آزادی کے لیے طویل سفر کتاب کا مختصر جائزہ و تعارف – محمد شاہد حسین
کراچی میں قیام کے دوران (دسمبر 2017) میں لائبریری جانا ہوا تو وہاں ٹیبل پر پڑی کتاب پر نظر پڑی، اٹھایا تو سرورق پر لکھا تھا
Long walk to freedom by Nelson Mandela
سوچا کتنی اچھی کتاب ہوگی کیونکہ مجھے سوانح حیات پڑھنے سے ہمیشہ سے دلچسپی رہے ہے۔ میری پسندیدہ ترین دو کتب بھی سوانح حیات پر مبنی تھی۔ بہر حال بوجھل دل کے ساتھ اس کتاب کو بار بار دیکھ کر وہیں رکھ دیا، یہ سوچ کر کہ وقت ملا تو پڑھوں گا۔ سال 2021 آگیا، اور مجھے یہ کتاب بھی مل گئی، تو چلیے اس کتاب کے کچھ بنیادی نقات سے آپکو آگاہ کرتے ہیں۔ کتاب کے آخر میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں کہ خود پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے اور آنسو چھلک پڑتے ہیں۔
لانگ واک ٹو فریڈم (آزادی کا طویل سفر) جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی سوانح عمری ہے جو بیسویں صدی کے بااثر ترین افراد میں سے ایک ہیں۔ 1994 میں شائع ہونے والی لانگ واک ٹو فریڈم منڈیلا کی زندگی کے ابتدائی سالوں سے لے کر ستائیس سال تک رابن جزیرے میں دوران جیل کی قید میں گزارنے کے تجربات کو ٹریک کرتی ہے۔ نیلسن منڈیلا کی یہ جنگ و جدوجہد نسلی امتیاز برتنے والی حکومت کے خلاف تھی۔ کتاب کے آخری ابواب میں جیل سے رہائی کے بعد منڈیلا کے سیاسی عروج کا احاطہ کیا گیا ہے، اور یہ کہ کس طرح انہوں نے ملک کے منقسم معاشرے میں نسلی امتیاز کا خاتمہ کیا۔ لیکن وہ خود کتاب کے آخر میں کہتے ہیں کہ انکی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی، اور ابھی بھی دنیا بھر میں سیاہ فام آبادی کو نسلی امتیاز کا سامنا ہے۔
نیلسن منڈیلا نے غریب گھرانے میں آنکھ کھولی، پیدائش کے بعد سے والد کو ملازمت سے نکالے جانے کے بعد دربدر کی ٹھوکریں کھائیں، سات سال کی عمر میں سکول گئے، نو سال میں والد کے سایہ سے محروم ہوگئے۔ سکول کے دور سے ہی طبیعت بے چین تھی، مزاحمت کرنے پر بے دخل کیے گئے، قانون کے امتحان میں بار بار ناکام ہویے اور بالآخر ایل ایل بی کے بغیر ہی وکالت کی پریکٹس شروع کردی۔ پہلے سیاہ فام وکیل ہونے کا اعزاز ملا۔ وہ کارل مارکس، فریڈرک اینگل، ماؤزے تنگ اور لینن اور گاندھی کے نظریات سے متاثر تھے اور سوشلسٹ نظام کے حامی تھے جس میں کسی بھی طریقے سے سیاہ اور سفید رنگت میں کوئی تفریق نہ برتی جائے۔ 1948 کے قریب افریقی نیشنل کانگرس میں شمولیت اختیار کی اور کمیونسٹ پارٹی سے بھی روابط جوڑے۔ پولیس کےظالمانہ رویے اور حکومتی چالبازی کے آگے نیلسن منڈیلا نے بھی اسلحے کے زور پر لڑنے کی ٹھان لی۔ دسمبر 1956 میں، منڈیلا کو 141 دیگر افراد کے ساتھ سنگین غداری کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان پر اور ان کے ساتھیوں پر الزام تھا کہ انہوں نے تشدد کا ارتکاب کرنے اور حکومت کا تختہ الٹنے اور اس کی جگہ کمیونسٹ ریاست بنانے کی سازش کی ہے۔ اس گرفتاری کی وجہ سے منڈیلا کا قانونی دفاع واپس لے لیا گیا، اور انہیں خود اپنا دفاع کرنا پڑا۔ منڈیلا کو بالآخر ایک سال بعد قصوروار نہیں پایا گیا۔
گاندھی کے ستیا گراہہ پرچار کے برخلاف انہوں نے 1961 میں حکومتی اہداف پر بمباری شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ بالآخر نیلسن منڈیلا کو گرفتا کیا گیا اور 1964 میں انکے خلاف الزامات ثابت ہونے پر عمر قید سنائی گئی۔ بین الاقوامی دباؤ پر حکومت کو پھانسی کی سزا ٹالنی پڑی۔
نیلسن منڈیلا کو رابن جزیرے پر قید کیا گیا۔ یہاں قید کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ کس طرح انہیں اپنے دن کا بیشتر حصہ پتھروں کو کچلنے میں گزارنا پڑتا تھا، جو کہ انتہائی تھکا دینے والا تھا۔ نسلی محاذوں پر ان کے ساتھ اکثر امتیازی سلوک کیا جاتا تھا، جیل کے محافظ ان کو اور دوسرے سیاہ فام افریقیوں کو کم کھانا، خراب کھانا دیتے اور زیادہ کام پر لگاتے۔ جیل میں سیاہ فام افریقیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا ایک اور طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے قیام کے دوران شارٹس پہننے پر مجبور تھے۔ دوسروں کو مکمل لمبائی کی پتلون پہننے کی اجازت تھی اگر وہ چاہیں۔ یہ آپشن منڈیلا کو پیش نہیں کیا گیا۔ منڈیلا نے روبن آئی لینڈ جیل میں اپنا وقت دوسروں کو تعلیم دینے کے موقع کے طور پر استعمال کیا۔ انہوں نے جیل کے اندر ایک خود ساختہ یونیورسٹی قائم کی جس کا ایک نصاب اے این سی (افریقین نیشنل کانگرس) کے سینئر قیدیوں کے زیر اہتمام تھا۔ اس تعلیم میں قیدیوں کو اے این سی کے بارے میں جاننے میں مدد شامل تھی۔ نیلسن منڈیلا اپنی کچھ یادداشتیں بھی لکھتے ہیں، جو انہوں نے جیل سے باہر اسمگل کی۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان یادداشتوں کے بہت سے حصے اس سوانح عمری پر مشتمل ہیں۔
جنوبی افریقہ کے نئے صدر ڈی کلرک نسلی تفریق کے قانون کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے صدر بننے کے فورا بعد نیلسن منڈیلا سے ملاقات کی اور اس طرح ستائیس سال قید کے بعد بالآخر گیارہ فروری 1990 کو نیلسن منڈیلا رہا ہو گئے۔ افریقیوں کے حقوق کے لئے انہوں نے انتخابی مہم شروع کی۔ جس کا نتیجہ بالآخر افریقن نیشنل کانگریس کی جیت کی صورت میں نکلا اور بالآخر وہ جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر بنے۔
نیلسن منڈیلا کی ازدواجی زندگی سے جڑی مشکلات کا بھی ذکر ہے اور کس طرح انہوں نے قید کی سزا ہمت و استقامت سے کاٹی، جیل میں اذیت جھیلی، حکام کی مختلف پیشکشیں ٹھکرائیں۔ ان کو آفر بھی کی گئی کہ آپ مزاحمت چھوڑ دیں اور آزادی لے لیں، مگر نیلسن منڈیلا نے اپنے ساتھیوں اور قوم کے ساتھ سودا نہیں کیا۔
رنگ برداری مخالف نظریات کے خلاف جدوجہد پر ستائیس سال جیل میں گزارنے کے بعد نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے صدر بن گئے۔ وہ ملک کے پہلے سیاہ فام سربراہ مملکت بنے اور انہوں نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کرنے پر امن کا نوبل انعام جیتا۔ انہیں بیسویں صدی کے سب سے زیادہ بااثر لوگوں میں سے ایک اور جمہوریت اور سماجی انصاف کی علامت کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ نیلسن منڈیلا کو اڑھائی سو سے زیادہ اعزازات ملے ہیں۔ آج جنوبی افریقہ میں ان کا بہت احترام کیا جاتا ہے اور “بابائے قوم” کہا جاتا ہے۔
یہ کتاب 1994 میں شائع ہوئی، آج جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی وہی قدر و منزلت ہے جو پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح بابائے قوم کی ہے. یہ کتاب سنجیدہ قارئین جو اپنی زندگی میں جدوجہد کرنا چاہتے ہوں، کو بے حد پسند آئے گی۔