سچ پوچھیں تو ٹائٹل میں نام صرف آپ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے لگایا ہے۔ لیکں ایک بڑی حقیقت بہر حال یہ بھی ہے کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی اور ہم شکست خوردہ ذہنیت کے مارے لوگ روز ایک جڑانوالہ برپا کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بہت سے واقعات ہمارے اردگرد ہو رہے ہوتے ہیں جن میں ہم کسی کو سولی چڑھتا تو شاید نہیں دیکھتے لیکن اس کی شخصیت اور سوچ کو سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ جڑانوالہ کے واقعے کو آپ بآسانی “مولویوں اور شدت پسندوں” کی کارستانی کہہ کر اپنی ذمہ داری سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ کچھ آنکھوں دیکھے واقعات لکھنے لگا ہوں جس سے شاید آپ کو اندازہ ہو کہ مسئلہ کہاں ہے۔
میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اپنی کلاس میں اقلیتی طلبا سے معمول سے کچھ زیادہ شفقت سے پیش آؤں۔ مجھے احساس رہتا ہے کہ وہ معاشرے کے نسبتا زیادہ پسماندہ گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور میری توجہ کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ آقائے نامدار ﷺ کی سنت پر عمل کیا جائے۔ اس وجہ سے اکثر غیر مسلم طلبا اپنے مسائل بھی میرے گوش گزار کرنے لگتے ہیں۔ میں بچوں کو سکالرشپس اور دفتری معاملات کے حوالے سے بھی رہنمائی مہیا کرتا ہوں مثلا یہ کہ گلی کا گٹر خراب ہو تو کہاں اور کیسے درخواست جمع کروانی ہے۔ جب سٹیزن پورٹل شروع ہوا تو میں نے کلاس میں اس کی اہمیت اور استعمال کے حوالے سے لیکچر دیا۔ انہی دنوں پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ سکالرشپس کا نام تبدیل کر کے رحمۃ للعالمین ﷺ سکالرشپس رکھ دیا گیا۔ آپ اس کو سیاسی شعبدہ بازی کہہ لیں لیکن مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو یہ پیغام جائے کہ یہ انہی کی رحمت کا فیض ہے۔ میری جماعت میں تین چار عیسائی طالبعلم تھے جن میں سے ایک نے اپلائی کیا تو اس کا نام منتخب ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد اس نے کلرک سے پوچھا تو کلرک روایتی ٹال مٹول کرنے لگا۔ پھر مہینہ بھر ٹرخانے کے بعد اس کو فنڈ کے دفاتر اور ڈاک خانوں کے چکر لگوانے شروع کر دیے۔ ہر جگہ سے جواب یہی ملتا کہ سکالرشپ کالج پہنچ چکی ہے۔ وہ تنگ آ کر شکایت کرنے وائس پرنسپل صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے بات سننے کے بجائے کہہ دیا کہ “تم تو کرسچن ہو، تمہیں رحمۃ للعالمین سکالرشپ کیسے مل سکتی ہے”۔ اب یہ بات کسی بچے کے ذہن میں کیسے نفرت کے کانٹے بو سکتی ہے شاید آپ اور میں اندازہ نہ کر سکیں کیونکہ ہمیں ایسی حقارت کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بچے نے پرنسپل سے ملنے کی درخواست کی تو دربان نے اندر جانے سے بھی روک دیا کہ مابدولت عام جنتا کو درشن نہیں کرواتے۔ دو ماہ خوار ہونے کے بعد بالاخر اس نے سٹیزن پورٹل پر درخواست جمع کروا دی۔ اب سب کو پریشانی لاحق ہو گئی۔ پرنسپل صاحب نے عملے کے روئیے اور تاخیر پر افسوس کرنے کے بجائے تفتیش شروع کر دی کہ تمہیں کس نے درخواست لکھنے پر اکسایا ہے اور کالج سے نکالنے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ بچے میں چونکہ خود سری کے جراثیم سرایت کر گئے تھے تو وہ اپنی بات پر ڈٹ گیا۔ قصہ مختصر یہ کہ کچھ دن بعد دفتر سے اس کا چیک برآمد ہو گیا۔ وہ بچہ ڈگری مکمل کر کے چلا گیا۔ سال دو سال بعد کل اس نے اپنے چھوٹے بھائی کی سکالرشپ کی تصویر مجھے بھیجی۔ اگر وہ اس روز طنز سن کر نفرت کا بیج دل میں پال لیتا تو شاید نہ صرف اس کا بلکہ اس کے پورے خاندان کا راستہ رک جاتا۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ ایسا رویہ کسی مخصوص اقلیت کو ہی بھگتنا پڑتا ہے تو افسوس آپ درست نہیں سمجھے۔ کل ایک اور طالبعلم بتا رہا تھا کہ وہ اپنی کلاس کا سی آر ہے۔ استانی صاحبہ کئی دن لیکچر تیار کیے بغیر کلاس میں آ جاتی تھیں جس پر اس نے دیگر طلبا کی طرف سے درخواست کی کہ طریقہ بہتر کر لیں۔ ظاہر ہے ایسی بات کوئی طاقتور کسی کمزور کے منہ سے کیوں کر برداشت کر سکتا ہے۔ اسلیے موصوٖفہ پہلے تو خود غصے میں آ گئیں پھر ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سے شکایت کی جنہوں نے کلاس میں طلبا و طالبات کے سامنے خوب مغلظات سے نوازا۔ اس کے بعد پرنسپل صاحب دس چاپلوسوں کی ٹیم کے ساتھ وارد ہوئے اور بالاخر اپنا آخری ہتھیار “کالج سے نکال دوں گا” کا عندیہ دیا۔ گویا ہمارا سکول کالج بنانے کا مقصد مولویوں کی طرح بس دائرۂِ کالج سے خارج کرنا ہے۔ البتہ وہ اس قسم کی دھمکی کالج میں قابض غنڈہ گرد عناصر کو دیتے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ یہ طریقہ ظاہر ہے انہوں نے مولویوں سے سیکھا ہے۔
کچھ سال قبل میں نے اپنا پہلا آن لائن سافٹ ویئر لانچ کیا۔ انہی دنوں پنجاب حکومت کا حکم نامہ دیکھا کہ سرکاری کالجوں میں طلبا کو انٹرپرینورشپ کی تعلیم اور سہولیات دی جائیں۔ میں نے سافٹ ویئر سے ہونے والی پہلی آمدنی سے طلبا کو روبوٹکس کا کچھ سامان منگوا دیا۔ کئی لڑکے فالتو وقت لیبارٹری میں گزارنے لگے اور روز روز نت نئے تجربے کرنے لگے۔ ساتھ ہی بائیو کی لیب میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت بھی دے دی۔ گرمیوں کے دن تھے اور کالج کے میدان میں گھاس بے تحاشہ اگی ہوئی تھی۔ تقریبا ہفتہ دس دن انٹرنیٹ پر مغض کھپائی اور پورے علاقے کے کباڑیوں کے چکر لگانے کے بعد انہوں نے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی گھاس کاٹنے کی سمارٹ مشین تیار کر لی۔ اگلے دس پندردن میں انہوں نے اساتذہ کے لیے بائیو میٹرک حاضری کا ہارڈویئر اور سافٹ ویئر تیار کر لیا اور پھر اگلے کچھ دن کے اندر موبائل ایپ بنا کر لیب کی لائٹیں پنکھے اور اپلائنسز وائس کمانڈز کے ذریعے کنٹرول کرنے لگے۔ اس سب کو کرنے میں میرا کردار صرف اتنا تھا کہ جب وہ کوئی نیا آئیڈیا لا کر شوق سے مجھے پوچھتے کہ یہ ہو سکتا ہے یا نہیں، تو میں ان کو صرف اتنا کہتا کہ ہاں آپ بنا سکتے ہیں۔ حالانکہ مجھے ان کاموں یا پرزوں کا بالکل بھی علم نہیں تھا اور میں سب چیزوں کے بارے میں انہی سے سن سن کر سیکھ رہا تھا (کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے)۔ جب ایسے چھوٹے موٹے پراجیکٹس سے دل بھر گیا تو میں نے ان کے سامنے ایک بڑا چیلنج رکھا۔ اس دفعہ میں نے ان کو تھری ڈی پرنٹر بنانے کو کہا۔ اب یہ ایک ایسا کام تھا جس کو عموما بی ایس کمپیوٹر سائنس کے فائنل ایئر کے طلبا بھی کرنے سے کتراتے ہیں جبکہ یہ پری میڈیکل سال اول کے طلبا تھے۔
اس کام کے لیے ان کو پروگرامنگ، مکینکس، الیکٹرانکس، روبوٹکس، فزکس، غرض بہت سی مختلف فیلڈز میں مہارت درکار تھی۔ دو لڑکے پورے لاہور کی خاک چھانتے رہے اور صرف دو ماہ میں مکمل تھری ڈی پرنٹر انتہائی کم قیمت میں تیار کر دکھایا۔ اس دوران ریسرچ کرنی بھی آ گئی، بات کرنے کا کانفیڈنس بھی آ گیا اور غلطی سے حق مانگنے کا شعور بھی آ گیا۔ کیمسٹری کے ایک اجرتی (سفارشی) استاد صاحب کتاب سے جملے پڑھ کر اردو میں ترجمہ سنا دیتے تھے۔ مجھ سے متعدد بار شکایت کی تو میں نے سمجھایا کہ شکایت کرنے سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا لیکن ان میں بھی جراثیم پیدا ہو چکے تھے اسلیے میرے منع کرنے کے باوجود وہ وفد لے کر پرنسپل کے کمرے میں داخل ہو گئے۔ کچھ دیر بعد جب واپس نکلے تو کئی لڑکوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ انتہائی دلبرداشتہ تھے۔ پراجیکٹس بنانے میں جو لڑکا پیش پیش تھا وہ کئی دن کالج نہیں آیا۔ میرے بہت زیادہ اصرار، منتوں اور دھمکیوں کے باوجود اس نے پڑھائی چھوڑ دی اور کسی دکان پر یو پی ایس مرمت کرنے لگا۔ گرچہ اپنی مہارت کی وجہ سے بہترین گزر بسر کر لیتا ہے لیکن اگر اس کی تعلیم جاری رہتی تو شاید وہ بھی چاند پر کمند ڈالنے کی سوچتا لیکن ایک استاد کے چند منٹ کے بلڈ پریشر نے اس کے مستقبل کا رخ ہمیشہ کے لیے موڑ دیا۔ شاید اس میں بھی قصور کسی مولوی کا تھا۔
اسی گروپ کے ایک اور طالبعلم کا احوال (انجام) میں نے پہلے ایک پوسٹ میں لکھا تھا۔ انہی میں ایک تیسرا طالبعلم بھی تھا جو اپنے گھر والوں کی سپورٹ کی وجہ سے کسی نہ کسی حد تک ان مشکلات سے بچ کر گزرتا رہا اپنے کلاس روم میں بنائے ہوئے ایک پراجیکٹ کو مزید بہتر کرتے ہوئے اس نے مختلف علاقائی اور قومی سطح کے مقابلوں میں حصہ لیا یہاں تک کہ پاکستان انوویشن ایوارڈ میں بارہ ہزار ٹیموں میں سے ساٹھویں پوزیشن پر پہنچا جبکہ وہ دیگر امیدواروں سے کم عمر بھی تھا۔ فائنل تقریب میں شرکت کر کے جب وہ مجھ سے ملنے آیا تو ہم دونوں کی ہی آنکھوں میں آنسو تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ اگر دوسرے ٹیم ممبرز کی ہمت توڑ نہ دی جاتی تو شاید یہ خوشی تین گنا زیادہ ہوتی۔ لیکن مولویوں سے کسی کی خوشیاں کہاں دیکھی جاتی ہیں۔
یہ سارا احوال پیش کرنے کی وجہ یہ کہ بھادوں کے دن ہیں اور شدید حبس والا موسم ہے۔ آج صبح کالج پہنچا تو بجلی نہیں تھی۔ میری پوری (تیس چالیس لڑکوں کی) کلاس نے ٹائیاں مکمل کس کر پہنی ہوئی تھیں جبکہ گرمی اور حبس کی وجہ سے سانس لینا بھی مشکل تھا۔ پوچھا تو بچے کہنے لگے ٹائی نہ پہننے پر پانچ سو جرمانہ ہے۔ میں نے سمجھایا کہ ٹائی سردیوں کا لباس ہے۔ کہنے لگے ہماری مجبوری ہے۔ گرمی کی وجہ سے آرام سے سونا بھی مشکل ہے تو گلے میں پھندا ڈال کر بچے لیکچر پر توجہ کیسے دے سکیں گے؟ ٹائی کا مقصد ہی جسم کی گرمی کو لباس میں پھنسا کر رکھنا ہے تاکہ گریبان سے گرم ہوا باہر نہ نکلے۔ اتنی کریٹیکل سینس (تجزیہ کی صلاحیت) نہ ہمارے پاس ہے نہ اگلی نسل کو دینی ہے۔ مزے کی بات یہ کہ آج کا موضوع یہ تھا کہ جانور اور پودے جسم کا درجہ حرارت معتدل کیسے رکھتے ہیں!
یہ وہ عمومی ماحول ہے جس میں ہمارے طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ بات کسی اور وقت کریں گے کہ اساتذہ کیا پڑھا رہے ہیں اور ان میں سلیبس پڑھانے اور سوالوں کا جواب دینے کی قابلیت کس درجے کی ہے۔ حالات حاضرہ اور جاب مارکیٹ کی ڈیمانڈز سے کتنے واقف ہیں۔ امتحانی نظام کے سقم، نقل، سفارش، میرٹ کے قتل عام اور رشوت پر نمبر لگانے کو کون سا مولوی مجبور کرتا ہے؟ اس ساری بات سے آپ کو اندازہ ہو جانا چاہییئے کہ ہماری ساری تربیت صرف مار پیٹ، طعنے کوسنے، بے وجہ کی دھونس اور جرمانوں پر ختم ہو جاتی ہے۔ ہم نے عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں دیے ہوئے ہیں اور وہ ہمارے بچوں کے بال و پر نوچ رہے ہیں۔ ہم اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ کچھ وقت میں ہمارے ان شاہین بچوں میں بلند پروازی پیدا ہو جائے گی۔ جب تک زاغوں کی صحبت باقی ہے، بلند پرواز کا خواب دیکھنا بھی عبس ہے۔ یہاں ہر بڑا اپنے سے چھوٹے کی سوچ، صلاحیت، شخصیت، خواہشات اور عزائم کو مسخ کرنے پر تلا ہے۔ پھر امید رکھنا کہ وہ ستاروں پر کمند ڈالیں گے۔۔۔۔۔
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج