اس وقت مملکتِ پاکستان کا ایک بہت بڑا حصہ سیلاب کی وجہ سے زیرِ آب ہے  اور ہمارے کروڑوں نہیں تو لاکھوں  بہن بھائی بے گھر ہوکر ہماری مدد کے منتظر ہیں۔  یہ بحث کسی اور وقت صحیح کہ یہ عذابِ الہٰی ہے یا ہماری بد انتظامی  کا نتیجہ۔ یہ وقت ہجوم سے قوم بن کر اپنے ہموطنوں کی مدد کو آگے بڑھنے کا ہے۔

عام طور پہ ہمیں اداراجاتی نظم و ضبط سے شائد کوئی خاص چڑ ہے کہ ایک منظم ادارے کے علاوہ جو انگریز ہمیں بنا کے دے گئے تھے اس کے بعد آج تک سے ہم نے  کسی اور ادارے کو غلطی سے بھی منظم ہونے نہیں دیا ہے۔اس قدرتی آفت میں بھی یہی رویہ ہمیں نظر آتا ہے کہ کسی جاننے والے اور قابلِ اعتبار شخص کو چندا دینا ہم بہتر سمجھتے ہیں  بجائے اس کے کہ ہم سرکاری فنڈ میں پیسے دیں۔  اسی تناظر میں آج ایک پوسٹ دو تین اکاؤنٹس پہ نظر آئی کہ سرکاری فنڈ میں سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے پیسے نا دیں یہ پیسے غبن ہو جاتے ہیں۔ بادی النظر بات تو بالکل ٹھیک لگتی ہے ہم سب جانتے ہیں کہ سرکاری مشینری کرپٹ ہے اور ‘ان ایفیشنٹ’ بھی۔ لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ کیا سرکاری فنڈ چاہے وہ وفاقی حکومت کا ہو یا صوبائی حکومتوں کے ان کا بائیکاٹ کرنا درست قدم ہوگا؟ اس کا جواب ہے ہرگز نہیں۔

دردِ دل کے واسطے 1

اگر آپ ہزار روپے کسی جاننے والے کو پکڑا دیتے ہیں اور وہ آگے کسی جاننے والے کو بھیج دیتا ہے تو ایسے شاید وہ سب سے زیادہ حقدار لوگوں تک کبھی نہ پہنچیں کیونکہ وہ ان ہی لوگوں تک پہنچیں گے جن کے جاننے والے پہلے ہی محفوظ شہروں میں ہیں اور ان کی رسائی بھی ہے۔ جن تک ان کی  رسائی نہیں ہے ان تک پہنچنے کا کوئی راستہ  یا امکان نہیں۔  دوسرا یہ کہ اگر درمیان میں کوئی ایک بددیانت شخص آ جائے تو اس کو روکنے کا نہ کوئی قانون ہے نہ کوئی سسٹم نہ کوئی پوچھنے والا۔ زیادہ سے زیادہ آپ زبانی پوچھ سکتے ہیں اور وہ زبانی جواب دے دے گا۔ آپ کے پاس ویریفائی کرنے کا بھی کوئی طریقہ نہیں اور کوئی رسید تک نہیں۔

اہم تو یہ ہے کہ یہ اس بات کا وقت نہیں ہے کہ آپ مدد کی بجائے شش و پنج میں پڑیں، ہر بات کا وقت ہوتا ہے آپ کسی بستر مرگ پہ موجود مریض کو اس کے عزیز دوست کی موت کی خبر نہیں دیتے مبادا وہ ہمت ہی نہ ہار بیٹھے۔  یہ وقت صرف اور صرف لوگوں کی مدد کا ہے وہ آپ جیسے چاہیں جس طرح چاہیں کریں لیکن لوگوں میں شکوک و شبہات مت پھیلائیں یہ بات اس وقت بالکل بھی قابلِ ستائش نہیں ہے کسی بھی لحاظ سے۔

اسی طرح کیا آپ اس بات کی یقین دہانی کروا سکتے ہیں کہ الخدمت چھیپا یا کوئی بھی این جی او (میں ان میں سے کسی پہ کوئی شک نہیں کر رہا ہوں کہ ان کا نیٹ ورک کتنا بڑا یا چھوٹا ہے، چاہے جتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو کیا یہ) سرکاری نیٹ ورک جس میں ہسپتال، ڈسپینسریز، ہلال احمر، لیڈی ہیلتھ ورکرز، پولیس یا افواج پاکستان جیسی رسائی اور موثر نیٹ ورک رکھتے ہیں؟ہرگز نہیں حکومت کے پاس ایک پورا نظام موجود ہے دور دور تک لوگوں تک پہنچنے کے لیے۔ سستا راشن، دوائیں اور ضروری سامان خریدنے اور پہنچانے کے قوانین اور وسائل ہیں۔

دردِ دل کے واسطے 2

وہاں جو لوگ کام کر رہے ہیں ان کے اوپر چیک کرنے کے لیے کئی محکمے ہیں اور سال ہا سال ان کی کار گزاری کی انکوائریاں اور آڈٹ ہوتے ہیں۔ اسلئے بہترین طریقہ یہی ہے کہ حکومت کو دیں۔  عام طور پہ ہوتا یہ ہے کہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پہ جو علاقے ہائی لائیٹ ہو جائیں وہاں لوگوں کی اکثریت امدادی سامان لیکر پہنچ جاتی ہے۔ میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ وہ این جی اوز اور لوگ جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں ہرگز نہیں  در حقیقت چھوٹی موٹی تنظیمیں اور عام لوگوں کی رسائی ملک  کے دور دراز علاقوں  تک نہیں ہوتی جو عمومی طور پہ ایسی آفات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ایسا پچھلی دفعہ بھی سیلاب اور زلزلہ میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کچھ جگہ اتنا امدادی سامان پہنچا کہ لوگ ذخیرہ کرتے رہے، شہروں میں بیچ دیا یا سڑکوں پر پھینک دیا گیا جبکہ دوسری طرف کئی علاقوں تک کچھ بھی نہیں پہنچا کیونکہ وہاں تک رسائی نہیں تھی عام لوگوں اور تنظیموں کی۔اگر پھر بھی آپ کا دل نہ مانے تو کسی بڑی تنظیم جیسے ایدھی، اخوت، سیلانی یا چھیپا وغیرہ کو دیں جن کے پاس ایسا نیٹ ورک موجود ہے کہ سب سے زیادہ ضرورت مند لوگوں کو ڈھونڈ بھی سکتے ہیں اور پہنچ بھی سکتے ہیں۔

دردِ دل کے واسطے 3

اگر میں یا کوئی بھی شخص  آپ کی اس قسم کی پوسٹ سے متاثر ہو کر سرکار کو چندہ نہیں دیتا سیلاب متاثرین کے لیے اور اس کے نتیجے میں کروڑوں متاثرین میں سے صرف ایک شخص کو مدد نہیں مل سکتی تو کیا آپ اس کی زمہ داری لینے کے لیے تیار ہیں؟ یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں ہے کہ اس کو دیں اس کو نا دیں۔ یہ وقت صرف ایک بات کرنے کا ہے کہ جس پہ آپ کو تسلی اور اطمینان ہے اسے دیں اور جتنا ہو سکے دیں۔ہمارے تمام تر اعمال کے نتائج ہوتے ہیں وہ بھی دور رس، سوچئیے کہ آپ کو سوچنے کی دعوت ہے۔

 

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.