جسمانی صلاحیت کے اعتبار سے انسانوں کا انسانوں سے موازنہ کریں تو سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ کوئی زیادہ صحتمند جسم کے حامل ہیں تو کوئی کمزور، کسی کا قد لمبا ہے تو کسی کا پست، کسی کے بازو مضبوط ہیں تو کسی کی ٹانگیں۔ اور ان سب کے بعد اللہ کے بنائے کچھ انسان ایسے بھی ہیں جن کو ماضی میں مختلف (عموما حقارت آمیز) الفاظ سے بلایا جاتا رہا ہے لیکن آج کل بحکم سرکار ان کو “سپیشل پرسنز” کہا جاتا ہے۔ جہاں ایک طرف یہ افراد اللہ کی طرف سے آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں وہیں ہمارا معاشرہ عموما اس آزمائش کو مزید کٹھن بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ ہمارے عوام کی اکثریت ایسے افراد کو تفریح، طنز و تشنیع، نفرت، اور زیادہ سے زیادہ بھی ہمدردی اور ترس کی نگاہ سے دیکھنے کی عادی ہے جو ان کے ساتھ ناانصافی ہے۔ دین اور قانون دونوں تمام انسانوں کو سماجی، ثقافتی، معاشی، معاشرتی، سیاسی اور انفرادی، غرض تمام سطح پر برابری کے حقوق دینے پر زور دیتے ہیں تاہم ایسا ہوتا کم ہی ہے۔

ایک بینک کے باہر بنا وہیل چیئر ریمپ جو احکامات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے
ایک بینک کے باہر بنا وہیل چیئر ریمپ جو کسی کی زندگی میں آسانی پیدا کرنا تو دور در حقیقت احکامات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے، اور ہم یہ تقاضہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ بنانے والوں کی ذہنی صحت کا معائنہ کروایا جائے

ترقی یافتہ ممالک میں وسائل کی فراوانی اور بہتر آگہی کے باعث علاج معالجہ، سیر و تفریح، تعلیم، روزگار کے مواقع، سفری سہولیات اور سوشل ویلفیئر کے دیگر اقدامات کے بہترین نظام کے باوجود مزید بہتر اقدامات پر مسلسل زور دیا جاتا ہے۔ تاہم ہمارے یہاں اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کے اصرار پر قوانین بنا بھی دیے جائیں تو ان پر عملدرآمد اس انداز میں کیا جاتا ہے کہ دیکھ کر خون کے آنسو روئیں۔ غرض وطنِ عزیز میں سپیشل افراد کی حالت زار کا نوحہ جتنا لکھا جائے کم ہے۔ تمام لوگوں کا رویہ ایک جیسا نہیں ہوتا لیکن پھر بھی مجموعی طور پر جو صورتحال نظر آتی ہے وہ اچھی نہیں۔ تاہم، آج اس موضوع پر قلم اٹھانے کا میرا مقصد کچھ اور ہے۔

انسانوں کی جو صلاحیت ان کو تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے وہ دراصل عقل ہے۔ عقل انسان کو زمانی، مکانی اور جسمانی، تمام حدود و قیود سے آزاد کرتی ہے۔ جن درندوں سے انسان جسمانی طور پر مقابلہ نہیں کر سکتا ان پر عقل استعمال کر کے باآسانی قابو پا لیتا ہے۔ عقل نے ہی سمندروں کے سینے چاک کیے، پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کیا، فضاؤں میں پرواز بلند کی اور بالاخر ستاروں تک پہ کمندیں ڈالیں۔ اگر آپ کی عقل قائم ہے تو گویا آپ نے کچھ نہیں کھویا اور آپ کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں بہت سے سپیشل افراد بستر، گھر کی چار دیواری یا وہیل چیئر تک محدود ہوتے ہیں۔ بہت سے بچے تعلیمی اداروں تک پہنچ ہی نہیں پاتے اور کئی مسائل میں اتنے گھرے ہوتے ہیں کہ بنیادی تعلیم بھی پوری نہیں کرتے۔

سپیشل افراد کے لئے بنیادی تعلیم کے مسائل

زندگی میں کسی مقصد کا نہ ہونا ذہنی صحت کے بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے جس کی طرف نہ کسی کی توجہ ہوتی ہے اور نہ پروفیشنل مدد ہی دستیاب ہوتی ہے۔ دوسری طرف کسی نصب العین کا ہونا بہت سے سماجی اور نفسیاتی مسائل سے بچا سکتا ہے۔ میری نظر میں جسمانی طور پر مشکلات کے شکار افراد کے لئے سب سے بہتر نصب العین حصولِ تعلیم ہے۔ گرچہ سب کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے اور ہر علاقے اور ہر بیماری میں مبتلا افراد کی مشکلات مختلف ہیں لیکن ہمارے یہاں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے مسائل کے ساتھ سمجھوتا کر لیتے ہیں اور وقت گزارنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ورنہ کوئی ایسی وجہ نہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ان مسائل کو حل نہ کیا جا سکے۔ اگر کرونا کے دوران پوری دنیا آن لائن کلاسز پر منتقل ہو سکتی ہے تو سپیشل افراد کے لیے اس قسم کے انتظامات کیوں نہیں کیے جا سکتے؟

عموما دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسے افراد تعلیمی اداروں تک پہنچ بھی جائیں تو ان کی مشکلات اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ عام بچوں کی طرح تعلیم کے میدان میں زیادہ کامیاب نہیں ہوتے الا ما شا اللہ۔ میرے خیال میں اس میں سب سے زیادہ قصور والدین اور اساتذہ کی عدم توجہی ہے۔ اگر کوئی بچہ تعلیمی میدان میں پیچھے رہ گیا ہے، اس کو تعلیم میں دلچسپی نہیں رہی، اس نے توجہ نہیں دی یا وہ خود کو تعلیم حاصل کرنے کے قابل نہیں سمجھتا تو یقین کریں کہ اس سب کا مطلب صرف یہ یے کہ اس کے اساتذہ نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اور اس میں بچے کا کوئی قصور نہیں۔ تاہم اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اس کو ڈھونڈا بھی جا سکتا ہے اور اس کا حل بھی نکالا جا سکتا ہے۔ صرف آپ کی نیت حل ڈھونڈنے کی ہونی چاہیئے۔

حکومت کی طرف سے زیادہ تر علاقوں میں سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک سپیشل افراد کے لیے تعلیم مفت ہے بلکہ کئی جگہ حکومت سے وظیفہ بھی ملتا ہے۔ یعنی والدین پر صرف سکول پہنچانے تک کی ذمہ داری ہے۔ اور یہی دور سب سے زیادہ مشکل اور توجہ طلب ہوتا ہے، کالج کی سطح تک آتے آتے بچے خود مختار ہو جاتے ہیں اور عموما اچھے دوست مل جاتے ہیں جو بہت حد تک اس ذمہ داری کو بخوشی نبھا لیتے ہیں۔ سکول کی عمر تک میرے والد کئی دفعہ مجھے کندھے پر اٹھا کر سکول چھوڑ آتے تھے۔ اس کے بعد جب پر نکل آئے تو دوست گھر سے پک اینڈ ڈراپ کر لیتے تھے۔ ایسے ہی ایک باوفا دوست کی کہانی میں نے یہاں لکھی تھی۔ ایک اور سہولت اس ضمن میں سپیشل افراد کے لئے اعلی تعلیم کی مخصوص نشستوں کی ہے جو اکثر سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ملتی ہے۔ میں نے پی ایچ ڈی میں داخلے تک ساری زندگی مفت تعلیم حاصل کی ہے اور وظیفے بھی لیتا رہا ہوں۔ اور میں نے تعلیم آج سے دس سال پہلے مکمل کر لی تھی۔ آج تو حالات کئی گنا بہتر ہو چکے ہیں۔ پڑھیے: میں کامیاب فری لانسر کیسے بنا؟

سپیشل افراد کے لئے روزگار کے مسائل

سپیشل افراد کے لئے تعلیم کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ روزگار کا ہے۔ جب تعلیم اچھی نہ ہو تو ظاہر ہے روزگار کے مواقع، جو رسائی کی وجہ سے پہلے ہی محدود تھے، مزید محدود ہو جاتے ہیں۔ میرے والد ہمیشہ یہی سمجھاتے تھے کہ بیٹا تم تو بسوں میں چڑھ اتر کر پانچ پانچ روپے کے رومال بھی نہیں بیچ سکتے، تمہارے پاس پڑھنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ تعلیم کے بغیر یہ افراد دو وقت کی روٹی کے لئے معاشرے کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جو مزید نفسیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ یہی مسئلہ آگے چل کر حقِ زوجیت سے بھی محروم رکھتا ہے۔ حکومت نے ملازمتوں میں سپیشل افراد کے لیے نشستیں مخصوص کی ہوتی ہیں لیکن تعلیم میں کسر کی وجہ سے اکثر اچھی نشستیں خالی جاتی ہیں اور کوئی مقابلہ ہی نہیں ہوتا۔ اکثر لوگوں کو اس بات کی بھی سمجھ نہیں کہ کوٹہ کے تحت نوکری کیسے لینی ہے، یا اس کے لیے کیا چاہیئے ہوتا ہے۔ میں نے خود اللہ کے فضل سے میرٹ پر نوکری لی اور میں اور بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو معذوری کے باوجود کوٹہ کے بجائے ہمیشہ میرٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔ کوٹہ پر سلیکشن کوئی بری بات نہیں ہے لیکن جب تعلیم ہی نہیں ہو گی تو اپلائی کیسے کریں گے اور قانونی پیچیدگیوں کو کیسے سمجھیں گے۔

آن لائن کام یا فری لانسنگ

ان حالات میں میری نظر میں امید کی ایک روشن کرن آن لائن کام کرنے کا رجحان ہے۔ گرچہ میرے پاس ایک اچھی سرکاری نوکری ہے لیکن پھر بھی میں گھر بیٹھے آن لائن کام کرتا ہوں اور اپنی سرکاری تنخواہ سے زیادہ پیسے کما لیتا ہوں۔ آن لائن کام کرنے کے لئے آپ کو صرف دو چیزوں کی ضرورت ہے (1) اچھی تعلیم، اور (2) کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کنیکشن۔ آج کل پندرہ ہزار تک کمپیوٹر اور بیس پچیس ہزار میں مناسب لیپ ٹاپ مل جاتا ہے۔ انٹرنیٹ کا پیکج موبائل پر پانچ سو روپے ماہانہ تک ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کے حالات اتنے خراب ہیں کہ آپ یہ افورڈ نہیں کر سکتے تو کھانے پینے کے پیسے مانگنے کے بجائے کسی سے کمپیوٹر اور چھے ماہ کے انٹرنیٹ کے پیسے ادھار یا امداد کے طور پر لے لیں۔ سیکھنا شروع کریں اور کچھ ہی عرصے میں آپ اپنے کمرے یا بستر پر بیٹھے پیسے کما سکتے ہیں۔ آپ کو انٹرنیٹ پر پاکستان میں آن لائن کام کرنے والے سپیشل افراد کی بہت سی ویڈیوز مل جائیں گی جو اللہ کے فضل سے معاشی طور پر خود مختار ہیں، مثلا یہ ویڈیو دیکھیں:

Meet Syed Umer from Taxila, a free lancer doing wonders across the globe

آن لائن فراڈ سے بچیں

آن لائن کام کی بات کریں تو ہر دوسرا بندہ فراڈ ملتا ہے جو کسی نہ کسی بہانے پیسے مانگتا ہے۔ میرے تقریبا سب ہی سٹوڈنٹس جن کو میں آن لائن کام کا تعارف کرواتا ہوں وہ کبھی نہ کبھی باہر جا کر دھوکہ کھا ہی لیتے ہیں حالانکہ ان کو بار بار بتاتا ہوں کہ کبھی انویسٹمنٹ، رجسٹریشن، مارکیٹنگ، یا ریفر وغیرہ کے نام پر کسی کو پیسے نہ دیں۔ نہ ہی کسی پرائیویٹ ادارے میں فیس ہی جمع کروا کر کورسز کریں کیونکہ اکثر وہ لوگ نالائق ہوتے ہیں اور کچھ خاص نہیں سکھاتے۔ جب آپ کو مفت سیکھنے کے موقع دستیاب ہیں تو آپ نے کسی کو پیسے کیوں دینے ہیں؟

مفت آن لائن کام سکھانے والے حکومتی پروگرامز

حکومت کے بہت سے پروگرام چل رہے ہیں جو مفت آن لائن کام کرنا سکھاتے ہیں۔ ان میں تین پروگرام ہیں جو آپ اپنی استطاعت کے مطابق کر سکتے ہیں۔

1۔ اگر آپ پنجاب میں ہیں، ماسٹرز کر لیا ہے اور آپ کی عمر پینتیس سال سے کم ہے تو آپ پنجاب حکومت کے ای روزگار پروگرام میں شامل ہو جائیں۔ یہ بالکل مفت ہے۔ کلاسز آن لائن بھی ہوتی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ آپ کے شہر میں قریب ان کا کوئی سینٹر بھی ہو۔ ای روزگار کی ویب سائٹ آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔

2۔ اگر آپ میٹرک تک تعلیم یافتہ ہیں تو آپ کے قریب ترین سرکاری ٹیکنیکل کالج میں آن لائن کام کرنے کی کلاسز ہیں، ان میں شامل ہو جائیں۔ یہ نہ صرف مفت ہیں بلکہ کئی جگہ وہ آپ کو وظیفہ بھی دیتے ہیں۔ پنجاب میں داخلوں کے حوالے سے مزید معلومات یہاں دیکھ سکتے ہیں۔

3۔ اگر آپ کو آنے جانے کا مسئلہ ہے یا آپ پنجاب کے علاوہ کسی اور جگہ سے ہیں تو آپ ڈجی سکلز کے پروگرام میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ داخلہ مفت ہے اور آپ ایک وقت میں دو کورس کر سکتے ہیں۔ میں اچھے پیسے کمانے کے باوجود اس وقت بھی ڈجی سکلز کے دو کورس کر رہا ہوں کیونکہ سیکھتے رہنے میں ہی فائدہ ہے۔ اس حوالے سے مزید تفصیل یہاں پڑھ سکتے ہیں۔ ڈجی سکلز کی ویب سائٹ کا لنک یہ ہے۔

4۔ ہماری ویب سائٹ پر بھی آن لائن کام کے حوالے سے کچھ کورسز ہیں جو آپ مفت دیکھ سکتے ہیں۔

اگر آپ کو اس حوالے سے بالکل بھی علم نہیں ہے کہ کیسے شروع کرنا ہے تو سب سے پہلے اس لنک سے فری لانسنگ کا کورس کریں۔ اس کورس میں وہ آپ کو بتائیں گے کہ آپ کون کون سے کام آن لائن کر سکتے ہیں، کام کیسے ملتا ہے، کیسے کر کے دینا ہوتا ہے، کتنے پیسے ملتے ہیں، ڈیل کیسے کرنی ہے، وغیرہ۔ اگر آپ روز ایک گھنٹہ لیکچر دیکھیں تو صرف ایک ماہ میں یہ کورس مکمل ہو جائے گا۔ اس کورس میں وہ یہ بھی بتائیں گے کہ آپ کیا کیا کام کر سکتے ہیں، کیا ہنر چاہیئے ہو گا اور اس کے کون کون سے کورسز دستیاب ہیں، تو اس کے بعد آپ اپنی مرضی کا کوئی دوسرا کورس دیکھ کر سیکھ متعلقہ ہنر سیکھ سکتے ہیں۔

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech