السلام علیکم،

میرا نام محمد بلال ہے، میں تعلیم کے اعتبار سے بائیولوجسٹ اور پیشے کے اعتبار سے لاہور کے ایک سرکاری کالج میں لیکچرار ہوں۔ میں نے زندگی میں کبھی کمپیوٹر بطور مضمون نہیں پڑھا، اور نہ کبھی کوئی شارٹ کورس کیا۔ لیکن میں گزشتہ دس سال سے کامیاب ڈجیٹل فری لانسنگ کر رہا ہوں۔ آج میں آپ کو بتاؤں گا کہ یہ سفر کیسے شروع ہوا۔

میں نے آج سے بیس سال پہلے سکول اور کالج کی تعلیم کے دوران شوقیہ طور پر مشغلے کی طرح کمپیوٹر سیکھنا شروع کیا۔ اس دوران کبھی بھی میں نے کمپیوٹر کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ اس کے باوجود پچھلے دس سال سے میں کامیاب فری لانسنگ کر رہا ہوں۔ کالج میں تعلیم کے ساتھ ساتھ میں نے گھر پر کمپیوٹر سے متعلق بنیادی کام جیسے ٹائپنگ، مائکروسافٹ آفس اور ونڈوز کی روز مرہ خرابیاں ٹھیک کرنا سیکھا اور پھر زیادہ تکنیکی کام جیسے پروگرامنگ وغیرہ (ویب ڈویلپمنٹ، وزول بیسک سکس، بیچ سکرپٹنگ) اور بنیادی فوٹو ایڈیٹنگ سیکھی۔ وہ ابھی ڈائل اپ انٹرنیٹ کا دور تھا اور میں ہر ہفتہ انٹرنیٹ کیفے جا کر پورا ہفتہ پڑھنے کے لئے ٹیوٹوریلز اور آرٹیکلز جمع کرتا تھا۔ یہ آرٹیکلز عموما پروگرامنگ اور کمپیوٹر کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے ہوتے تھے۔

پنجاب یونیورسٹی میں داخلے کے بعد میں نے اپنے ان سکلز سے دوسروں کی مدد کرنا شروع کر دی۔ میں اکثر اپنے کلاس فیلوز کی اسائمنٹس اور سینئرز کے تھیسس کی مشکلات بہت آسانی سے حل کر دیتا تھا۔ یوں ڈیٹا انالسس، گراف بنانا، تھیسز کی کمپوزنگ، ریفرنسنگ سٹائلز اور نت نئے موضوعات پر ڈیٹا سرچ کر کے لکھنے میں مجھے خاصی مہارت حاصل ہو گئی۔ بہت سی نئی چیزیں سیکھنے کو ملیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب طلبا اور یوٹیوب کے موٹیویشنل سپیکرز کہتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں کوئی کام کا سکل نہیں سکھایا جاتا۔ یونیورسٹی میں آنے سے پہلے مجھے صرف بنیادی کام ہی آتا تھا جس سے میں شاید کلرک کی نوکری ہی کر سکتا تھا۔ لیکن یونیورسٹی میں آکر میں نے جو کچھ سیکھا اس نے مجھے ترقی کی نئی راہیں دکھائیں۔ یہ ایک نئے سفر کی شروعات تھی۔ بی ایس کے دوران تین سال میں میں نے سینکڑوں اسائمنٹس اور بیسیوں تھیسز میں مدد کی لیکن کبھی کسی سے کوئی معاوضہ نہیں لیا۔

ایم فل کے دوران اس مفت کے کام نے بالاخر فائدہ تب دیا جب ایک سینئر نے مجھے اکیڈمک رائٹنگ کی ایک ویب سائٹ کے بارے میں مجھے بتایا۔ اس ویب سائٹ پر بنیادی طور پر وہی سارے کام تھے جو میں پہلے سے کر رہا تھا، یعنی مواد چوری کیے بغیر اسائنمنٹ لکھنا، لکھے ہوئے مواد میں الفاظ کو تبدیل کرنا (پیرا فریزنگ)، ریسرچ پیپرز کا تنقیدی جائزہ لکھنا، ڈیٹا کا تجزیہ کرنا، پریکٹیکلز کی لیبارٹری رپورٹ لکھنا، گراف بنانا اور دیگر اسی نوعیت کے کام۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس دفعہ میں پاکستان کے بجائے غیر ملکی یونیورسٹیوں کی اسائمنٹس بنا رہا تھا اور مجھے ڈالرز میں معاوضہ ملتا تھا۔ اس ویب سائٹ پر کام کرتے ہوئے ایک سال گزرا تھا جب میرا ایم فل مکمل ہوا اور عین اسی وقت میں لاہور میں بطور لیکچرار بھی سلیکٹ ہو گیا۔ جب مجھے سترہ گریڈ کے افسر کے طور پر پہلی تنخواہ ملی تو وہ لگ بھگ اتنی ہی تھی جتنی رقم میں نے اس مہینے فری لانسنگ سے کمائی تھی۔ اس ویب سائٹ پر میں نے تقریبا چار سال کامیابی سے کام کیا۔

سنہ دو ہزار تیرہ میں جب ابھی پاکستان میں تھری جی انٹرنیٹ بھی نہیں آیا تھا، میں نے ایک تعلیمی ویب سائٹ مکتب کے ساتھ مل کر ویڈیو لیکچرز تیار کیے اور پھر اپنی ایک تعلیمی ویب سائٹ ایزی لرننگ ہوم کے نام سے شروع کی۔ جب میں یہ لیکچر اور ویب سائٹ بنا رہا تھا تو لوگ کہتے تھے کہ پاکستان میں کس کے پاس انٹرنیٹ ہے جو لوگ یہ چیزیں دیکھیں گے؟ اور پڑھائی کے لئے انٹرنیٹ استعمال کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تمام امیدوں کے برخلاف ایک سال سے بھی کم عرصے میں اس ویب سائٹ کو گلگت سے گوادر تک ایک سو ستر سے زیادہ شروں اور دیہات میں طلبا نے دیکھا۔ پچھلے سال سال میں تقریبا چودہ لاکھ سے زیادہ دفعہ یہ ویب سائٹ دیکھی گئی۔

میں کامیاب فری لانسر کیسے بنا؟ 1

اب چونکہ میں ایک سرکاری ادارے میں ملازمت کر رہا تھا تو میں نے یہاں کے مسائل کو بھی اپنے سکلز کی مدد سے حل کرنے کی کوشش شروع کی۔ یہاں ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ طلبا روز گھر سے والدین کو یہ بتا کر نکلتے تھے کہ ہم کالج جا رہے ہیں لیکن وہ آوارہ گردی پر چلے جاتے تھے اور والدین کو علم ہی نہ ہوتا تھا کہ لڑکا کالج نہیں جا رہا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے میں نے کالج میں والدین کو ایس ایم ایس کے ذریعے اطلاع کرنے کا سسٹم بنایا۔ اسی طرح ایک اور مسئلہ امتحانات میں طلبا کی مایوس کن کارکردگی کا تھا۔ دو ہزار چودہ میں بورڈ امتحانات میں صرف چوبیس فیصد طلبا کامیاب ہو سکے جو پورے لاہور بورڈ میں آخر سے تیسرا نمبر بنتا تھا۔ جب کالج امتحانات کے رزلٹ باقاعدگی سے والدین کو بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا تو یہ شرح ہر سال تیزی سے بہتر ہونے لگی یہاں تک کہ چند سالوں میں اناسی فیصد تک طلبا پاس ہونے لگے۔ ساتھ ہی کالج سے ہر سال طلبا میڈیکل، انجینئرنگ، فوج میں کمیشنڈ آفیسر اور بہترین یونیورسٹیوں تک پہنچنے لگے۔

کچھ عرصے بعد مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ جو سافٹ ویئر میں نے اپنے کالج کے لئے بنائے ہیں ان میں تھوڑا ردوبدل کر کے دوسرے اداروں کو بھی فروخت کیے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ اساتذہ کے لیے پہلا سافٹ ویئر (ٹیسٹ میکر) میں نے دو ہزار اٹھارہ میں لانچ کیا۔ دو سال کے عرصے میں یہ سافٹ ویئر ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ٹیسٹ بنانے کے لئے استعمال ہوا اور تب سے مسلسل آمدن کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ اسی کی وجہ سے مجھے اپنی سافٹ ویئر فرم بنانے کا خیال آیا اور اب میری فرم تعلیمی اداروں کے لیے مینجمنٹ کے سافٹ ویئر بناتی ہے۔

یونیورسٹی میں دوسروں کی اسائنمنٹس بنانے کی وجہ سے میری لکھنے کی صلاحیت میں نکھار آیا اور اس کی وجہ سے مجھے یکساں قومی نصاب جیسے بڑے پراجیکٹ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ شوقیہ طور پر سیکھی گئی پروگرامنگ لینگوئیج اور طلبا کی مدد کے لئے ویب سائٹ بنانے کے تجربے کی وجہ سے میں نے سافٹ ویئر بنانے شروع کیے یہاں تک کہ اپنی فرم کھڑی کر لی۔

گزشتہ بیس سال میں، میں نے جو کچھ سیکھا اس میں بہت دفعہ غلطیاں ہوئیں۔ کوئی سکھانے والا دستیاب نہ تھا اور نہ اس دور میں انٹرنیٹ پر ہی اس حوالے سے بعض چیزوں کی رہنمائی دستیاب ہوتی تھی۔ یہ ایک مشکل سفر تھا جس میں کئی دفعہ راستہ سمجھ نہیں آتا تھا اور کئی دفعہ یو ٹرن لینے پڑتے تھے، اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس کے مقابلے میں آج حالات بہت بہتر ہو چکے ہیں۔ نئے آنے والوں کے لئے بہت سی سہولتیں ہیں، اور خاطر خواہ مدد بھی دستیاب ہے۔ حکومت خود اس حوالے سے مختلف پروگرامز کے ذریعے نوجوانوں کی مدد کر رہی ہے۔ اس لیے میں تمام یونیورسٹی لیول پر پڑھنے والوں کو کہتا ہوں کہ:

1۔ تعلیم کے دوران ملنے والی اسائنمنٹس، لیب رپورٹس، پروجیکٹس، ڈیٹا اینالسس وغیرہ سے متعلق کاموں کی اہمیت کو سمجھیں۔ اساتذہ توجہ نہ بھی دیں تو خود مکمل توجہ سے ان پراجیکٹس کو مکمل کریں۔

2۔ کم سے کم ایک پروگرامنگ لینگوئیج ضرور سیکھیں خواہ آپ آرٹس کے مضامین میں ہی ماسٹرز کیوں نہ کر رہے ہوں کیونکہ آئندہ دس سال کی جاب مارکیٹ میں پروگرامنگ کو کلیدی حیثیت حاصل ہو گی۔

3۔ اپنا کوئی شوق یا مشغلہ ڈھونڈیں جس پر کام کرنے میں آپ کو فارغ وقت میں مزہ آئے۔ ضروری نہیں کہ یہ پڑھائی سے متعلق ہی کوئی کام ہو۔ ہو سکتا ہے آپ کو میک اپ اور زیورات کا شوق ہو، اچھے کپڑوں کا شوق، فٹ بال، لکھنے لکھانے، شعر پڑھنے یا کسی اور چیز کا شوق ہو۔ آپ کا جو بھی شوق ہے اس پر منظم انداز میں وقت صرف کریں، اس پر بلاگ لکھیں، چینل بنائیں یا دوسری ایسی سہولیات کو اس حوالے سے استعمال کریں۔

4۔ سوشل میڈیا کنزیومر بننے کے بجائے سوشل میڈیا انفلوئنسر بنیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو اپنے شوق یا فن کے اظہار کا ذریعہ بنائیں، صرف دوسروں کی بنائی چییزیں دیکھنے تک محدود نہ رہیں۔

5۔ کوشش کریں کہ یونیورسٹی لائف کے دوران کچھ نہ کچھ جیب خرچ خود کمانا شروع کریں۔ اس سے جو تجربہ آپ کو ملے کا وہ آپ کو گریجو ایشن کے بعد نوکری ڈھونڈنے کی پریشانی سے محفوظ رکھے گا۔

اگر آپ صرف دو تین سال فری لانسنگ کر لیں تو عین ممکن ہے کہ آپ کو اتنا کام ملنے لگے کہ آپ اپنے ساتھ دوسرے دوستوں کو ملا کر ایک ٹیم بنا لیں اور شاید آٹھ دس سال میں آپ بھی ایک باقاعدہ کمپنی کا آغاز کر دیں۔ میں بھی آج کل ایسے ہونہار لوگوں کی تلاش میں ہوں جو میرے ساتھ مل کر ایکسل اور ورڈ پریس پر کام کر سکیں۔

My Success Story as a Freelancer

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech