امریکہ پہنچنے والے انگریزوں کے سامنے سوال یہ تھا کہ تمباکو اپنی ہی عوام کو بیچا جائے یا نہیں؟ آپ سوچیں گے کہ یہ سولہ سو دس کی بات ہو رہی ہے، جب لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ تمباکو مضر صحت ہے۔ لیکن پندرہ سو نوے سے ہی، جب تمباکو عام استعمال میں بھی نہیں آیا تھا، ڈاکٹرز مقالے لکھ رہے تھے کہ تمباکو پینے والے اکثر بیمار رہتے ہیں اور جلدی مر جاتے ہیں۔ تو جب انیس سو نوے میں ہمارے شاندار، ایماندار، باکمال (امریکی) کانگریس ممبران سات بڑی تمباکو کمپنیوں کے سربراہوں کو بلا کر پوچھ رہے تھے کہ کیا تمباکو صحت کے لیے نقصان دہ ہے؟ اور جواب میں وہ کہہ رہے تھے کہ اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ اور پھر پوچھا گیا کہ کیا نکوٹین سے نشہ ہوتا ہے، تو جواب دیا گیا کہ اتنا ہی جتنا جاگنگ یا مٹھائیوں سے ہوتا ہے۔ تو حیران کن طور پر ہمیں پانچ سو سال سے ان سوالوں کے اصل جواب پتہ تھے۔
سوال تھا کہ یہ انتہائی نشہ آور، مہلک شے اپنے ہی لوگوں میں پھیلانی چاہیے؟ یہ ایک منافع بخش شے ہے جس سے سرمائے کی ریل پیل ہو جائے گی اور ورجینیا جو تباہی کے دہانے پر ہے، بچ جائے گا۔ تو کیا ہمیں دانستہ طور پر اپنے ہی لوگوں کو زہریلے نشے کا عادی بنانا چاہیئے یا کالونی کو ناکام ہونے دینا چاہیئے؟ یوں بالاخر وہ دنیا کی پہلی منشیات فروخت کرنے والی سلطنت بن گئے۔ کچھ عرصے بعد انہیں افیم مل گئی اور ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ انہیں تمباکو سے بھی بہتر چیز مل گئی ہے۔ افیم کی خاطر ہی بعد میں انہوں نے افغانستان پر تین حملے کیے جب وہ دنیا کی طاقتور ترین سلطنت بن چکے تھے۔
اس دور میں اگر کوئی انگریز ہے، خواہ امیر ہے، غریب ہے یا متوسط، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اگر وہ انگریز ہے اور وہ کشتی پر سوار ہو کر ورجینیا پہنچ گیا ہے اور آزاد ہے تو وہاں کی انتظامیہ اس کو چالیس ایکڑ زمین کے کاغذات دے دے گی۔ ان چالیس ایکڑ کی جو خود ان کی ملکیت بھی نہیں۔ وہاں کوئی آبائی امریکی خاندان رہتا ہے اور کاشتکاری کرتا ہے۔ اب اس کے پاس اس زمین کے کاغذات ہیں۔
ہم نے تاریخ پر اتنی (سفید) ملمع کاری کی ہے کہ ہم خود ہی اس حوالے سے ابہام کا شکار ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم ٹھیک طرح سے سوچنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ اس حوالے سے ہمارے قول و سمجھنے میں تضاد بھی ہے لیکن ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے۔
ہمارے (امریکیوں کے) ذہن میں یہ بات راسخ ہے کہ آبائی امریکیوں کو کاشتکاری نہیں آتی تھی، یورپیوں کو آتی تھی۔ پھر یورپی مہاجرین وہاں آئے۔ سکوانٹو (ایک آبائی امریکی) ان کو ملا جس نے دیکھا کہ مہاجر بھوکے مر رہے ہیں۔ تو سکوانٹو نے ان کو پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے تم خوراک اگاتے کیوں نہیں؟ پھر اس نے انہیں سکھایا، جو آپ نے کسی ڈرامائی تشکیل (فلم یا سٹیج) میں دیکھا ہو گا، کہ زمین میں بیجوں کے ساتھ مچھلی کی آنتیں دبا دو، اس سے زمین زرخیز ہو جائے گی اور پودا ٹھیک اگے گا۔ تو اب آپ کے دماغ میں دو مخالف خیالات ہیں۔ اول یہ کہ آبائی امریکیوں کو کاشتکاری نہیں آتی تھی، کیونکہ وہ شاید جاہل تھے۔ دوسرا یہ کہ کسی آبائی امریکی نے مہاجرین کو کاشتکاری سکھائی۔ اور آپ کو کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ دونوں باتیں ایک ہی ساتھ درست کیسے ہو سکتی ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ سکوانٹو نے واقعی احمق یورپی مہاجرین کو خوراک اگانی سکھائی تھی جب وہ بھوک سے مرنے والے تھے۔
تو میں ایک انگریز ہوں اور میں اپنی بندوق کے ساتھ ورجینیا میں پھر رہا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ میری زمین پر ایک خاندان کاشتکاری کر رہا ہے۔ میں ان پر گولی چلاتا ہوں۔ وہ خوفزدہ ہو کر بھاگتے ہیں یا مجھ سے لڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو بھی ہو وہ زمین بہرحال آخر میں میری ہے۔ میں کسی نہ کسی طرح اسے چھین لوں گا۔ وہاں پہلے سے ہی فصل لگی ہوئی ہے۔ پھر کٹائی کا وقت آتا ہے اور مجھے آسانی سے منافع مل جاتا ہے۔ اس کے بعد سے میں اس زمین پر کاشتکاری کروں گا۔ تو اس سب میں سب سے مشکل مرحلہ یہ ہے کہ میں نے سمندر پار کرنا ہے۔ باقی سب کچھ مفت ہے، سوائے گولیوں کے۔ دوسرے الفاظ میں برطانیہ نے جو نوآبادیاتی منصوبہ شروع کیا وہ اصل میں امریکہ میں دولت کی منتقلی کا منصوبہ تھا۔ زمین پر زمین سے زیادہ قیمتی کوئی دولت نہیں ہے۔ نہ بٹ کوئن، نہ پرائز بانڈ، نہ سکے، نہ سونا چاندی۔ سب سے قیمتی شے زمین ہے جس پر آپ خوراک اگا سکتے ہیں، گھر بنا سکتے ہیں، فیکٹری لگا سکتے ہیں، جہاں سے سونا ڈھونڈ سکتے ہیں، کوئلہ ڈھونڈ سکتے ہیں، تیل ڈھونڈ سکتے ہیں۔ زمین، زمین، زمین۔
میرے پاس بالکل دولت نہیں تھی اور اب اچانک میرے پاس دولت ہے وہ بھی صرف اس لیے کہ میں برطانیہ میں پیدا ہوا اور میں نے ایک ظالمانہ قدم اٹھانے کی ہمت کی۔ یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی ترقی ہے۔ لیکن پھر ہم نے اس میں ایک اور اضافہ کر لیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ تمباکو اگانے میں محنت دیگر فصلوں کی نسبت زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ یعنی میں اکیلا تمباکو اگا تو سکتا ہوں لیکن مجھے روز کئی گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ اس دور میں تمباکو کے ایک کلو بیج کی قیمت ایک کلو سونے سے زیادہ تھی۔ تو اس محنت کا فائدہ بھی ہے۔ لیکن اگر میں کھیت میں اکیلا کام کر رہا ہوں تو منافع جلدی نہیں ملے گا۔
جوں ہی میرے پاس کچھ رقم آئی تو میں خرید کر دلہن لاؤں گا جو میرے ساتھ کام میں مدد کرے گی، اور اسی سے میرے بچے پیدا ہوں گے جو آٹھ دس سال بعد میری مدد کر سکیں گے۔ اور پھر میں کچھ عرصے بعد کوئی خچر یا گھوڑا خریدوں گا۔ اور پھر جب میرے مزید پیسے ہوئے تو میں قرض دے کر (جبری مشقت والا) مزدور پھنساؤں گا جو تین، پانچ، یا سات سال میرے ساتھ کام کرنے پر مجبور ہو گا۔ لیکن اس کے اور میرے مفادات میں ٹکراؤ ہو گا۔ تین، پانچ یا سات سال بعد اس کو آزادی مل جائے گی اور مجھے انہیں کوئی انعام دے کر رخصت کرنا پڑے گا۔ ان کی کوشش ہو گی کہ اس دوران کم سے کم محنت کریں، لیکن میں ان میں سے محنت کا عرق نچوڑنا چاہوں گا۔ تو ایسے میں کبھی نہ کبھی میں ان پر سختی کروں گا اور وہ بھاگ جائیں گے۔ لیکن جتنے عرصے میں ہم اس طرح کا نظام بنانے میں کامیاب ہو گئے، تو کیوں نہ ہم غلام ہی لے آئیں جو بس تھوڑا ہی مشکل ہے۔ کچھ ہی عرصے میں ہم جہاز بھر بھر کر غلام لانے لگے۔
میں نے آبائی امریکیوں سے زمین بزور طاقت چھینی، تو اس دوران دولت ایک ہاتھ سے دوسرے میں منتقل ہوئی۔ میں کوئی غلام یا قرض لے کر کام کرنے والا ملازم لے آیا۔ تو جتنا وقت وہ میرے لیے کام کر رہے ہیں، مجھے ان کو کچھ نہیں دینا۔ دوسرے لفظوں میں ان کی زندگی کے دن، مہینے اور سال میں چرا رہا ہوں۔ جو کام وہ کر رہے ہیں اس کا فائدہ مجھے ہو رہا ہے۔ وہ تمباکو تیار کر رہے ہیں، اور میں نے ان کو صرف بچا کھچا کھانا اور چیتھڑے دینے ہیں اور رہنے کو چھت۔ تو یہ بھی دولت کی منتقلی والا معاملہ ہے۔ تیسری صورت یہ کہ تمباکو جو میں اپنے صارفین کو دے رہا ہوں، اس سے انہیں کوئی حقیقی فائدہ نہیں مل رہا۔ تھوڑا بہت وقتی مزا ضرور ہے لیکن درحقیقت وہ صارف اس کی وجہ سے آہستہ آہستہ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ یعنی میں ان کی زندگی چھین کر اپنی جیب بھر رہا ہوں۔
میں نے زمین حاصل کرنے کے لیے کسی کو مارا۔ میں نے اپنے لیے کام کرنے والے ملازم یا غلام کو آہستہ آہستہ قتل کیا۔ اور میں اپنے صارفین کو بھی آہستہ آہستہ مار کر انکی زندگی کی طاقت چرا رہا ہوں۔ اور یہ سب کچھ صرف اس لیے کہ خود امیر ہو سکوں۔
میں امریکہ سے باہر اپنے ایک دوست سے بات کر رہا تھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ امریکی کمپنیوں کے ساتھ تجارت کرنا کیسا ہوتا ہے؟ اس نے بتایا کہ جب ہم (غیر امریکی) بزنس کرتے ہیں تو ہماری نظر میں یہ ایک دفعہ کا سودا نہیں ہوتا۔ ہمارے خیال میں یہ ایک تعلق کی شروعات ہوتی ہے۔ ہمارا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ایک معاہدہ کر کے کوئی چیز خریدی یا بیچی جائے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ایک طویل مدتی تعلق بنایا جائے تاکہ مستقبل میں بھی میل ملاقات چلتا رہے۔ ہمارا اصل مطمع نظر وہ معاہدہ (اور اس سے ہونے والا منافع) نہیں بلکہ تعلق ہوتا ہے۔ لیکن امریکی کاروباری افراد کے لیے وہ معاہدہ (اور منافع) زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ وہ اس کی ہر ہر تفصیل کی وضاحت ایسے چاہتے ہیں جیسے دنیا اس پر ختم ہو جائے گی۔ تو ہم ان کے ہر مطالبے کو پورا کرتے جاتے ہیں کہ ٹھیک ہے ہم یہ بھی کر دیں گے اور وہ بھی کر دیں گے۔ کیوں نہیں؟ ہم انہیں ہر طرح کی رعایتیں دیتے جاتے ہیں کیونکہ ہمارے ذہن میں ہے کہ یہ ایک لمبے تعلق کو بنانے میں پہلا قدم ہے۔ ہمارا خیال ہوتا ہے کہ اگلے سال شاید وہ اتنی سختی سے پیش نہیں آئیں گے اور شاید تب ہمیں بھی منافع بنانے کا موقع مل جائے۔ تو اس کے لیے ہم نقصان بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ لیکن اگلے سال وہ واپس نہیں آتے۔ وہ معاہدہ کر کے فائدہ لے کر غائب ہو جاتے ہیں۔ ہم نے امریکیوں کے ساتھ کام سے یہ سیکھا ہے کہ ہر چیز کو نفع نقصان میں تولا جائے اور اس معاملے میں انسانیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہمیں پتہ ہے ہے کہ وہ آ کر انتہائی غیر حقیقی اور احمقانہ مطالبے کریں گے اور پھر دوبارہ شکل نہیں دکھائیں گے۔ تو جب ہم یہ سیکھ گئے تو اب ہم بھی اسی طرح سختی سے پیش آتے ہیں اور اپنے منافع کو مدنظر رکھتے ہیں اور معاہدے کی خاطر کوئی رعایت نہیں دیتے۔
میرے دوست نے بتایا کہ یہ طریقہ دنیا میں کہیں اور نہیں چلتا۔ نہ یورپ، نہ جاپان نہ کوئی اور جگہ۔ جاپان والے تو یورپیوں سے بھی زیادہ آپ کے ساتھ طویل مدتی تعلق بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے خاندان کو اپنے گھر دعوت پر بلائیں اور اپنے ہاتھ سے پکا کھانا کھلائیں اور اگلے سال جب وہ دوبارہ آئیں تو آپ کو ان کے بچوں کے نام پتہ ہونے چاہیئیں ورنہ وہ ناراض ہو جائیں گے۔ اس لیے ہمیں جاپان کے ساتھ تجارت کرنا پسند ہے کہ وہ ہم جیسے (انسان) ہیں۔ ہم بالکل ایک جیسے نہ بھی ہوں تو ملتے جلتے ہیں، ہم تجارت بھی رشتہ داری کی طرح نبھانا چاہتے ہیں۔ ہم ایک ایسے تعلق کی شروعات کرتے ہیں جو شاید کئی دہائیوں تک چلے۔ یورپ، افریقہ، ایشیا، ہر جگہ کاروبار اسی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن امریکہ میں نہیں۔
امریکہ میں صورتحال مختلف کیوں ہے اس کی وجہ میں نے پہلے بیان کی۔ جس دن سے ہم نے اس سرزمین پر قدم رکھا، ہر چیز کو بے رحم حساب کتاب کی نذر کر دیا گیا جس میں ہم سامنے والے کو انسان نہیں سمجھتے۔ ذرا سوچیں کہ کسی خاندان کو اپنے آبائی کھیت میں بے دردی سے قتل کر دینا، کسی کو اپنے گھر سے اغوا کر کے پا با سلاسل ڈبوں میں بند کر کے سمند پار لے آنا جبکہ ان میں سے اکثریت سفر کے دوران ہی ماری جائے گی، اور ان کو ایک ایسے بندھن میں جکڑ دینا جہاں اس کے پاس اپنی زندگی بہتر بنانے کا کوئی موقع نہ رہے، انکو محنت پر مجبور کرنا تاکہ اس کا پھل آپ کھا سکیں، اور پھر اوپر سے تمباکو اور کپاس جیسی فصلیں اگانا جو نہ صرف زیادہ محنت مانگتی ہیں بلکہ زمین کی زرخیزی کو بھی تباہ کر دیتی ہیں۔
کسی سیاہ فام امریکی نے دیکھا کہ کھیت میں مونگ پھلیاں پھینکنے سے زمین میں نائٹروجن کی مقدار بہتر ہو جاتی ہے اور زمین دوبارہ قابل کاشت ہو جاتی ہے۔ تو انہوں نے مونگ پھلیاں اگانی شروع کر دیں۔ لیکن اتنی مونگ پھلی کا پھر ہم کریں گے کیا؟ تو کسی نے پی نٹ بٹر ایجاد کر لیا۔ لہذا اب سب امریکی مونگ پھلیاں اور پی نٹ بٹر کھاتے ہیں۔ اور کھیت میں مونگ پھلی کے بعد تمباکو، یا مونگ پھلی کے بعد کپاس اگاتے ہیں تاکہ مونگ پھلی زمین کو دوبارہ زرخیز کر سکے۔
لیکن مونگ پھلی اگانا پرانا حل تھا۔ اب تو ہم کسی فیکٹری میں کھاد تیار کر سکتے ہیں، خواہ اس عمل کے دوران ڈھیروں گرین ہاؤس گیسز پیدا ہوں، اور کھاد خود زمین کے لیے زہریلی ہو اور میٹھے پانی کے ذخائر کو تباہ کر دے۔ کسے پرواہ ہے؟ ہم تباہی کے دہانے پر ہیں لیکن وہی فصلیں اگاتے جا رہے ہیں۔ لیکن پہلے لوگوں کے پاس تو یہ ٹیکنالوجی موجود نہیں تھی تو مزید علاقوں پر قبضہ کرنا ان کی مجبوری تھی۔ تمباکو اور کپاس پر انحصار اور زمین کی تباہی کی وجہ سے یہ طے ہو گیا تھا کہ یہ لوگ مزید زمین کے لیے جنگیں لڑیں گے۔
(جاری ہے)
یہ رائے کاساگرانڈا کے موجودہ سیاسی و معاشی نظام کے موضوع پر ایک لیکچر کا ترجمہ ہے۔ مکمل لیکچر یہاں دیکھ سکتے ہیں
The long awaited Part 1 of this critical series is finally here.
The long awaited Part 1 of this critical series is finally here.
The long awaited Part 1 of this critical series is finally here.
The long awaited Part 1 of this critical series is finally here.