اگر لوگوں سے پوچھا جائے کہ تعلیم حاصل کرنا زیادہ اہم ہے یا ووٹ ڈالنا تو شاید زیادہ تر لوگوں کی رائے تعلیم کی طرف ہو گی اور شاید لوگ اس تقابل پر بھی ہنسیں کہ اس کی نوبت کیوں پیش آ گئی۔ لیکن گزشتہ کچھ دنوں سے کچھ ایسے واقعات مشاہدے میں آئے کہ مجھے مجبوراً اس مضحکہ خیز بات کے بارے میں سوچنا پڑا۔ سنا ہے کہ ایک ایک ووٹ اس قدر ضروری ہے کہ “اوپر” سے حکم آیا ہے کہ جن تعلیمی اداروں میں پولنگ سٹیشن بننے ہیں وہاں ہنگامی بنیادوں پر وہیل چیئرز کے لیے ریمپ بنائے جائیں۔ چلیں مان لیا کہ یہ ایک اچھی بات ہے۔ جو بات زیادہ توجہ طلب ہے وہ یہ کہ تعلیمی اداروں کو کہا گیا کہ “اپنے وسائل” میں سے ریمپ کا بندوبست کریں اور بالفرض اگر وسائل دستیاب نہ ہوں تو مٹی ڈال کر عارضی ریمپ تعمیر کیے جائیں کہ کہیں کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ رہ جائے۔ سنا ہے اس بات کا بھی خصوصی خیال رکھا جا رہا ہے کہ پولنگ بوتھ گراؤنڈ فلور پر ہوں تاکہ بزرگ اور وہیل چیئر پر بیٹھے افراد کے لیے رسائی ممکن ہو سکے۔ “اوپر” والوں سے کوئی پوچھے کہ بھلا تعلیمی اداروں کے پاس اتنے وسائل ہوتے تو وہ دو ہزار بارہ میں ہی ریمپ نہ بنوا لیتے جب (میرے علم کے مطابق) پہلی دفعہ عوامی مقامات پر ریمپ بنانے کا قانون لاگو کیا گیا تھا؟ لیکن زیادہ حیرت مجھے اس بات پر ہوئی کہ اداروں میں آناً فاناً وسائل نہ صرف موجود پائے گئے بلکہ دنوں میں ریمپ نما “گھیسیاں” بھی نمودار ہونا شروع ہو گئیں۔ اب آپ مجھے بتائیے کہ دس سال پرانے حکم پر عمل وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے نہ ہو سکا تھا یا ڈنڈے کی؟

ارباب اختیار سے پوچھا جائے کہ آپ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے قوانین پر عمل کیوں نہیں کرواتے تو اکثر ان کا جواب ہوتا ہے کہ ہمیں ایسے کسی قانون کا علم ہی نہیں ہے یا یہ کہ ہمیں بتایا نہیں گیا لیکن میرے خیال میں یہ مسئلہ لاعلمی سے زیادہ احساس کا ہے۔ میں چونکہ اکثر سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بات کرتا رہتا ہوں تو کچھ عرصہ پہلے جنوبی پنجاب سے ایک مزدور لڑکے کا پیغام ملا۔ اس نے بتایا کہ اس کی ٹانگوں کا مسئلہ ہے اور وہ مزدوری کرتا ہے لیکن پڑھنا چاہتا ہے۔ کسی طرح انٹرمیڈیٹ کی سطح تک تعلیم حاصل کر لی تھی اور آگے داخلے کے لیے فیس دستیاب نہیں تھی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ کسی بھی سرکاری کالج یا یونیورسٹی چلے جاؤ، تم سے کوئی فیس وصول نہیں کی جائے گی۔ اس کے نمبر اچھے تھے، اس نے بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں درخواست جمع کروائی اور بہت آسانی سے اس کا داخلہ ایک ذیلی کیمپس میں ہو گیا۔ فیس بھی نہیں لی گئی تو اب وہ شام کو کسی جگہ کام کر کے گھر والوں کو سپورٹ کرنے لگا اور دن میں ریگولر بی ایس شروع کر لیا۔

Notification to facilitate special persons

ایک سال بعد اس کا مجھے دوبارہ میسج آیا۔ اس نے بتایا کہ اس کی بڑی بہن کی بھی اسی قسم کی حالت ہے اور اس کے نمبر زیادہ اچھے تھے لیکن وہ کئی سال سے گھر میں فارغ بیٹھی ہے۔ اب چونکہ اس نے خود یونیورسٹی دیکھ لی تھی تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اس بہن کی زندگی کا بھی کوئی مقصد ہونا چاہیئے۔ گھر والوں کو تعلیم کے لیے تو راضی کر لیا لیکن گھر سے دور بھیجنے پر راضی نہ کر سکا۔ اس لیے مجھ سے رہنمائی لی کہ کیا قریبی کالج میں داخلہ ہو سکتا ہے؟ میں نے کہا کالج میں تو اس سے بھی آسانی سے ہو جائے گا۔ بعد کے واقعات نے دکھایا کہ میں کس قدر غلط فہمی کی دنیا میں رہتا ہوں اور اب مجھے اپنے کیے پر شرمندگی بھی ہوتی ہے۔

اس نے اپنے قریبی کالج میں رابطہ کیا تو کلرک نے صاف جواب دے دیا کہ ہمارے یہاں ایسی کوئی سہولت نہیں ہے۔ مجھے اندازہ تھا کہ کلرک عموما ایسی ہی حرکتیں کرتے ہیں، اسلیے اپنے ایک جاننے والے سے اس کالج کے ایک پروفیسر صاحب کا نمبر لیا۔ ان کو صورتحال بتائی کہ قانون کے مطابق بچے کی مدد کریں تو انہوں نے بھی یہی کہہ دیا کہ مجھے اس بارے میں کچھ نہیں پتہ۔ میں نے متعلقہ نوٹیفیکیشن ان کو بھیجا جس میں اعلی حکام کی طرف سے کالج کو واضح ہدایات تھیں، لیکن اس کو پڑھ کر بھی وہ تذبذب کا شکار رہے اور کہنے لگے کہ میں پرنسپل صاحب تک لڑکے کو پہنچا دوں گا، آگے ان کی مرضی ہے۔ میں نے پرنسپل کے نام درخواست لکھوا کر حکم نامے کے ساتھ بھیجوا دی لیکن اب پرنسپل صاحب کی طرف سے جواب ملا کہ ہمیں محکمہ کی طرف سے ایسا کوئی حکم موصول نہیں ہوا اسلیے میں کچھ مدد نہیں کر سکتا۔ میں نے کچھ کرم فرماؤں کی مدد سے پرنسپل صاحب کے دوستوں کو ڈھونڈ کر ان سے سفارش کروائی کہ جائز اور اصولوں کے عین مطابق کام ہے، آپ انسانی ہمدردی کے تحت ہی کر دیں۔ دوستوں کے کہنے پر ہمدردانہ رویہ تو اختیار کرلیا لیکن اس کے باوجود وہ نہ مانے۔

سوشل میڈیا پر بعض دوستوں سے بات ہوئی تو ایک خاتون پروفیسر صاحبہ نے مسئلہ حل کروانے کی حامی بھری۔ کبھی بورڈ حکام اور کبھی یونیورسٹی کی طرف سے کالز کروائیں لیکن پرنسپل صاحب ہر دفعہ ٹرخاتے رہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ جو بھائی اپنی بہن کی درخواستیں لے کر بار بار کالج میں ٹکریں مارتا رہا اور برداشت کرتا رہا وہ خود چل نہیں سکتا تھا لیکن اس کی حالت کو کسی نے درخور اعتنا نہ سمجھا۔ میڈم نے خود فیس ادا کرنے کی پیشکش بار بار کی تو میں نے درخواست کی کہ میں بچے کو بھیک مانگنا نہیں سکھانا چاہتا، یہ میرا اصولی موقف ہے کہ اس کا جو قانونی حق ہے وہ اسے پوری عزت و احترام سے ملنا چاہیئے۔ بالاخر پروفیسر صاحبہ خود ناظمِ امور کالجز (ڈائریکٹر) کے دفتر پہنچیں اور کیس سامنے رکھا۔ حیرت اس بات پر ہوئی کہ خود ناظم صاحب جو درجنوں کالجوں کے ذمہ دار تھے، قانون نہیں جانتے تھے۔ بہر حال، میڈم کی مدلل گفتگو کے نتیجے میں انہوں نے پرنسپل صاحب کو فون کر کے کہہ دیاکہ آپ داخلہ کریں۔ لیکن اس کے بعد بھی پرنسپل صاحب نے لڑکے کو ٹرخا دیا۔ کوئی اور ہوتا تو اتنے چکروں کے بعد ہمت ہار جاتا لیکن اس کو چونکہ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ تھا اسلیے وہ بھی ڈٹا رہا۔ کچھ دن بعد جب میڈم نے ڈائریکٹر صاحب کو بتایا کہ ان کے کہنے پر بھی کام نہیں ہوا تو وہ اپنے پورے غیظ و غضب کے ساتھ پرنسپل صاحب پر ٹوٹ پڑے اور یہ بھی سراحت سے کہہ دیا کہ اب اس بچی کی شکایت دوبارہ آئی تو اچھا نہیں ہو گا۔ بالاخر پھر لڑکے کو گھر سے بلا کر بہن کا داخلہ بغیر فیس کے کر لیا گیا۔

اگر آپ کو لگتا ہے کہ اس کے بعد بچی نے سکون سے تعلیم شروع کر دی ہو گی تو شاید آپ کو ابھی تک لوگوں کی بے حسی کا اندازہ نہیں ہوا۔ کالج کی فیس معاف ہو گئی تو اب یونیورسٹی کی رجسٹریشن فیس کا مسئلہ بن گیا کہ وہ تو ادا کرنی ہی پڑے گی۔ میں نے بتایا کہ ہمارے یہاں (اسی پنجاب میں جس کے وہ بھی باسی ہیں) لاہور بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی رجسٹریشن فیس نہیں لیتی تو اس کے ایک دفعہ پھر ملتان کے چکر لگنا شروع ہو گئے۔ جس نے دوسروں کا راستہ روکنا ہو وہ کوئی نہ کوئی بہانے ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔ پرنسپل صاحب چاہتے تو رجسٹریشن فیس کالج فنڈ سے ادا کر سکتے تھے جس کا حکم انہیں دکھایا گیا تھا۔ اور اگر پنجاب یونیورسٹی فیس نہیں لیتی تو بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی نے چند لوگوں سے فیس اکٹھی کر کے کون سے مینار تعمیر کر لینے ہیں؟ عجیب و غریب بات یہ کہ یونیورسٹی اپنے ریگولر سپیشل طلبا سے تو رجسٹریشن فیس نہیں لیتی لیکن اگر کوئی حالات کا مارا کسی ملحقہ کالج میں داخلے کے لیے مجبور ہو تو اس کو وہی قانونی رعایت دستیاب نہیں ہے جس کا جواز سمجھ سے باہر ہے۔ جب ان سے ہاسٹل کی بجلی کا بل اور کھانے کے پیسے لینے کی اجازت بھی نہیں ہے تو اور کن الفاظ میں لکھا جائے کہ کسی قسم کے کوئی اور پیسے نہیں لینے؟َ بالاخر میں نے اپنے اصولی موقف سے انحراف کرتے ہوئے انتہائی شرمندگی کے ساتھ اس کی فیس ادا کی اور اس کی خواری ختم کروائی۔

اگر میری اس تحریر سے آپ کو لگتا ہے کہ لاہور میں معاملات بہت اچھے ہیں تو افسوس اب بھی آپ غلط ہیں۔ مذکورہ حکم نامے میں اعلی تعلیم کے لیے ایک ایک سیٹ مختص کرنے کو کہا گیا تو جامعہ پنجاب کے بعض نابغوں نے اس کا “حل” یہ نکالا کہ پوری یونیورسٹی کی سطح پر ایک سیٹ ایم فل اور ایک پی ایچ ڈی کے لیے مختص کر دی کہ پورے ملک سے کسی دو اشخاص کو یہ سیٹیں مل جائیں تو حاتم طائی کی قبر پر لات پڑ جائے گی۔ سرکاری کالجوں میں مختص شدہ سیٹوں اور ان کے ساتھ جڑے فوائد کی عموما تشہیر ہی نہیں کی جاتی۔

اور پھر آپ قوانین کو جتنا مرضی واضح اور سخت کر لیں، آپ لوگوں کو جگہ جگہ نا انصافیاں کرنے سے کیسے روکیں گے؟ آج اس ساری تمہید کی اصل وجہ یہ ہوئی کہ لاہور کے ایک سرکاری کالج میں ایک اسی طرح کے بچے نے میرٹ پر اور فیس جمع کروا کے داخلہ لے لیا۔ اتفاق سے یا جان بوجھ کر اس کی کلاس پہلی منزل پر رکھ دی گئی۔ اس کا باپ روز صبح اس کو اٹھا کر پہلی منزل پر پہنچاتا اور بارہ بجے کام چھوڑ کر اس کو سیڑھیوں سے اتار کر لاتا۔ سینکڑوں افراد پانچ ماہ روزانہ مکمل بے غیرتی کے ساتھ یہ منظر دیکھتے رہے۔ اساتذہ بار بار اس حوالے سے “حکام” کو درخواست کرتے رہے کہ خدارا رحم کریں لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ ایک صاحب کو یہ گوارا نہیں تھا۔ یہاں تک کہ جنوری کی پیرنٹ ٹیچر میٹنگ میں باپ بھرے ہال میں رو پڑا کہ مجھے اپنے بیٹے کا وزن بھاری نہیں لگتا لیکن مجھے یہ ڈر ہے کہ کسی دن ہم گر نہ جائیں۔ چنانچہ کمال مہربانی کرتے ہوئے اس کی کلاس نیچے شفٹ کر دی گئی کہ آپ میرے پاس پہلے کیوں نہیں آئے؟ لیکن یہ بات ایک پروفیسر صاحب کو نہ جانے کیوں اس حد تک گراں گزری کہ انہوں نے ایڈمن بلاک میں کھڑے ہو کر سب کے سامنے ایسا کروانے والوں کو گندی گالیوں سے نوازا، سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور بچے کو کالج سے نکالنے کا عندیہ دیا۔ معاملات زیادہ خراب ہوئے تو سامنے آیا کہ وہ صاحب جب ایڈمیشن کمیٹی کے انچارج تھے تو چھوٹی موٹی معذوری کے شکار افراد کو بھی داخلے سے منع کر دیتے تھے اور دوسرے اساتذہ پر بھی اس حوالے سے دباؤ ڈالتے رہے۔

نہ جانے کتنے روشن دماغوں کی ہمت اور اچھے مستقبل کی امید ان بے شرموں نے توڑ کر بھیک مانگنے اور رونے پر مجبور کر دیا ہو گا۔ آپ سو قانون بنا لیں، اداروں میں ریمپ بنائیں یا لفٹ لگا دیں، فیس معافی کا اعلان کریں یا سیٹیں مختص کریں، جب تک لوگوں کے دماغی خلل کا علاج نہیں کریں گے تب تک ان کاغذوں کی حیثیت ردی سے زیادہ نہیں ہو گی۔ ہم ہر طاقتور کے سامنے جھک جاتے ہیں اور اپنے سے کمزور پر ظلم کرتے ہمیں غلطی کا بالکل احساس نہیں ہوتا۔ اگر آپ جنوبی پنجاب کے کالج کے ان پرنسپل صاحب سے یا یونیورسٹی کے رجسٹرار صاحب یا لاہور کے ان پروفیسر صاحب سے سوال کریں کہ ہمارے ملک کی پسماندگی کا ذمہ دار کون ہے تو لیکچر ججوں، جرنیلوں، اور سیاستدانوں سے شروع ہو کر عین ان کے اوپر والوں سے ہوتا ہوا ان سے نیچے والوں پر جا کر ختم ہو گا لیکن اس ظلم اور تباہی میں اپنا حصہ وہ نہیں گنوائیں گے۔ اصل ضرورت اس چیز کی ہے کہ عوام کا راستہ روکنے والوں کے دانت توڑے جائیں اور طاقت کے نشے میں چور ہر شخص کو اس کی اوقات بتائی جائے۔

اس پیغام کو عام کرنے میں ہماری مدد کریں۔ شیئر پر کلک کریں۔ بقول اقبال

نوا پیرا ہو اے بلبل، کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech