گزشتہ سے پیوستہ

رومی عدالت کی جانب سے انتباہ کے بعد دس سال گیلیلیو نے خاموشی سے گزارے۔ لیکن پھر اس کا ایک جاننے والا اور ہمدرد پوپ منتخب ہو گیا۔ پوپ اربن ہشتم کی اجازت اور مشورے پر اس نے ایک کتاب “کائنات کے حوالے سے دو مختلف نظاموں کا تقابلی جائزہ” کے نام سے شائع کی۔ تاہم اربن کی خواہش کے برعکس یہ کتاب واضح طور پر کوپرنیکس کے حق میں دلائل کا مجموعہ تھی۔ اس کتاب میں گیلیلیو نے دو کردار دکھائے جو آپس میں زمینی اور شمسی مرکزیت پر دلائل دے رہے ہیں۔ یہ محض اتفاق تھا یا گیلیلیو کی شرارت، لیکن زمینی مرکزیت پر دلائل دینے والا کردار بہت حد تک پوپ اربن ہشتم سے مشابہت رکھتا تھا اور انتہائی بے وقوف اور کم عقل ظاہر کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ پوپ اربن کے کہے ہوئے جملے بھی کتاب میں اس احمق کردار سے کہلوائے گئے گرچہ بعض تاریخ دان اصرار کرتے ہیں کہ ایسا بری نیت سے نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم کلیسا اس توہین اور مخالف پروپیگینڈا کا سنجیدہ نوٹس لیے بغیر نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ حالات سنگین موڑ لے چکے تھے۔ گیلیلیو اپنے سب سے اہم حمایتی (پوپ) کو کھو چکا تھا۔

ستمبر سولہ سو بتیس میں ایک دفعہ پھر اس کو روم میں محکمہ تفتیش کے افسران کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ شروع میں گیلیلیو نے الزام ماننے سے انکار کر دیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ وعدہ کے مطابق سولہ سو سولہ کہ بعد سے اس نے ان غلط عقائد کا پرچار نہیں کیا۔ لیکن بالآخر اس کو یہ تسلیم کرنا ہی پڑا کہ اس کی کتاب کو پڑھ کر پڑھنے والے کا رجحان کوپرنیکس کی تھیوری کی طرف زیادہ ہو جاتا ہے۔ عدالت نے فیصلہ سنایا جس کے تین نکات تھے۔

1۔ گیلیلیو پر “بدعت” کا شبہ ہے (گرچہ اس پر بدعت کا کیس نہیں بنایا گیا ورنہ اس کو سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا)۔ شرط یہ تھی کہ وہ ایسے تمام عقائد سے دستبردار ہو، تردید کرے اور اعلانیہ غلطی تسلیم کرے۔
2۔ اس کو قید خانے میں ڈالنے کی سزا دی گئی لیکن اگلے ہی دن اس سزا کو اپنے گھر پر نظر بندی میں بدل دیا گیا، جہاں اس نے اپنی باقی زندگی گزاری۔
3۔ اس کی کتاب ڈائیلاگ اور مستقبل میں لکھی جانے والی تمام کتابوں کی طباعت پر پابندی عائد کر دی گئی۔

مشہور زمانہ بات ہے کہ عدالت کا فیصلہ سننے، اپنے کام کی نفی اور الفاظ واپس لینے کے بعد گیلیلیو نے یہ باغیانہ جملہ بڑبڑایا تھا “پھر بھی زمین گھومتی ہے“۔ تاہم ان الفاظ کا تحریری ثبوت گیلیلیو کے سو سال بعد ملتا ہے۔ واقعی اس نے ایسا کہا تھا یا نہیں یہ ثابت کرنا مشکل ہے البتہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ الفاظ اس کی زندگی میں بھی اس سے منسوب کیے جاتے رہے ہوں گے۔ چرچ کے ایک اعلی عہدیدار سے ملاقات کے بعد اس کو گھر کے بجائے آرچتری میں اپنے ایک بنگلے میں نظر بند کر دیا گیا جہاں وہ کچھ عرصہ قید رہا۔ اس کو روزانہ اپنے گناہوں کی مغفرت کی دعا کرنے کی ذمہ داری دی گئی جو بعد میں اس کی بیٹی نے اپنے سر لے لی۔

قید میں گیلیلیو نے کائنی میٹکس اور اشیا کی مضبوطی پر دو شاہکار کتابیں لکھیں جن پر ریسرچ اس نے چالیس سال پہلے کی تھی۔ اس کام کی بنیاد پر آئن سٹائن نے گیلیلیو کو طبیعات کا موجد قرار دیا۔ اندھے پن اور دیگر کچھ طبی شکایات کی وجہ سے اس کو طبی مشورے کے لئے فلورینس جانے کی اجازت دے دی گئی۔ کچھ تاریخ دان کہتے ہیں کہ پوپ اربن ہشتم پر گیلیلیو کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے اس کے مخالفین کی طرف سے دباؤ تھا جس کی وجہ سے اس کو سخت روش اپنانی پڑی۔ بالاخر سولہ سو بیالیس عیسوی میں ستتر سال کی عمر میں اس کا انتقال ہو گیا۔

galileo-galilei
گرچہ اس کو اپنی زندگی کے آخری ایام مشکل میں گزارنے پڑے، لیکن آج دنیا گیلیلیو کو ہیرو مانتی ہے

1718 سے بتدریج اس کی کتابیں ممنوعہ کتب کی لسٹ سے خارج ہوتی گئیں اور 1835  میں بالاخر چرچ نے شمسی مرکزیت کو درست تسلیم کر لیا۔ اس کا قصہ پرانا ہو کر بھلایا جا چکا تھا جب اٹھارہویں صدی میں پروٹیسٹینٹس نے اس واقعے اور ایسے دوسرے واقعات کو کلیسا کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا۔ بیسویں صدی کے دوران کلیسا کا رویہ اس کیس کے حوالے سے بتدریج تبدیل ہوتا گیا یہاں تک کہ انیس سو بانوے میں پوپ جان پال دوم نے گیلیلیو کے خلاف کیس کے طریقہ کار پر افسوس کا اظہار کیا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ مقدمہ دونوں جانب سے غلط فہمیوں پر مبنی تھا۔

اوپر لکھے ہوئے واقعات نیچے دیے گئے حوالہ جات سے من و عن نقل کیے گئے ہیں اور ان میں کوشش کی گئی ہے کہ ذاتی رائے کو شامل نہ کیا جائے تاکہ پڑھنے والے اپنے طور پر اصل حالات کا جائزہ لے سکیں۔ فلسفی، سائنس دان اور دنیا کے نظام میں بہتری کی خواہش رکھنے والے بہت سے لوگ اس بات پر خاطر خواہ بحث کرتے آئے ہیں کہ آیا کوپرنیکس کی کتابوں پر پابندی لگانے اور گیلیلیو کو قید کرنے کا چرچ کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی تھا یا نہیں۔ عین ممکن ہے کہ پوپ اربن کی ابتدائی مشکلات، کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ ریاستوں کے مابین جاری تیس سالہ خونیں جنگ اور دیگر بہت سے عوامل اس سزا کا موجب بنے ہوں۔ گیلیلیو پر عین اس وقت بائبل کی تشریح کرنے کا مقدمہ چلا جب کئی یورپی ملکوں میں بیس فیصد تک عوام فرقہ وارانہ جنگ کی بھینٹ چڑھ رہی تھی۔ ایسے میں سب کا پارہ یقینا بہت اونچا چڑھا ہوا ہو گا۔

پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس وقت تک ارسطو کے نظریے کے بارے میں بھی اتنے ہی (یا شاید زیادہ) ریاضیاتی دلائل موجود تھے جتنے کوپرنیکس کے۔ یہاں یہ سوال بھی کھڑا ہوتا ہے کہ کس موقع پر کسی نظریہ کو حتمی تسلیم کر لیا جانا چاہیئے؟ کوپرنیکس کا نظریہ ابھی ابتدائی مراحل میں تھا اور زیادہ تر لوگ اس سے متفق نہیں تھے۔ گیلیلیو نے کوپرنیکس کے نظریہ کی حمایت مدوجزر پر اپنی ریسرچ کی بنیاد پر کی تھی جو بعد میں غلط ثابت ہوئی۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ علمی طور پر اس وقت کلیسا اور گیلیلیو دونوں ہی غلط بنیاد پر کھڑے تھے اور اس کو محض اتفاق سمجھا جائے کہ بعد میں دونوں میں سے کوئی ایک نظریہ یکسر مختلف وجوہات کی بنیاد پر درست ثابت ہو گیا۔ اس سب کے باوجود گلیلیو کے ساتھ دوسرے لوگوں کی نسبت کافی نرم رویہ رکھا گیا۔ جہاں اس کو موت کی سزا سنائی جا سکتی تھی وہاں قید کی سزا سنائی گئی اور اس میں بھی متعدد بار رعایت کی گئی۔ ان سب باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی “پلی بارگین” جیسا مقدمہ تھا نہ کہ کوئی جذباتی و نظریاتی جنگ۔

اگر اس سارے قصہ سے ہمیں کوئی سبق ملتا ہے تو وہ یہ کہ کوئی نظریہ یا نقطہ نظر حتمی نہیں ہوتا۔ جہاں چرچ نے اپنی تعلیمات کو اٹل سمجھتے ہوئے گیلیلیو کو سزا سنائی وہیں گیلیلیو نے بھی بالکل وہی غلطی کرتے ہوئے پوپ کی تضحیک کی جب کہ اسکی اپنی بنیاد درست نہیں تھی۔ ہمیں نہ صرف تسلی، تحمل اور کھلے ذہن کے ساتھ دوسروں کے نظریات اور دلائل کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے بلکہ دوسروں کی بات درست محسوس ہونے پر اپنی رائے کو تبدیل کرنے کی بھی ہمت رکھنی چاہیئے۔ اور کبھی اس حد تک آگے نہیں جانا چاہیئے کہ دوسروں کی بات درست ثابت ہونے پر ہمارے پاس شرمندگی کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہ رہے۔ دنیا میں کوئی بھی سرے سے بے وقوف اور کم عقل نہیں ہوتا اور کوئی نقطہ نظر مکمل طور پر بے بنیاد نہیں ہوتا۔

گیلیلیو نے اپنی متعدد دریافتوں، ایجادوں اور سائنس کے ایک نئے طریقہ کار کو وضع کر کے ہم سب کی زندگیوں پر دور رس نتائج چھوڑے۔ اپنے دریافت کردہ مشتری کے چار چاند اپنے سرپرست میڈیچی خاندان کے نام کرتے ہوئے اس نے لکھا تھا “تاکہ جو نام تاریخ میں امر ہونے کے لائق ہیں انہیں ہمیشہ کے لیے یاد رکھا جا سکے”۔ بلاشبہ صحیح طور پر یہ چاروں چاند آج گیلیلیو کے نام سے منسوب ہیں۔ سولہ سو تیرہ میں اس نے اپنے ایک دوست کو خط میں لکھا تھا:

“میں خدا کا بے شمار شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ان حیرت انگیز چیزوں کا پہلا عینی شاہد بنایا۔”

گیلیلیو 1613

References

The following resources were consulted in writing of this biography:

  1. Wikipedia
  2. Crash Course – History of Science
  3. Encyclopedia Britannica
  4. Stanford Encyclopedia of Philosophy
  5. Biography.com
  6. Smithsonian Magazine

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech