مولانا محمد علی جوہر،حسرت موہانی اور مولانا ظفرعلی خان برعظیم پاک وہند کے ایسے بے باک اورنڈرکردارہیں کہ جو بدترین سزاؤں اور پابندیوں کے باوجودکبھی بھی کلمہ حق کہنے سے باز نہیں آئے۔صوبہ پنجاب کویہ اعزازحاصل ہے کہ مولانا ظفرعلی خان نے یہاں مزاحمتی صحافت کی بنیادرکھی۔ان کا خاندان تقریباً چار سو سال پہلے جہلم کے کنارے آباد تھا۔اس کا تعلق راجپوتوں کی گوت جنجوعہ سے تھا۔آباؤاجداد ہندوتھے مگربعدازاں یہ خاندان مشرف بہ اسلام ہوگیا۔مولانا کے پرداداکچھ خاندانی تنازعات کے باعث اپنی آبائی ریاست سے ہجرت کرگئے اور دریائے چناب کے کنارے ایک مقام نصیرآباد کے نام سے آبادکیا۔اس خاندان میں محمد حسن خاں (ظفر علی خاں کے پردادا) دارا پور، جہلم میں مقیم تھے۔ پنجاب میں محمد حسن خاں کے والد (احمد خاں) خاندان کے دیگر افراد کے ہندوئوں کے ہاتھوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ محمد حسن کی والدہ اپنے یتیم بیٹے کولےکر ضلع گوجرانوالہ میں آ گئیں، بعدمیں یہ خاندان کوٹ مہرتھ تحصیل وزیر آباد میں آبادہو گیا۔ محمد حسن مرحوم کے تین بیٹے ہوئے۔ جن میں ایک مولوی کرم الٰہی (مولانا ظفر علی خاں کے دادا) تھے۔

مولانا ظفرعلی خان کے والد مولوی سراج علی بہترین اتالیق اور محکمہ ڈاک میں ملازم تھے،ان کی بہترین کارکردگی کے باعث حکومت کشمیر نے ان کی خدمات مستعار لے لیں۔مولوی صاحب نے یہاں بھی مثالی خدمات سرانجام دیں۔یہاں رہ کر انہیں کشمیری مسلمانوں کے فلاح و بہبود اور خدمات کے زیادہ مواقع ملے۔ انہوں نے وہاں غلام محی الدین رکن کونسل کشمیر کے ذریعے بیگا رکی قدیم رسم کو ختم کرانے کی بارآورکوشش بھی کی تھی۔مولوی سراج الدین صاحب نے کرم آباد سے ایک ہفت روزی جاری کیا،جسے 1909 میں ان کی وفات کے بعد مولانا ظفرعلی خان نے سنبھال لیا،اسے لاہورمنتقل کیا اوران کی زیر صدارت یہ ہفت نامہ اکتوبر 1912 میں روزنامہ بن گیا۔زمیندارکا ابتدائ مقصدتوکسانوں،کاشتکاروں اورزمینداروں کی ترجمانی تھا مگر غیر یقینی،ہنگامی حالات(خصوصاً عالم اسلام کا مصائب میں گھرجانا،اٹلی کا طرابلس پر حملہ اورسلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے آثار) نے اسے روزنامہ بنادیا۔

 

مولانا نے صحافیانہ زندگی کاآغاز نہایت ناسازگاراورصبرآزما حالات میں کیا۔ اس دورمیں لاہور اشاعت کا مرکز تھا اوروہاں سے شائع ہونے والے تینوں بڑے اخبار پرتاب، محراب اور وی بھارت ہندو مالکان کے پاس تھے۔ اسی دور میں مولانا اور زمیندار نے تحریک پاکستان کے لیے بے لوث خدمات انجام دیں۔ کامریڈ (مولانا محمد علی جوہر کا اخبار ) اور زمیندار دو ایسے اخبار تھے جن کی اہمیت تحریک پاکستان میں مسلم ہے اور دونوں کے کردار کو بیک وقت تسلیم کیا جانا چاہیے۔ انگریزسرکارنے 1914 میں زمیندارکو بند اور مولانا کو 1918 تک کرم آباد میں نظر بند رکھا۔مگر مولانا نے ہمت نہ ہاری اورنظربندی کے ایام میں ہفت روزہ ستارۂ صبح جاری کیا۔1918 میں اس ہفت روزہ کو کرم آباد سے لاہور منتقل کرکے اسے روزنامہ بنادیا گیا۔یہ وقت ہندوستان میں سیاسی بیداری کا وقت تھا،پہلی جنگ عظیم چڑھ چکی تھی اور تحریک خلافت اورتحریک عدم تعاون اپنے زوروں پر تھیں۔

