اکثر طلباء یہ شکایت کرتے ہیں کے اُن کو سبق یاد کرنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے کیا طلباء  ٹھیک طریقے سے یاد نہیں کرتے ہیں یا پھر مسئلہ کچھ اور ہے؟

آئیے کوشش کرتے ہیں اس مسئلے کو سلجھانے کی۔ ہم میں سے بہت سے طلباء یاداشت یعنی میموری سے تو واقف ہونگے ہی ۔ میموری تین قسم کی ہوتی ہے؛ پہلی سینسری میموری وہ یاداشت ہوتی ہے جو ہمارے حساس اعضاء محسوس کرتے ہیں مثلاً کمرے میں بیٹھے ہوئے پنکھا بند ہونے کا احساس ہونا، اس کے علاوہ سردی وغیرہ کا لگنا، اگر کوئی اس بارے میں پوچھے تو ہم ان چیزوں کو یاد رکھ سکتے ہیں۔

یاداشت کو کیسے بہتر کیا جائے 1

اُس کے بعد دوسری قسم ہوتی ہے شارٹ ٹرم میموری (ایس ٹی ایم) ، اس میں ہمارا دماغ کسی بھی یاداشت کو لمبے عرصے تک یاد نہیں رکھ سکتا یہ یاداشت 20 سیکنڈ کے لیے ہوتی ہے اس کی مثال  میں روز مرہ کے واقعات جیسے پچھلے دو دن کیا  کھا یا تھا یا پھر کل گاڑی کہا ں پارک کی تھی آتے ہیں، اگر ہم سے کوئی ان چیزوں کے بارے میں پوچھے تو عین ممکن ہے کہ  ہمیں یہ سن باتیں یاد نہ  ہو۔ شارٹ ٹرم میموری کا کام ایسی چھوٹی معلومات کو یاد کرنا ہوتا ہے جیسے کسی کا فون نمبر وغیرہ، جو ہم آسانی سے یاد کر سکتے ہیں۔ اِس کے  علاوہ کمپیوٹر میں استعمال ہونے والی ریم بھی  شارٹ ٹرم میموری سے مماثلت رکھتی ہے، جس میں ڈیٹا عارضی طور پر سٹور ہو تا ہے الغرض یہ بھی شارٹ ٹرم میموری کے زمرے میں آتاہے۔

یاداشت یا میموری کی تیسری قسم لونگ ٹرم میموری(ایل ٹی ایم) ہے۔ یہ وہ یاداشت ہے جو ہمارا دماغ محنت سے ذخیرہ کرتا ہے  اور ہم اِس یاداشت کو ذخیرہ کرنے میں اپنا قیمتی وقت صرف کرتے ہیں۔ بہت سی کوششوں کے بعد ہم کسی یاداشت کو بہتر طور پر ذخیرہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں ۔ ان میں  کوئی بھی سیکھا ہوا ہنر ،مہارت  یا زبان وغیرہ لونگ ٹرم میمور ی کی مثال ہیں۔ اسی طرح لونگ ٹرم میموری کمپیوٹر کی روم  کے مترادف  ہے جس میں کمپیوٹر مستقل طور پر ڈیٹا ذخیرہ کرتا ہے۔

یاداشت کو کیسے بہتر کیا جائے 2

جب  طالب علم میٹرک یا  انٹر  میں داخلہ لیتے ہیں تو اکثر بچے یہ شکایت کرتے ہیں کہ اُن کا حافظہ بہت کمزور ہے اور  وہ چیزو ں کو  جلدی یاد نہیں کر پاتے۔ کبھی تو کوئی سٹوڈنٹ یہ شکوہ کرتا بھی پایا جاتا ہے کہ میرا تو اتنا دماغ ہی نہیں کہ اتنے سارے ٹاپکس اور لیکچرز یاد رکھ سکوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کوئی شخص کمتر ذہنی صلاحیتوں کا مالک ہو ایسی طرح ہمارے سٹوڈنٹس بھی ایک ہی جیسی ذہنی صلاحیتوں کے  حامل ہوتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت اپنی پڑھائی سے ہٹ کر دوسرے غیر ضرو ری کاموں میں ضائع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے پڑھائی کے لئے ان کے پاس اتنا وقت بچتا ہی نہیں ہے جتنا چاہیئے ہوتا ہے۔   رہی بات کہ میرا اتنا دماغ نہیں تو اس کامختصر سا جواب یہ ہےکہ ہماری یاداشت لا متناہی ہوتی ہے اس میں ضرورت سے زیادہ مواد ذخیرہ ہو سکتا ، اتنا جتنا کہ کوئی بڑے سے بڑا کمپیوٹر بھی نہیں سٹور کرسکتا۔ شرط سرف اتنی سی ہے کہ طالب علم تھوڑی سی توجہ  اور شوق سے پڑھیں ۔

چیزوں کو یاد کرنے میں بھی اکثر طالب علم پریشان نظر آتے ہیں، اسائنمنٹ کو  ہو بہو یاد کرنا خاصا مشکل کام ہے،مشکل چیزوں کو یاد رکھنے کے لیے بھی کوئی حکمت عملی اپنانا پڑتی ہے۔ ایک طریقہ نی مونکس ہے۔  اس میں  یاد کرنے والی چیزوں کو مختلف اشیا ء سے منسلک کر کے یا د کیا جاتا ہے بچپن میں ہم نےسائن ،کوز ، ٹھیٹا کو یا د کرنے کے لئے  عو ،قو ، عق والا فارمولا یا د کیا تھا   عو سے مرا د عمود بٹا وتر جبکہ قو سے مراد قاعدہ بٹا وتر اور عق سے مراد عمود بٹا قائدہ ہوتا ہے۔

یاداشت کو کیسے بہتر کیا جائے 3

اسی طرح ہمارے کیمسٹری کے ٹیچر نے ہمیں پورے کا پورا پیریوڈک ٹیبل یاد کروایا ہوا تھا  ۔اس طریقہ کی مدد سے ہم فارمولوں  اور مشکل  تحریروں   کواچھی طرح یاد کر سکتے ہیں۔

فینٹیسی سٹوری بھی اپنی یاداشت کو بہتر کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے جس میں استاداپنے سبق  کو  کسی  دلچسپ کہانی سے منسلک کر کے  یاد کروا سکتا ہے،یا کوئی ایسا منظر دیکھ کر  کسی چیز کو یاد کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی چھوٹے بچے کو قوسِ قزح کے رنگوں کے نام یاد کروانے ہوں تو ہم اُسے قوسِ قزح  دیکھا کر رنگوں کے نا م یاد کروا سکتے ہیں، اس طرح وہ جب بھی قوسِ قزح کو دیکھے گا تو  رنگوں کے نام اس کے ذہن میں آ جائیں گے ۔

یاداشت کو پختہ بنانے کا ایک اور کارآمد طریقہ بار بار پڑھنا بھی ہے۔ اس طریقے میں کسی نوٹس یا اسائنمنٹ کو وقفوں کے ساتھ متواتر پڑھا جاسکتا ہے۔  مثلاً کسی اسائنمنٹ کو دو دن بعد ،پھر چار دن بعد ،پھر ایک ہفتہ اور پھر پندرہ دن بعد۔ یہ طریقہ استعمال کر کے کوئی بھی سٹوڈنٹ  اپنی یاداشت کو  بہتر بناسکتا ہے ۔

یاداشت بہتر کرنے کا ایک اور طریقہ فلیش کا رڈ ز بھی ہیں۔ اس طریقے میں کارڈ کے ایک طرف  کسی ٹاپک  کی تفصیل لکھی جاتی  ہے اور دوسری طرف اُس ٹاپک کا نام لکھا ہوتا، اس کارڈ سے  ہمیں اندازہ لگا کر ٹاپک کو پہچاننا ہوتا ہے ۔ یہ بھی اسائنمنٹ کو بہتر طور پر یاد کرنےاور یاداشت کو مضبوط کرنے کا ایک موثرذریعہ ہے ۔

پڑھائی کے دوران کوئی بھی سبق مشکل نہیں ہوتا، اگر آپ اِن طریقوں کو مدِنظر رکھ کر کسی اسائنمٹ کو یاد کرنے کی کوشش کریں گے تو  عین ممکن ہے کہ آپ اپنےآپ کو دوسروں سے بہتر  اور کامیاب محسوس  کریں۔