بالاخر حکومت پنجاب نے سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو اگلے سال آن لائن کلاسز پڑھانے کی تیاری کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی اساتذہ کرام نت نئے سسٹم سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے میں سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ گرچہ پاکستان میں آن لائن لرننگ اب تک صرف یونیورسٹی کے چند طلبا تک محدود رہی ہے، لیکن دنیا میں یہ کانسیپٹ نیا نہیں۔ کرونا وبا سے پہلے بھی دنیا کی چوٹی کی تمام یونیورسٹیاں اور دیگر تعلیمی ادارے آن لائن لرننگ کی سہولیات بہم پہنچا رہے تھے۔ یہاں تک کہ بہت سے ادارے صرف آن لائن تعلیم سے ہی اچھا خاصہ منافع بھی کما رہے تھے۔
گرچہ بہت سے لوگ ابھی تک آن لائن تعلیم کو روایتی کلاس روم کا نعم البدل نہیں سمجھتے لیکن یہ بات ضرور ماننی پڑے گی کہ آن لائن کلاس روم بہت سی ایسی سہولیات طلبا کو دیتا ہے جو عام کلاس روم میں دستیاب نہیں ہو سکتیں۔ آن لائن ماحول میں طلبا نہ صرف اپنی مرضی اور سہولت کے اوقات میں لیکچرز دیکھ سکتے ہیں بلکہ ہمہ وقت دوسرے طالبعلموں کے ساتھ بحث و مباحث میں بھی حصہ لے سکتے ہیں اور مشکل پڑنے پر ایک دوسرے کو سمجھا بھی سکتے ہیں۔ اسی طرح آن لائن کلاس روم میں اساتذہ بار بار ایک ہی لیکچر دینے کے بجائے زیادہ وقت کمزور طلبا کے مسائل حل کرنے، ان کو آگے چلانے اور اپنے کورس کو بہتر بنانے پر خرچ کر سکتے ہیں۔ آن لائن ٹیسٹنگ کے اور رزلٹس کے اینالیسس سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ طلبا سب سے زیادہ مشکل کس کانسیپٹ کو سمجھنے میں محسوس کرتے ہیں اور پھر اس کانسیپٹ کو مزید بہتر انداز میں، حصوں میں، بنادی باتوں کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
ایک اور بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ایک سٹوڈنٹ مختلف اساتذہ کے لیکچر سے استفادہ حاصل کر سکتا ہے اور یہاں تک کہ وقت ملنے پر مختلف مضامین یا مختلف جماعتوں کے لیکچرز بھی دیکھ سکتا ہے۔ دور دراز علاقوں کے طلبا، اور بالخصوص لڑکیاں اس سسٹم سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں جن کے لئے گھر سے نکل کر تعلیمی اداروں تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔ اس سے روز آنے جانے کا کرایہ اور دیگر اخراجات بھی بچائے جا سکتے ہیں۔ تعلیمی ادارے اپنے آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے طلبا کو کتابیں اور دیگر معلوماتی مواد تک رسائی دے سکتے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ پچاس سالوں میں آن لائن کلاس روم مکمل طور پر روایتی کلاس روم کی جگہ لے لے گا۔ جن علاقوں میں انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولیات دستیاب نہیں وہاں بھی صارفین کی ڈیمانڈ کی وجہ سے کمپنیوں کو اپنا انفرا سٹرکچر بہتر کرنا پڑے گا۔
اب جب کہ آن لائن سسٹم ہماری مجبوری بن ہی گیا ہے تو اس حوالے سے میری چند سفارشات ہیں جن کی مدد سے ہم نہ صرف موجودہ صورتحال بلکہ مستقبل کے لئے بھی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ ہر شخص الگ الگ لیکچر پر وقت ضائع کرنے کے بجائے کیوں نہ ایک مشترکہ پورٹل بنایا جائے جس میں ذمہ داریاں تقسیم کر کے بہتر ریسورسز تیار کیے جائیں تاکہ سیشن کے دوران سب لیکچر دینے کے بجائے طلبا پر انفرادی توجہ دے سکیں اور کمزور طلبا کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔
ہم میں سے کچھ لوگ آن لائن سسٹم چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں، ان سے لیکچر پر ٹائم ضائع کرنے کے بجائے سسٹم مینج کروایا جائے
ہر سبجیکٹ کے لیے ایک یا چند لوگ پوری کتاب یا کتاب کے حصوں کے ویڈیو لیکچر بنائیں
جو لوگ اچھا سکرپٹ لک سکتے ہیں وہ لیکچرز کے سکرپٹ لکھیں
جو لوگ ویڈیو ایڈیٹنگ کر سکتے ہیں وہ لیکچر دینے کے بجائے دوسروں کے لیکچر ایڈٹ کریں
جو لوگ گرافکس اور اینیمشنز بنانا جانتے ہیں وہ متعلقہ ٹیموں کے ساتتھ مل کر ویڈیوز میں شامل کرنے کو یہ ریسورسز بنائیں
جو لوگ ٹیسٹ اور ورک شیٹس تیار کر سکتے ہیں وہ سب کے لیے یہ ریسورس تیار کریں۔
کچھ کا کام صرف اسائنمنٹس چیک کرنا ہو۔
کچھ اساتذہ کی ٹیمیں آن لائن فورمز، واٹس ایپ، فون وغیرہ پر طلبا کے سوالات کے جواب دینے کے لیے ڈیڈیکیٹ کر دی جائے
کچھ لوگ صرف طلبا کی پراگریس مانیٹر کرنے اور فیڈ بیک کے لیے متعین ہوں
ہر کام کرنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں۔ سب سے بہتر کام وہ ہوتا ہے جو باقاعدہ پلاننگ اور دور اندیشی پر مبنی ہو۔ دیکھنے میں یہ طریقہ انہونا لگتا ہے لیکن اگر ایک سال ہم چند مہینے توجہ دے کر یہ کام کر لیں تو کم سے کم دس سال کے لیے ہم سب سکون میں بھی آ جائیں گے، تعلیم میں انقلاب بھی آ جائے گا اور کمزور طالبعلموں کو سہارا بھی مل جائے گا۔ ہزاروں اساتذہ میں سے ہم صرف چند سو پر مشتمل ٹیم بھی تیار کر لیں تو یہ کام بالکل ممکن ہے۔ اگر آپ یہ سب کچھ نہیں کر سکتے یا نہیں کرنا چاہتے تو کم سے کم اتنا ضرور کریں کہ اپنا لیکچر زوم یا گوگل میٹ جیسے پلیٹ فارمز پر روایتی کلاس روم کے انداز میں دینے کے بجائے ریکارڈ کر کے یو ٹیوب پر ڈال دیں تاکہ وہ تمام ڈھونڈنے والوں کے لئے دستیاب ہو اور آپ کے لئے صدقہ جاریہ بن جائے۔