آج کل کے جدید دور میں انسان کسی نہ کسی وجہ سے  ذہنی دباؤ اور نفسیاتی مسائل کا شکار رہتا ہے۔

اگر ان نفسیاتی مسائل کی بر وقت تشخیص نہ کی جائے تو یہ ذہنی دباؤ بعض دفعہ سنگین جسمانی اور ذہنی بیماریوں کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔ یہ نفسیاتی عارضے ہر انسان میں مختلف ہوسکتے ہیں۔ ہمارے طلباء میں اس دباؤ کی مرکزی وجہ امتحان اور دیگر نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کے باعث ہوتا ہے۔ اکثر امتحانات کے دوران طلباء عجیب صورتحال  کا شکار پائے جاتے ہیں، کبھی سر میں درد، کبھی سر کا چکرانا، پیٹ میں درد رہنا وغیرہ کی شکایات عام سننے کو ملتی ہیں۔

یہ ذہنی دباؤ ہمیں لاشعوری طور پہ کسی کام کی اہمیت کے بارے میں بتا رہا ہوتا ہے۔ اگر یہ دباؤ زیادہ ہو جائے تو ہمارے دماغ کی دہی بھی کر جاتا ہے مطلب اس پہ اثر کرتا ہے جس سے ہماری یاداشت کم ہونا شروع  ہو  جاتی ہے جو کہ امتحان کے نقطہِ نظر سے نہایت ہی نامعقول بات ہے۔

اس کا ایک حل یہ ہے کہ اپنی پریشانی کو منظم کریں اور کسی کاغذ پر وہ تمام حالات (مثلاً سر درد، پیٹ کے حالات، پسینہ آنا، سانس پھولنا، کپکپی یا کپکپاہٹ طاری ہونا وغیرہ وغیرہ) لکھیں جو آپ محسوس کر تے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق  جو طلباء یہ عمل کرتے ہیں اُن کا نتیجہ دس فیصد بہتر ہوتا ہے، ایسا کرنے سے طلباء کا سارے کا سارا سٹریس کاغذ پر منتقل ہو جاتا ہے اور وہ  اطمینان محسوس کرتے ہیں اور پہلے سے بہتر نتائج  پیش کرتے ہیں۔

طلباء، امتحان، اور ذہنی دباؤ 1

اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ  اس دباو کی ممکنہ وجوہات کیا ہوتی یا ہوسکتی ہیں؟ ہم سب پہلے وہ کام کرتے ہیں جو آسان ہو اور کم سے کم وقت کے اندر ہوسکے۔ جو کام مشکل ہوتا ہے ہم اُس کو مؤخر کرتے رہتے ہیں، اور اگر وہ کام اہم ہو تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہنی دباو کی وجہ بنتا ہے۔ اِس میں اہم عنصر اپنی ناکامی کا ڈر بھی ہوتا ہے۔ عزیز طلباء یہ بات ذہن میں رکھیں کے اگر آپ ناکام نہیں ہونگے تو سیکھ نہیں سکیں گے اس لیے ناکامی کے خوف سے باہر نکلنا نا صرف ضروری ہے بلکہ لازمی بھی، ویسے بھی ہم جانتے ہی ہیں کہ “ڈر کے آگے جیت ہوتی ہی ہے”۔

یہ حقیقت ہے کہ ہمارا دماغ منفی چیزوں مثلاً پرانی ناکامی، امتحانات میں کم نمبرز وغیرہ  کو یاد کرتا ہے، لیکن اس کو سر پر سوار نہ کریں اور نا ہی اس کے متعلق سوچیں۔ ان سوچوں سے بہترہے کہ آگے بڑھیں اور پہلے سے زیادہ محنت کو ترجیح دیں، اچھی اور بہترین تیاری ہمارے امتحانی سٹریس کو کم کرتی ہے۔ اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے  ایک حکمتِ عملی  یہ ہے آپ کہ اپنے سابقہ آزمائشی امتحان میں اپنی غلطی کی نشاندہی کریں اور اس غلطی کو سدھارنے اور تصحیح کی کوشش کریں۔

عامر خان کی دنگل مووی تو آپ سب نے دیکھی ہی ہوگی جس میں جب اس کی بیٹی بار بار ہارنے لگتی ہے تو اس کا باپ مہاویر سنگھ پھوگاٹ اس سے پرانی ہاری ہوئی کُشتیوں کی سی ڈی منگوا کر دیکھتا ہے اور پھر اس کی غلطیاں ڈھونڈ کر اپنی بیٹی کو ان غلطیوں کو ٹھیک کرنے کا کہتا ہے۔ اس پہ عمل کر کے ہی گیتا اپنی سابقہ  غلطیوں کو پہچانتی ہے، ان کو دور کرتی ہے اور آخر کار کامیاب ہو جاتی ہے۔

طلباء، امتحان، اور ذہنی دباؤ 2

طلباء اگر آپ غلطی کو اُسی وقت  یاد کر لیں تو عین ممکن ہے کہ وہ غلطی دُوبارہ نہیں ہو گی اور آپ کو امتحان کے دن تک یاد رہے گی۔ امتحان جیسے حالات (مثلاً ٹیسٹ وغیرہ) میں بار بار بیٹھیں  جس سے چیزیں دماغ میں محفوظ رہیں گی، اورامتحان کی پریشانی بھی دور ہوگی۔

امتحان کی تیاری کرتے وقت ہمیشہ “پلان بی” بھی رکھیں  ایک ہی امتحان کو اپنی زندگی  کا آخری امتحان مت سمجھ لیں کہ گویا اس میں ناکام ہو گئے تو دینا ہی ختم ہوجائے گی۔

ناکامی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اس سے سیکھیں نا کہ اپنے اعصاب پر اس کو سوار کرلیں، اور مفلوج ہو کر رہ جائیں۔ عزیز طلباء زندگی دورانیے کے لحاظ سے بہت قلیل ہے مگر  حجم کے لحاظ سے بہت بڑی ہے  یاد  رکھیں ناکامی ایک بہترین اُستاد ہے۔

ویسے بھی کہتے ہیں کہ عقلمند وہ ہوتا ہے جو نا صرف اپنی بلکہ دوسروں کی غلطیوں سے سیکھتا ہے جبکہ احمق غلطیوں سے کچھ سیکھے بغیر انھیں بار بار دوہرائے جاتا ہے وہ بھی اس امید پہ کہ شائد اس بار نتیجہ مختلف آئے۔