میں اکثر مختلف فورمز پر یہ کہتا ہوں کہ بعض باتیں سولہ پڑھے ہوئے نوکری پیشہ لوگوں (بالخصوص اساتذہ) کو سکھانا مشکل اور طلبا کو سکھانا آسان ہوتا ہے۔ مثلا اصولوں پر ڈٹنا، انجام کی پرواہ نہ کرنا، طاقتور کے سامنے کلمہ حق کہنا اور نتیجے میں پڑنے والی مشکل پر صبر کرنا، یہ وہ باتیں ہیں جو ہم بچپن سے سنتے ہیں لیکن پتہ نہیں کون ہمارے دماغوں میں یہ بٹھا دیتا ہے کہ یہ باتیں صرف سننے کے لیے ہیں، عمل کے لیے نہیں۔
میں چونکہ خود ڈاکٹر اسرار احمد اور ان کے توسط سے علامہ اقبال سے خاصا متاثر رہا ہوں اسلیے اکثر اپنی باتوں میں ان دونون شخصیات کا تذکرہ کرتا رہتا ہوں اور کئی طلبا میری وجہ سے ان کو فالو کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ باقی رہی سہی کسر سوشل میڈیا پوری کر دیتا ہے کہ آپ نے ایک دفعہ چھوٹی موٹی ویڈیو دیکھ لی تو بار بار گھوم پھر کر انہی کی ویڈیوز بار بار آنے لگتی ہیں۔ میں کچھ عرصے سے نوٹ کر رہا تھا کہ جو طلبا زیادہ عرصے میرے وعظ سنتے ہیں آہستہ آہستہ ان کی سوشل میڈیا پروفائلز پر ڈاکٹر اسرار احمد کے بیان اور علامہ اقبال کے شعر مزین ہونے لگتے ہیں یا پھر ان شخصیات سے متاثر ہونے والی دیگر نوجوان شخصیات جیسے نعمان علی خان وغیرہ بھی نظر آنے لگتے ہیں۔
میں نے نوٹ کیا کہ علامہ اقبال کی گفتار کے غازی کی مزمتیں سن سن کر ان بچوں کو شاہین بننے کا شوق سر چڑھ گیا ہے۔ کچھ دن پہلے ایسے ہی تین نوجوانوں کی ڈیوٹی قذافی سٹیڈیم لاہور میں تھی۔ ابھی تینوں چونکہ طالب علم ہیں اس لیے پہلی دفعہ کوئی اہم ذمہ داری سے واسطہ پڑا تھا۔ ان کو ہدایات تھیں کہ شناختی کارڈ اور ٹکٹ چیک کیے بغیر کوئی اندر نہ جا سکے کیونکہ یہ قوم کی عزت کا مسئلہ بنا ہوا ہے اور کوئی چھوٹا موٹا بھی حادثہ ہو گیا تو شاید پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ دوبارہ کبھی ممکن نہ ہو۔
تینوں لڑکے سٹیڈیم کے الگ الگ دوازوں پر تھے اور ان کے ساتھ پانچ پانچ مزید ٹیم ممبرز اور پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی بھاری نفری تھی۔ پولیس کی ذمہ داری کسی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں معاملہ کو ہینڈل کرنا اور ان کی ذمہ داری اندر آنے والے شائقین کی آن لائن ویریفیکیشن تھی۔
اب جیسا کہ ہمارے یہاں طریقہ ہے کہ لوگ کسی بات کو سیریس نہیں لیتے تو اکثر عوام بغیر شناختی دستاویزات اور ٹکٹس کے لائن میں لگ جاتے تھے اور پھر اندر جانے کے لیے خوب بحث اور منتیں ترلے شروع کر دیتے۔ اسی دوران کئی “خواص” بھی ان سے ٹکرے جنہوں نے بغیر دستاویزات کے اندر جانے کی کوشش کی۔ اگر کوئی با رعب شخص آپ کو آ کر تعارف کروائے کہ میں پورے شہر کی انتظامیہ کا مجاز افسر ہوں، یا یہ کہ “میرے ابا بھئے کوتوال” اور وہ بھی پورے صوبے کے، تو آپ ان کو روکنے کی جسارت کریں گے؟ اگر آنے والے شخص کے اردگرد بیسیوں مسلح اور مستعد باوردی کمانڈو ہوں اور وہ دھکا دے کر آپ کو سائیڈ پر کر دیں تو تب آپ کی کانپیں ٹانگ جائیں گی یا نہیں؟
مزے کی بات یہ ہے کہ باہر سے آئے بڑے سے بڑے ڈپلومیٹ نے بھی اپنے ذاتی گارڈز کو روک کر اپنی مکمل شناختی دستاویزات اور ٹکٹس چیک کروائیں لیکن اپنے ملک کے ہر ایرے غیرے نتھو خیرے نے کبھی بیلٹ اور بھی تعلق کا ڈراوا دے کر دھونس دھکے سے اندر جانے کی کوشش کی۔ یہ بھی بات قابل ذکر ہے کہ جن اداروں میں اصول و ضوابط کا خیال رکھا جاتا ہے، ان کے بڑے سے بڑے افسران کو بھی اصول بتایا جائے تو وہ اپنی غلطی مان کر جیسے تیسے مطلوبہ ڈاکومنٹس مہیا کرتے تھے لیکن جن شعبوں میں دھونس اور غریبوں کی ریڑھیاں الٹانے کا رواج زیادہ ہے، ان کے چھوٹے چھوٹے ملازم بھی فورا دھمکیوں پر اتر آتے تھے، اور ان کے افسران کی گردنوں میں بھی سریا موجود رہتا تھا۔
آفرین ہے ان شاہینوں پر جن کی ٹانگیں پروٹوکول اور جاہ و جلال دیکھ کر کانپ جاتی تھیں لیکن خدا کو حاضر ناظر جان کر انہوں نے اپنے سامنے کھڑے ہر بت کو توڑ کر اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی اور خود کو قابل صد تحسین ثابت کیا۔ ایک لڑکے نے آ کر مجھے یہ بھی کہا کہ جب آپ ہمیں ایم پی اے ایم این اے کے سامنے ڈٹنے کی کہانیاں سناتے تھے تو میں دل میں سوچ رہا ہوتا تھا کہ بھلا ایسا بھی کہاں ممکن ہے، لیکن اب مجھے احساس ہوا ہے کہ واقعی اگر آپ حق بات کر رہے ہوں اور دل میں اللہ کا خوف ہو تو بڑے سے بڑی بلا کا ڈر بھی ختم ہو جاتا ہے۔ کاش ان جیسا جذبہ اور توفیق اللہ ہم میں بھی پیدا کردے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایسی صورت میں نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ اللہ نے اپنے پسندیدہ بندوں کی ایک صفت قرآن میں یہ بھی بیان کی ہے کہ اللہ کی خاطر انہیں نقصان بھی اٹھانا پڑے تو ان کے دل میں ملال نہیں ہوتا۔
صفِ جنگاہ میں مردانِ خدا کی تکبیر
جوشِ کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز