آج میں آپ کو ایک کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ میری نئی نئی کالج میں نوکری ہوئی تو میں بہت زیادہ پرجوش اور مشتاق تھا۔ میں بہت توجہ اور محنت سے اپنے لیسن پلان تیار کرتا تھا۔ لیکن جوں جوں وقت گزرا تو مجھ پر یہ خوفناک حقیقت آشکار ہونے لگی کہ میرے طلبا کو میرے لیکچر میں خاص دلچسپی نہیں۔
پھر ایک دن یوں ہوا کہ میں نے اپنی کلاس کو کتاب کے ایک موضوع کے چند صفحے گھر سے پڑھ کر آنے کو کہے۔ یہ موضوع پوری بیالوجی میں مجھے سب سے زیادہ پسند ہے: “وائرس کیسے حملہ آور ہوتے ہیں”۔ تو اگلے دن میں بہت پرجوش تھا۔ میں نے بچوں سے سوال کیا کہ کوئی بتائے گا کہ اس کا مرکزی خیال کیا تھا اور یہ آپ کو کیسا لگا؟ کلاس میں خاموشی تھی۔ پھر میرے سب سے ہونہار طالبعلم نے حوصلہ کرتے ہوئے جواب دیا “بہت فضول ٹاپک تھا، کچھ سمجھ نہیں آیا”۔ میں ابھی سکتے میں ہی تھا کہ اس نے وضاحت کی “زیادہ برا تو نہیں تھا لیکن مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آیا۔ بہت بورنگ ٹاپک تھا۔ ویسے بھی اس کا مقصد کیا تھا؟ بالکل ہی فضول ٹاپک تھا”۔
کمرے میں سب بچوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دی اور مجھے احساس ہوا کہ یہ سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ سب کے پڑھنے کا طریقہ کار ایک ہی ہے کہ نوٹس لے لو اور کتاب میں لکھی تعریفوں کے رٹے لگا لو، لیکن کسی خیال کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی بھی یہ بتانے کے قابل نہیں تھا کہ یہ موضوع اتنا دلچسپ کیوں ہے یا اس کی کیا اہمیت ہے۔
میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل چکی تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آگے کیا کیا جائے۔ تو میں نے ان کو ایک کہانی سنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ کہانی تھی جراثیم اور وائرسز کی۔ یہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ مائیکرو سکوپ کے بغیر نظر بھی نہیں آتے اور ہم سب نے ان کا نام سنا ہوا ہے کیونکہ یہ ہمیں بیمار کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ وائرس بیکٹیریا کو بھی بیمار کر سکتے ہیں۔ اور یہ ان کی آپسی دشمنی کی داستان ہے۔ یہ ایک بہت ڈراؤنی کہانی ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹا سا معصوم سا نظر آنے والا جرثومہ بہت خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا۔ لیکن اس کی معصوم شکل پر نہ جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کے پیٹ میں تیر رہا ہو یا کہیں خراب سالن میں پڑا ہو۔ پھر اچانک اس کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ شاید اس نے کچھ الٹا سیدھا کھا لیا تھا۔ اس نے آرام کرنے کا فیصلہ کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کی حالت اور زیادہ خراب ہو گئی۔ حالات اچانک بہت ڈراؤنے ہو گئے کیونکہ اس کی جلد اندر سے پھٹنے لگی اور اس نے دیکھا کہ اس کے اندر سے ایک وائرس نکل کر باہر آ رہا ہے۔ ایک دم اس کے پورے جسم پر ایسے ہی شگاف پڑنے لگے اور چند ہی لمحوں میں اس کے اندر سے وائرسز کی پوری فوج نکل کر باہر آ گئی۔ جراثیم کے کسی ڈراؤنے خواب کی طرح اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور اندر سے نکلنے والے وائرس ہر جگہ پھیل گئے۔
بیکٹیریا کے لئے تو یہ صورتحال خوفناک ہے لیکن اگر آپ وائرسز کی ٹیم کے طرف ہیں تو یہ فتح کا جشن منانے کا وقت ہے۔ کیونکہ اس بڑے سے بیکٹیریم کو انفیکٹ کرنا بہت مشکل، سمجھ داری اور جان جوکھوں کا کام تھا۔ اصل میں جب وہ بیکٹیریم ادھر ادھر آوارہ گردی کرتا پھر رہا تھا تو ایک چھوٹا سا وائرس اس کے ساتھ چپک گیا تھا۔ اس وائرس نے خاموشی سے اپنا ڈی این اے بیکٹیریم میں چھوڑ دیا تھا۔ وائرس کے ڈی این اے نے بیکٹیریم کے ڈی این اے کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور پھر سیل کا کنٹرول خود سنبھال لیا۔ کنٹرول سنبھالنے کے فورا بعد وائرس کے ڈی این اے نے سیل کے ذریعے اپنے جیسے نئے وائرس بنانا شروع کر دیے۔ ڈی این اے اصل میں وہ پروگرام ہوتا ہے جو سیل کو بتاتا ہے کہ کام کیسے کرنا ہے اور کیا کیا بنانا ہے۔ تو یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کار بنانے کی فیکٹری پر قبضہ کر کے اس میں کار بنانے والی ہدایات کی جگہ قاتل روبوٹ بنانے کی ہدایات رکھ دیں۔ مزدور روز فیکٹری میں آئیں گے اور اپنا کام کریں گے۔ ان کو نہیں پتہ چلتا کہ آپ نے ان کی ہدایات تبدیل کر دی ہیں اور وہ اب کار کے بجائے قاتل روبوٹ بنا رہے ہیں۔ اسی طرح وائرس جب سیل میں اپنا ڈی این اے ڈال دیتا ہے اور بیکٹیریا کا ڈی این اے ختم کر دیتا ہے تو سیل وائرس کی ہدایات پر عمل شروع کر دیتا ہے – جب تک اس میں وائرس بھر نہ جائیں اور وہ پھٹ نہ جائے۔
لیکن کسی سیل پر قبضہ کرنے کے لئے وائرس صرف یہی طریقہ استعمال نہیں کرتے۔ کچھ وائرس زیادہ چالاک ہوتے ہیں۔ یہ والے وائرس جاسوس ہیں اور خاموشی سے بغیر شور شرابے کے اپنا کام کرتے ہیں۔ جب یہ اپنا ڈی این اے کسی بیکٹیریا کے سیل میں داخل کرتے ہیں تو وہ کچھ خاص نہیں کرتا۔ وہ دشمنوں کے ایجنٹ کی طرح خاموشی سے چھپ کر بیٹھا رہتا ہے اور مناسب وقت کا انتظار کرتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب بیکٹیریم وقت گزرنے کے بعد تقسیم ہو کر ایک سے دو ہو جاتا ہے تو ان دونوں میں وائرس کا ڈی این اے ہوتا ہے۔ پھر دو سے چار اور چار سے آٹھ، بیکٹریا کا پورا خاندان بن جاتا ہے جن میں وائرس کا ایجنٹ ڈی این اے چھپ کر بیٹھا ہے۔ بیکٹیریا کا خاندان ہنسی خوشی زندگی گراز رہا ہے اس بات سے انجان کے اس کی قسمت کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ اچانک اندر چھپے وائرس کو پیغام ملتا ہے اور پھر۔۔۔ اچانک ڈی این اے متحرک ہو جاتا ہے، سیل کے اوپر کنٹرول سنبھال لیتا ہے اور ان کو وائرس بنانے کی فیکٹریوں میں بدل دیتا ہے۔ یہاں ایک نہیں، بیکٹیریا کے پورے خاندان کے سیلز اکٹھے پھٹتے ہیں اور ان میں سے وائرسز کی کئی گنا بڑی فوج نکلتی ہے۔ اب آپ کو سمجھ آ گیا کہ وائرس کیسے سیلز پر حملہ کرتے ہیں؟ حملہ کرنے کے دو طریقے ہیں۔ جب وائرس سیل پر فورا قبضہ کر کے اس کو تباہ کر دیں تو اس کو لیٹک سائیکل کہتے ہیں اور جب سیل میں وائرس چھپ کر بیٹھ جائے اور مناسب وقت کا انتظار کرے تو اس کو لائسو جینک سائیکل کہتے ہیں۔
تو یہ باتیں سمجھنا اتنا مشکل تو نہیں ہیں۔ اگر آپ نے میٹرک اور ایف ایس سی میں حیاتیات پڑھی ہے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے یہ باتیں پہلے بھی پڑھ رکھی ہیں۔ لیکن مجھے یہ بھی یقین ہے کہ یہ باتیں آپ کو اس انداز میں پڑھائی گئی ہوں گی کہ آپ زیادہ دیر ان کو یاد نہیں رکھ سکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بچوں نے پہلی دفعہ اس کو پڑھا تو وہ اس کو یاد کیوں نہیں رکھ سکے؟ انکو یہ اتنا غیر دلچسپ کیوں لگا؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ ان کی کتاب میں یقینا “سیکرٹ ایجنٹ وائرس” کے بارے میں نہیں لکھا ہو گا اور اس میں ڈراؤنی کہانیاں بھی نہیں ہوں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس پڑھنا اور پڑھانا سنجیدہ لوگوں کا کام ہے۔ مجھے اس بات کا شدید دکھ ہے۔ میں نے ایک پبلشر کے ساتھ بطور مصنف کام کیا۔ اور مجھے ہمیشہ کہا گیا کہ کتاب میں کہانیاں یا مزے کی باتیں شامل نہ کی جائیں، زبان سنجیدہ ہو کیونکہ بصورت دیگر میرے کام کو “سنجیدہ” یا “سائنسی” نہیں سمجھا جائے گا۔ اگر معلومات دلچسپ یا کہانی کے انداز میں دی جائیں تو یہ “سائنسی” نہیں سمجھی جاتیں۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ان کی درسی کتب کی زبان بالکل نہ سمجھ آنے والی ہوتی ہے۔ اگر یہی کہانی جو میں نے آپ کو سنائی ہے، میں لکھوں تو شاید یوں کہ، “وائرس کسی بیکٹیریا میں اپنا ڈی این اے داخل کر کے اس سے اپنی کاپیاں بنواتا ہے”۔ یہی چیز کتاب میں ایسے لکھی ہوتی ہے “بیکٹیریو فیج کی ریپلیکیشن کا پہلا مرحلہ وائرل نیوکلیئک ایسڈ کا بیکٹیریا میں دخول ہے”۔ واہ! تیرہ چودہ سال کی عمر کے بچوں کے لئے اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے؟
سائنس والوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایسی چیزیں کتاب میں شامل کرنے کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ وہ طلبا کو کوئی ایسی بات نہیں بتانا چاہتے جو ان کے خیال کے مطابق صد فیصد درست نہ ہو۔ مثال کے طور پر میں نے آپ کو بتایا کہ وائرسز میں ڈی این اے ہوتا ہے۔ اصل میں چند وائرسز میں ڈی این اے نہیں بھی ہوتا۔ ان کے پاس اس کے بجائے آر این اے ہوتا ہے۔ تو سائنس لکھنے والے کہیں گے کہ ڈی این اے کا لفظ نہیں لکھا جانا چاہیئے۔ اس کی جگہ زیادہ ٹیکنیکل لفظ ہونا چاہیئے۔ اور پھر پروفیشنل سائنس ایڈیٹرز کی ایک ٹیم میرے لکھے ہر ہر لفظ میں کوئی نہ کوئی غلطی تلاش کر لے گی اور ہر اس چیز کو بدل دیا جائے گا جو ان کے خیال میں سنجیدہ، یا درست نہ ہو۔ اس طرح وہ جملہ بالکل درست تو ہو جائے گا لیکن پھر طلبا کے لئے بالکل سمجھ سے باہر ہو گا۔ یہ ایک خوفناک صورتحال ہے۔
سو فیصد درست معلومات کے اس عذاب نے سائنس میں کہانی سنانا ناممکن کر دیا ہے۔ جیسے آپ کا کوئی دوست ہو جس کو سب کی غلطیاں درست کرنے کی عادت ہو۔ آپ کسی کو بتا رہے ہوں کہ “ہمیں رات کے گھپ اندھیرے میں اٹھ کر سو کلومیٹر گاڑی چلا کر جانا پڑا” اور وہ آپ کو ٹوکے “اصل میں ستاسی اعشاریہ تین کلومیٹر” اور آپ کہیں “اصل میں تم اپنا منہ بند رکھو۔ مجھے پوری بات بتانے دو”۔
ایک اچھی کہانی کے ذریعے آپ سننے والوں کے ساتھ رابطہ قائم رکھتے ہیں، ان کو احساس دلاتے ہیں کہ جو بات ہو رہی ہے وہ اہم اور سننے کے لائق ہے۔ ساتھ ہی ہمیں یہ بھی احساس ہونا چاہیئے کہ اصل نکتہ سمجھانے کے لئے کون سی تفصیلات بتانا ضروری نہیں۔ کبھی کبھی سچ بتانے کے لئے آپ کو جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ سائنس کی تعلیم میں تو یہ اور زیادہ ضروری ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں سائنس میں درست معلومات یا تفصیلات کی اہمیت کو کم کرنے کی وکالت کر رہا ہوں حالانکہ میرا مقصد یہ نہیں۔ میں صرف یہ کہتا ہو کہ کم عمر بچوں کو اتنی تفصیل اور درستگی کی ضرورت نہیں۔ اگر وہ بچہ یہ سمجھے کہ تمام وائرسز میں ڈی این اے ہوتا ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ بڑا کو کر سائنس میں ناکام رہے گا۔ لیکن اگر ہم اس کو سائنس اتنی مشکل کر کے پڑھائیں کہ اس کو سمجھ ہی نہ آئے اور اس وجہ سے وہ اس مضمون سے ہی نفرت کرنے لگے تو اس کے سائنس میں کامیابی کے امکانات ضرور کم ہوں گے۔
اس بات کا امکان تو کم ہی ہے کہ اوپر بیٹھے ہوئی بڑے بڑے اداروں کے سربراہ میری اس درخواست کو قابل عمل سمجھیں گے اور پالیسی میں کوئی تبدیلی لائیں گے۔ لیکن شکر ہے کہ ہمارے پاس ایک راستہ ہے جس کو انٹرنیٹ کہتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ہم نیچے سے اوپر کی طرف تبدیلی لانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ بہت سے آن لائن ریسورسز ایسے ہیں جو سائنس کو سادہ، اور دلچسپ انداز میں بیان کر رہے ہیں۔ میرا خواب ہے کہ وکی پیڈیا طرز کی ایک ویب سائٹ ہو جس پر سائنس کے تمام تصورات کو اتنا سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہو کہ کوئی بھی مڈل سکول کا بچہ اس کو سمجھ سکے۔ میں خود بھی یوٹیوپ پر ایسی ویڈیوز بنانے میں اپنا وقت صرف کرتا ہوں۔ میں ان کو فیول سیل اور کیمیکل ایکوئی لبریم کے تصورات ان کی زندگی سے متعلقہ مثالوں سے سمجھاتا ہوں۔ مجھے جو فیڈ بیک ملتی ہے اکثر اس میں ہجوں کی غلطیاں ہوتی ہیں یا بلیوں کی تصویریں ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جو تعریف اور تشکر ان میں ہوتا ہے اس سے مجھے پتہ لگتا ہے کہ میں بالکل ٹھیک کر رہا ہوں۔
لیکن ابھی بھی بہت سا کام کرنے والا ہے۔ اس لئے میری درخواست ہے کہ اگر آپ کسی بھی طرح سائنس سے جڑے ہیں تو آپ بھی اس نیک کام میں حصہ ڈالیں۔ کیمرہ اٹھائیں، بلاگ لکھیں، جو مرضی کریں لیکن سنجیدگی اور مشکل اصطلاحات کو چھوڑ دیں۔ ان تمام غیر ضروری تفصیلات کو بھی چھوڑ دیں جن کی کسی کو پرواہ نہیں اور اصل بات پر آئیں۔ شروعات کیسے کرنی ہے؟ میرے خیال میں شروعات اس جملے سے ہونی چاہیے کہ “آؤ میں تم سب کو ایک کہانی سناتا ہوں”
یہ مضمون ٹائلر ڈی ویٹ کے ایک لیکچر کا ترجمہ ہے جو انہوں نے سات سال پہلے ایک ٹیڈ ٹاک کے دوران دیا تھا۔ ٹائلر سائنس کو عام فہم اور دلچسپ انداز میں پیش کرنے کے داعی ہیں اور اس حوالے سے یوٹیوب چینل اور ویب سائٹ چلاتے ہیں۔ ان کا یوٹیوب چینل سائنس کے مشہور ترین چینلز میں سے ہے۔