انگریزحکومت نے مولانا پرزبان بندی کی پابندی عائد کر رکھی تھی۔دسمبر 1929 میں شاہ برطانیہ کے حکم سے ہندوستان کے تمام نظر بند سیاسی قیدی رہاکردیے گئے۔جس کے نتیجے میں مولانا کوبھی رہا کردیاگیا۔رہائ کے بعد مولانا نے زمیندار دوبارہ شروع کیا۔

حضرو(اٹک) میں عوامی سیاسی شعور بیدار کرنے کی پاداش میں مولانا کو پانچ سال، دوسال قید بامشقت اور ایک ہزارجرمانے کی سزائیں دی گئیں۔مولانا کو سزاہونے کے بعد زمیندار کی صدارت ان کے بیٹے اختر علی نے سنبھال لی،مگرانہیں بھی چند روز بعد جیل میں بھیج دیا گیا۔اس وقت یکے بعد دیگرے زمیندار کے چوبیس مدیر قید کیے گئے۔

1934ء میں جب پنجاب حکومت نے اخبار پر پابندی عائد کی تو مولانا ظفر علی خان جو اپنی جرات اور شاندار عزم کے مالک تھے انہوں نے حکومت پر مقدمہ کر دیا اور عدلیہ کے ذریعے حکومت کو اپنے احکامات واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ اگلے دن انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ایک طویل نظم لکھی جس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں۔۔۔

یہ کل عرش اعظم سے تار آگیا
زمیندار ہوگا نہ تا حشر بند
تری قدرت کاملہ کا یقین
مجھے میرے پروردگار آگیا

مولانا کو ’اردو صحافت کا امام‘ کہا جاتا ہے اور زمیندار ایک موقع پر پنجاب کا سب سے اہم اخبار بن گیا تھا۔ زمیندار ایک اردو اخبار تھا جو بطور خاص مسلمانوں کے لیے نکالا گیا تھا۔ اس اخبار نے مسلمانوں کی سیاسی بیداری وشعور کو پختہ کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا باوجود اس کے کہ اس کی اشاعت محدود تھی اور مسلمانوں کے پاس مالی وسائل کی شدید قلت تھی جس کی وجہ سے اشتہارات کی تعداد اتنی کم تھی کہ اخبار کو چلانا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ کئ کئ ماہ عملے کو تنخواہ نہ اداہوتی۔مگرمولانا نے ہمت نہیں ہاری۔بقول فیض۔۔۔

متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب پاکستان کا واحد صوبہ تھا جس نے اردو کو اپنی زبان کے طور پر اپنایا اور اسے کام کی زبان بنایا باوجود اس کے کہ پنجابی اس صوبے کی مادری زبان ہے اور سب سے زیادہ بولی جاتی ہے۔ پنجابی کا اصل رسم الخط گورمکھی کو مسلمانوں نے اس لیے نہیں اپنایا کہ یہ سکھ مذہب سے جڑا ہوا تھا۔ اس طرح اردو انگریزی کے ساتھ پنجاب کی اہم لکھی جانے والی زبان بن گئی اور دونوں تقریبا ایک جتنی مقدار میں سرکاری اور تعلیمی زبان کے طور پر استعمال ہوتی رہیں۔ پنجاب کے دانشوروں ، لکھاریوں ، شاعروں اور صحافیوں نے، جن میں سر فہرست علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خان تھے ، اردو کی زلف گرہ گیر کو محبت اور توجہ سے اس طرح سنوارا کہ وہ صوبے کی لاڈلی زبان بن گئی ۔ دلی اور لکھنو کے بعد پنجاب نے اردو کی ترقی و ترویج میں انتہائی اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔

مولانا عظیم صحافی ہونے کے ساتھ،ساتھ بلا کے طباع اورقادرالکلام شاعرتھے۔اردو نعت گوئی میں ان کا نا م صف اول کے شعراء میں کیا جاتاہے۔انتہائ پرجوش اندازبیاں،زبان ومحاورے کی دسترس،اورنئے نئے قوافی باندھنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ہنگامی،قومی،حریت پسندی اورفطری موضوعات پر معرکتہ الاراء نظمیں تخلیق کیں۔نظم “فانوس ہندکاشعلہ”سانحہ جلیانوالہ باغ،نظم “خروش مسلم”سلطنت عثمانیہ کی تباہی،نظم”دعوت عمل”مسلمانوں میں حرکت وعمل کی تحریک پیدا کرنے کے لیے تحریرکی گئیں۔27 نومبر 1956 کو اپنے آبائی شہرکرم آباد یہ شمس صحافت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا مگر اپنی روشنی سے برصغیر کے طول وعرض میں دائمی سویرا کرگیا۔اس قحط الرجال کے دور میں ایسے کسی جوہرقابل موجود ہونا ،کمیاب نہیں نایاب ہی سمجھا جائے۔بقول ناصرکاظمی۔۔۔

یہ آپ ہم توبوجھ ہیں زمین کا،
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے