نہیں دیتا۔ ان کے مسائل پر پھر کسی وقت تفصیل سے لکھوں گا۔ اسی طرح کئی کالج اپنے آپ کو یونیورسٹی ظاہر کرتے ہیں جبکہ ان کو اس کی اجازت نہیں ہے۔ اسلئے کسی پرائیویٹ ادارے میں داخلے سے پہلے ایچ ای سی کی ویب سائٹ سے اس کے بارے میں مکمل تسلی کر لیں۔

کس فیلڈ میں سکوپ ہے؟

اس حوالے سے ایک تفصیلی مضمون میں پہلے لکھ چکا ہوں۔ ہمارے یہاں چونکہ طلبا کو عملی زندگی کے شعبوں سے آگاہی نہیں ہوتی اس لیے طلبا اکثر یہ سوال پوچھتے پائے جاتے ہیں کہ فلاں شعبے کا سکوپ کیا ہے؟ عموما سرکاری اداروں میں جو مضامین پڑھائے جاتے ہیں ان پر ملک کے ماہرین معاشیات اور تعلیم دانوں نے خاطر خواہ تحقیق کی ہوتی ہے کہ صرف وہ مضامین پڑھائے جائیں جن کے بعد طلبا کو روزگار کے حصول میں آسانی ہو۔ آپ کسی بھی شعبے میں داخلہ لیں تو عموما پانچ چھے مختلف طرح کی نوکریوں کے لیے ضرور اہل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی جنرل قسم کی نوکریاں ہوتی ہیں جن میں کسی بھی شعبے میں تعلیم حاصل کرنے والا شخص داخلہ لے سکتا ہے۔ اچھی سرکاری نوکریوں کی تفصیل جاننے کے لیے آپ اپنے صوبے کے پبلک سروس کمیشن کی ویب سائٹ وقتا فوقتا دیکھتے رہیں۔ وہاں عموما پرانی نوکریوں کی تفصیل بھی دی ہوتی ہے جس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کس شعبے میں کتنی نوکریاں ہوتی ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ کسی شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری ہی کریں۔ عموما ہر شعبے کی تعلیم کے دوران آپ کو اس مضمون سے متعلق عملی زندگی کی مثالیں پڑھائی جاتی ہیں جن کا مقصد آپ کو اس شعبے میں کاروباری مواقع کے بارے میں آگاہی دینا ہوتا ہے۔ مثلا معاشیات کے مضمون میں آپ کو تجارتی منڈیوں اور سٹاک مارکیٹ کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے، اسی طرح حیاتایات میں مگس بانی، ریشم کے کیڑے پالنا، یا مشرومز کی کاشت جیسے نفع بخش کاروبار سکھائے جاتے ہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ایسی چیزوں کو کتنی سنجیدگی سے سیکھتے ہیں۔

کامیابی کا انحصار کس بات پر ہے؟

میں نے اکثر یہ بات نوٹ کی ہے کہ طلبا عموما بہت شوق سے کسی مضمون میں داخلہ لیتے ہیں لیکن یہ شوق بہت جلد ماند پڑ جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو ہمارے یہاں کا طریقۂِ تدریس اور امتحانات ہیں تو دوسری بڑی وجہ ہمارے ارد گرد کے لوگوں کا رویہ ہے جو ہمیں بار بار یہ باور کرواتے ہیں کہ ہم صرف وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم بہت جلد بددل ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد صرف وقت گزار رہے ہوتے ہیں۔ یوں جب چار چھے سال بعد تعلیم مکمل کر کے نکلتے ہیں تو ہم بالکل نا امید ہو چکے ہوتے ہیں۔ اگر لوگوں سے پوچھا جائے کہ کامیابی کا انحصار کس چیز پر ہے تو ان کے جواب مختلف ہو سکتے ہیں۔ مثلا کوئی کہے گا کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے پیسہ ضروری ہے، کوئی تعلیم یا ہنر کو کامیابی کی کنجی کہے گا، کسی کی نظر میں قسمت اہم ہو گی تو کسی کی نظر میں قابلیت یا حالات یا وسائل۔ ریسرچ یہ کہتی ہے کہ کامیابی میں سب سے اہم کردار آپ کی استقامت کا ہے۔ اگر آپ مستقل مزاجی سے ایک کام کو مسلسل کرتے رہیں تو بہت زیادہ امکان ہے کہ آپ کامیاب ہو جائیں گے۔ البتہ مستقل مزاجی سے کسی کام کو کرنے کے لیے آپ کو مستعدی سے اس کے پیچھے پڑنا پڑتا ہے۔ مثلا اگر کوئی استاد آپ کو اچھا نہیں پڑھا رہا تو آپ انٹرنیٹ کی مدد سے خود پڑھ سکتے ہیں، اگر کوئی آپ کو یہ کہتا ہے کہ جو آپ کر رہے ہیں اس کا کیا فائدہ ہے تو آپ کے پاس اپنے شعبے میں کامیاب لوگوں کی پوری ایک فہرست ہونی چاہیے، اگر امتحان میں نمبر کم آ گئے ہیں تو اگلی دفعہ اس کا مداوا کرنے کے لیے آپ کو پلان بنانا چاہیئے۔ اس طرح اگر آپ اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو ایک ایک کر کے دور کرتے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ کامیاب نہ ہوں۔

یونیورسٹی میں داخلے کب ہوتے ہیں؟

جب آپ فیصلہ کر لیں کہ آپ نے کرنا کیا ہے اور کہاں سے کرنا ہے تو اس کے بعد مرحلہ آتا ہے کہ آپ نے داخلہ کب اور کیسے لینا ہے۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں داخلے عموما امتحانات کے فورا بعد شروع ہو جاتے ہیں۔ اکثر یونیورسٹیوں کے داخلہ فارم آن لائن ان کی ویب سائٹس پر جمع ہوتے ہیں۔ کئی یونیورسٹیاں اپنا داخلہ ٹیسٹ بھی لیتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے داخلے عموما پورا سال جاری رہتے ہیں اور ٹیسٹ وغیرہ کی ضرورت سوائے چند بڑی یونیورسٹیوں کے کہیں نہیں ہے۔ آپ نے صرف وہاں جا کر فیس جمع کروانی ہوتی ہے اور اگلی کلاس میں آپ کا داخلہ ہو جاتا ہے۔ سرکاری کالجوں میں داخلے رزلٹ کے فوراً بعد شروع ہو جاتے ہیں۔ اکثر صوبوں میں سرکاری کالجوں میں اپلائی کرنے کا مرکزی آن لائن سسٹم موجود ہے جس سے آپ گھر بیٹھے آن لائن درخواست جمع کروا سکتے ہیں۔

تعلیم کے ساتھ نوکری

اکثر طلبا ایک بڑی غلطی یہ کرتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آٹھ دس گھنٹے کی نوکری کر کے فیس کا بندوبست کر کے تعلیم جاری رکھ لیں گے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے۔ اکثر ممالک میں جہاں قوانین کی بالا دستی ہے وہاں طلبا کو دو چار گھنٹے سے زیادہ کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ آٹھ گھنٹے کام کر کے پھر آٹھ گھنٹے پڑھائی نہیں کر سکتے۔ متوازن زندگی کے لیے آٹھ گھنٹے نیند، آٹھ گھنٹے کام، اور آٹھ گھنٹے دوست، رشتہ دار، کھیل کود، نئی چیزیں سیکھنے اور تفریح کے لیے ضروری ہیں۔ ایک کل وقتی نوکری کے ساتھ تعلیم پر توجہ رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ یوں کئی طلبا داخلہ لے تو لیتے ہیں لیکن جلد ہی پڑھائی سے بددل ہو جاتے ہیں یا وہ اپنے مضمون پر مکمل عبور حاصل نہیں کر پاتے۔ اسلیے ہمیشہ ایسی جگہ پر داخلہ لیں جہاں آپ آسانی سے فیس ادا کر سکیں تاکہ بعد میں آپ کو اس حوالے سے مشکل نہ ہو۔ پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ عموما تعلیم مکمل ہونے میں چار سال لگ جاتے ہیں۔ تو اگر آج آپ کے والدین کے لیے دس بیس ہزار فیس ادا کرنا آسان ہے تو کل کو آپ کے بہن بھائیوں نے بھی آگے پڑھنا ہے۔ اس چیز کو مد نظر رکھیں کہ جو چیز آج آسان لگ رہی ہے وہ کل کو مشکل بن کر آپ کو اپنے نصب العین سے ہٹا سکتی ہے۔ البتہ اپنے جیب خرچ کے لیے میں طلبا کو فری لانسنگ کا مشورہ ضرور دیتا ہوں۔ اگر نوکری کرنا مجبوری ہے تو ریگولر تعلیمی ادارے میں داخلہ لے کر بعد میں پریشان ہونے سے بہتر ہے کہ ورچوئل یونیورسٹی یا اوپن یونیورسٹی سے پڑھیں لیکن تب جب آپ میں تعلیم جاری رکھنے کی واقعی خواہش ہو۔ صرف ڈگری کے لیے وقت ضائع نہ کریں۔

اللہ آپ کو کامیاب و کامران کرے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا شرف دے۔

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech