جرمنی کے مقابلے میں اتحادیوں کی مشکلات زیادہ تھیں کہ ان کے سپاہیوں نے  کشتیوں سے کھلے ساحل پہ اترنا تھا جہاں ان کا دشمن موچہ بند ہو کر ان پہ مشین گنوں سے آگ اورفولاد کی بارش  برسا نے کے قابل تھا۔ اس تناظر میں زخمیوں کی کم سے کم  تعداد بھی ہزاروں میں ہونا لازمی تھی وہ بھی چند گھنٹوں کے اندر اندر۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان حالات میں امریکی فوج کے لئے پنسیلین کتنی اہمیت کی حامل تھی ۔

مضمون کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں

مضمون کا دوسرا حصہ یہاں پڑھیں

مضمون کا تیسرا حصہ یہاں پڑھیں

مضمون کا چوتھا حصہ یہاں پڑھیں

چوہوں میں پنسیلین کے کامیاب تجربہ کے بعد جہاں  فلوری اور اس کے ساتھیوں  کی خوشی کا آپ اندازہ تو کر ہی سکتے ہیں لیکن وہیں اس خوشی کے ماحول میں بھی فلوری کے ذہن میں آئندہ کے تجربات کے بارے میں خدشات تھے۔ اس کا خیال تھا کہ چونکہ چوہوں کی بنسبت انسان  تین ہزار گنا بڑی جسامت کے حامل ہوتے ہیں، تو اگر ہمیں پنسیلین کے تجربات انسانوں پہ کرنے ہوئے ( جو کہ لازمی کرنا پڑیں گے)  جس کے لئے ہمیں کم از کم بھی  تین ہزار گنا زیادہ پنسیلین کی  مقدار چاہیئے ہو گی۔ ان حالات میں کہ جب پورا یورپ دوسری جنگِ عظیم کی لپیٹ میں تھا اور سارے ممالک اپنے تمام تر وسائل ہتھیاروں، گولہ بارود اور  افواج کے لئے مختص کر رہے تھے، فلوری کو پینسیلین کی تیاری کے لئے وسائل جمع کرنا تقریباً ناممکن ہی نظر آرہا تھا۔  خیر جیسے تیسے کچھ نہ کچھ جگاڑ لگاتے فلوری اور اس کے ساتھیوں نے پنسیلین کی تیاری شروع کر ہی دی۔ اس مقصد کے لئے انھوں نے پہلے سے ڈیزائن کردہ فرائی پین نما برتنوں سے لیکر دودھ والے کنستروں تک جو چیز انھیں اپنے مطلب کی لگی استعمال کرنا شروع کردی اور دن رات کی انتھک محنت کے بعد انسانی تجربات کے لئے ایک مناسب مقدار جمع کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔

پنسیلین نورمنڈی کے ساحل پہ 1

انسانوں میں پنسیلین کی ممکنہ افادت دیکھنے سے پہلے زیادہ ضروری تھا کہ یہ معلوم کیا  جا سکے کہ اس کے کوئی مضر اثرات تو نہیں ہونگے۔ اس کے لئے انھیں تلاش تھی کسی رضا کار کی جس کے جسم میں کیمیکل کو  انجیکٹ کیا جا سکے۔ اس غرض سے  ایک پچاس سالہ  کینسر کی مریضہ مسز البا ایٹلس  سے مدد کی درخواست کی گئی۔ مسز ایٹلس کو اس تجربہ کی دعوت دیتے وقت پہلے سے ہی یہ بتا دیا گیا تھا کہ اس پنسیلین سے انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ عین ممکن ہے کہ اس دوا کہ کوئی زہریلے اثرات ان کی زندگی کا خاتمہ ہی کر دیں۔  ان تمام خدشات کے باوجود انھوں نے اس تجربہ کا حصہ بننے کا فیصلہ ان الفاظ میں سنایا کہ مجھے فخر ہوگا کہ میں آپ لوگوں کی کوئی مدد کرسکوں۔ یوں 27 جنوری 1941 کی شام کو مسز البا اس دنیا کی پہلی انسان بنیں جنھیں پنسیلین کی  خوراک دی گئی۔ آج ہم یہ جانتے ہیں کہ اس زمانے کی تکنیکی مہارتیں اور سہولیات آج کے مقابلے میں بالکل ابتدائی نوعیت کی تھیں اور اسی حساب سے ہمیں یہ بھی علم ہے کہ مسز البا کو دی جانے والی پنسیلین کی خوراک میں محض 3 فیصد ہی پنسیلین تھی جبکہ 97 فیصد کثافتیں۔ چند ایام تک مسز البا کو نگرانی میں رکھا گیا اور ان کے باقاعدگی کے ساتھ  معائنے کئے گئے تا کہ پنسیلین کے کسی بھی  قسم کے مضر اثرات کا مشاہدہ کیا جاسکے۔ جب کئی دنوں  تک مسز البا کی طبعیت پہ کوئی مضر اثر نہیں مل سکا تو فلوری اور اس کے ساتھیوں نےپراعتماد ہو کر  پنسیلین کے تجربہ کے لئے کسی جراثیم کے انفیکشن والے مریض کی تلاش شروع کردی۔

پنسیلین نورمنڈی کے ساحل پہ 2

مسز البا کے وارڈ سے زرا ہی دور ایک ایسا مریض انھیں ملا جو کہ شدید انفیکش میں مبتلا تھا۔ تینتالیس سالہ البرٹ الیگزینڈرایک پولیس کانسٹیبل تھا  جسے ایک دن اپنے باغیچہ میں پودون کی کانٹ چھانٹ کرتے ہوئے اپنے چہرے پہ ایک معمولی سا زخم لگا تھا۔ لیکن یہ زخم جراثیمی انفیکشن کا سبب بنا اور کچھ ہی دنوں میں  جراثیم اس کے بدن میں پھیل گئے اور اس کی حالت کافی سیریس ہو گئی تھی۔ گیارہ فروری 1941 کو البرٹ کو پنسیلین کی پہلی خوراک دی گئی کہ اس بیچارے کے لئے پنسیلین کے علاوہ اور کوئی امدی نہیں بچی تھی۔ پنسیلین کی  خوراکوں کے ساتھ اگلے چند ایام میں البرٹ کی طبعیت میں حیرت انگیز بہتری نظر آنے لگی۔ البرٹ کی طبعیت میں بہتری فلوری اور اس کے ساتھیوں کے لئے خوشخبری سے کم نہیں تھی کہ پنسیلین کام کر رہی تھی۔  لیکن بدقسمتی سے ان کے پاس پنسیلین کی اتنی مقدار ہی موجود نہیں تھی کہ البرٹ کا مکمل علاج کیا جاسکے۔ اس بیچارگی کے عالم میں  انھوں نے البرٹ کے پیشاب سے  وہ پنسیلین کشید کرنے کی کوشش کی جو البرٹ کا جسم استعمال نہیں کر سکا تھا لیکن یہ مقدار بھی  بہت تھوڑی اور ناکافی ثابت ہوئی  اور علاج شروع ہونے کے ایک مہینے کے بعد البرٹ کی موت واقع ہو گئی۔  اگرچہ البرٹ کی موت المناک تھی لیکن اس کی طبعیت میں ابتدائی بہتری اس بات کا ثبوت تھی کہ اگر مناسب مقدار میں پنسیلین دستیاب ہو تو مریضوں کا مکمل علاج  کامیابی سے کیا جاسکتا ہے۔

پنسیلین نورمنڈی کے ساحل پہ 3

یہ وہ زمانہ تھا جب کہ انگریز برطانیہ پہ جرمنی کے حملہ کے خوف سے مجبور ہو کر ہر ممکن کوشش میں تھے کہ برطانیہ کا دفاع کیا جا سکے۔ ایسے حالات میں پنسیلین جیسی موثر جراثیم کش دوا نازیوں کے ہاتھوں میں چلے جانے کا خوف  اس قدر تھا کہ ایسی صورتحال میں وہ اپنے سارے تجربات کو تلف کرنے پہ ذہنی طور پہ تیار اور آمادہ تھے۔  فلوری اور اس کے ساتھیوں نے اپنے کوٹوں کے استر میں پنسیلینیم کو ذرات چپکا لئے تھے کہ اگر کسی وقت انھی ہنگامی طور پہ بھاگنا پڑے تو اپنے ساتھ پھپوندی بچا کے لےجا سکیں۔  انھیں اپنے کام کی اہمیت کا اندازہ تھا کہ یہ پینسیلین اس دوسری جنگِ عظیم   کا پانسہ پلٹنے کے قابل ہے۔  لیکن مئلہ تو یہ تھا کہ پورا ڈیپارٹمنٹ اور اس کا اسٹاف مہینوں کی محنت کر کے بھی اتنی مقدار میں پنسیلین نہیں بنا سکا تھا جو کہ ایک مریض کی جان بچا سکے تو پھر کیا جنگ اور کیا علاج ہونا تھا۔  اس خیال نے فلوری کو پنسیلین کی پیداوار بڑھانے پہ غور کرنے پہ مجبور کردیا، لیکن کوئی بھی دوا ساز کمپنی پنسیلین بنانے کو تیار نہیں تھی کہ اس وقت برطانیہ کی تمام ادویات ساز کمپنیاں مکمل طور پہ جنگی پیداوار میں مصروف تھیں۔ اس جھنجلاہٹ کے عالم میں فلوری نے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا اور  جولائی 1941 میں فلوری اور ہیٹلی نیو یارک پہنچے۔ انھیں امریکی کمپنیوں کو پنسیلین کی افادیت و اہمیت سمجھانے میں ذرا سی بھی مشکل پیش نہیں آئی۔ اب صرف ایک ہی سوال پیشِ نظر تھا کہ کس طرح پنسیلین کی زیادہ سے زیادہ مقدار کم سے کم وقت میں سپاہیوں کے علاج کے لئے محاذِ جنگ تک پہنچائی جا سکتی ہے۔

پنسیلین کی پیداوار بڑھانے کے مقصد کی راہ میں تین مراحل پہ مشتمل رکاوٹ درپیش تھی؛ اس رکاوٹ کا پہلا مرحلہ پھپھوندی کی افزائش کے لئے مناسب خوراک کی تلاش تھی، دوسرامرحلہ پھپوندی کی ایسی قسم کو ڈھونڈنا تھا جو کہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں پنسیلین پیدا کر سکتی ہو، اور تیسرا مرحلہ پنسیلین کی پیداوار کے پورے عمل کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانا تھا تاکہ حتیٰ الوسع طور پہ پنسیلین کی جتنی بھی زیادہ مقدار حاصل کی جاسکتی ہو حاصل کی جاسکے۔  پہلا مرحلہ تو بہت آسانی سے عبور ہو گیا کہ امریکہ میں مکئی کا شیرہ یا کارن سیرپ کافی مقدار میں بنایا اور استعمال کیا جاتا ہے اور تجربات سے معلوم ہوا کہ پنسیلینیم پھپوندی بہت آسانی کے ساتھ مکئی کے شیرے میں پھلتی پھولتی ہے۔ لیکن اگلے دونوں مراحل بہت مشکل ثابت ہوئے۔ ابھی تک جو پھپھوندی پنسیلین بنانے کے لئے استعمال کی جا رہی تھی وہ  اسی پھپوندی سے ماخوز تھی جو الیگزنڈر فلیمنگ نے دریافت کی تھی۔

پنسیلین نورمنڈی کے ساحل پہ 4

سائنسدانوں کا خیال تھا کہ اگر مناسب انداز میں تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو عین ممکن ہے کہ پنسیلینیم کی کوئی ایسی قسم مل جائے جو کہ زیادہ مقدار میں پنسیلین بنا سکتی ہو۔ اس غرض سے پوری دنیا سے پنسیلینیم پھپھوندی کے نمونے جمع کرنے کی مہم شروع کی گئی۔  دنیا بھر سے سینکڑوں نہیں ہزاروں پھپوندی کے نمونے ہنگامی بنیادوں پہ حاصل کر کے امریکی جنگی ہوائی جہازوں کی مدد سے منگوائے گئے۔ ان تمام تر نمونوں  کی پنسیلین پیدا کرنے کی صلاحیت کو ماپنے کے لئے کئی کئی سائنسدان شبانہ روز لگے رہے، لیکن شائد ایسی کوئی طاقتور قسم  دنیا میں موجود ہی نہیں تھی جو ان کے مطلب کی پیداوار دے سکتی۔

پنسیلین نورمنڈی کے ساحل پہ 5
پھپھوندی کی تلاش میں سرگرداں لوگوں میں شامل امریکی محکمہ زراعت کی ایک ملازم میری ہنٹ ویک اینڈز پہ اکثر فروٹ مارکیٹس میں گھومتی پھرتی پائی جاتی تھی لیکن اس کی نظریں تازہ پھلوں کی بجائے گلے سڑے اور خراب پھلوں پہ ہوتی تھی۔ ایک دن میری کی نظر ایک گلے سڑے پھپھوندی لگے ہوئے خربوزے پہ پڑی اور اس نے یہ خربوزہ پنسیلین کی ٹیسٹنگ کے لئے بھجوا دیا۔  اس خربوزے پہ اُگی ہوئی پنسیلینیم پھپھوندی کی نہایت ہی طاقتور قسم ثابت ہوئی کہ آنے والے کافی وقت تک یہ پھپوندی پوری دنیا میں پنسیلین بنانے کا واحد ذریعہ رہی۔

پنسیلین نورمنڈی کے ساحل پہ 6

  خیر ان دو مراحل کی کامیابی کے باوجود بھی 1943 تک محض اتنی مقدار میں پنسیلین تیار کی جاسکی تھی کہ صرف چند خوش قسمت زخمیوں کا ہی علاج کیا جا سکتا تھا ۔ تیسرے مرحلہ میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ پنسیلین کی تیاری کا طریقہ تھا، جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ پنسیلین کے حصول کے لئے فرائی پین کی طرح کے چوڑے پیندے والے برتن ڈیزائن کئے گئے تھے، اور ان میں پھپھوندی کو مایع شکل میں خوراک کا محلول دیا جا تا جس کی سطح پہ پھپھوندی افزائش کرتی اور پنسیلین تیار کرتی۔ اس پھپھوندی کو آکسیجن کی ضرورت تھی جس کے لئے یہ صرف سطح پہ ہی ہوتی اور سطح سے نیچے موجود خوراک کا محلول فالتو ہی رہ جاتا اور پنسیلین کی پیداواری مقدار بہت کم ہوتی تھی۔

پنسیلین نورمنڈی کے ساحل پہ 7

ایک جانب یہ مسئلہ تھا تو دوسری طرف اتحادی افواج جرمنی کے خلاف ایک بہت بڑا حملہ کرنے جا رہے تھے۔ یہ حملہ انسانی تاریخ کا سب سے حملہ ہو نا تھا جس میں جس میں لاکھوں تعداد میں امریکی، برطانوی اور دیگراتحادیوں  کے  سپاہیوں نے سمندر کے راستے جرمنی کے زیرِ تسلط فرانس پہ حملہ آور ہونا تھا۔ جرمنی کو بھی اس حملہ کی سن گن مل چکی تھی اور اس کی افواج نے بھی فرانس کے ساحلوں پہ کڑے حفاظتی اقدامات کر رکھے تھے۔  دونوں فریقین کو علم تھا کہ یہ حملہ جنگ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسی لئے دونوں جانب سے اپنے تمام تر وسائل اس حملے کے تناظر میں خرچ کئے جا رہے تھے۔ جرمنی کے مقابلے میں اتحادیوں کی مشکلات زیادہ تھیں کہ ان کے سپاہیوں نے  کشتیوں سے کھلے ساحل پہ اترنا تھا جہاں ان کا دشمن موچہ بند ہو کر ان پہ مشین گن سے آگ اورفولاد کی بارش  برسا نے کے قابل تھا۔ اس تناظر میں زخمیوں کی کم سے کم  تعداد بھی ہزاروں میں ہونا لازمی تھی وہ بھی چند گھنٹوں کے اندر اندر۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان حالات میں امریکی فوج کے لئے پنسیلین کتنی اہمیت کی حامل تھی کہ یہی وہ وقت تھا جب امریکی فوج کے دو ٹاپ سیکرٹ پراجیکٹس ایٹم بم اور پنسیلین کی تیاری تھے۔

پنسیلین نورمنڈی کے ساحل پہ 8

ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی سائنسدان ہر ممکن کوشش کر رہے تھے کی پنسیلین کی پیداوار جیسے بھی ہو سکے بڑھائی جائے لیکن ان سب کے آگے ایک ہی سوال ان کا منہ چِڑا رہا تھا کہ  کس طرح صرف سطح کی بجائے پھپھوندی کو پورے محلول میں  اگانے کا انتظام کیا جائے۔

پنسیلین نورمنڈی کے ساحل پہ 9

آج کل تو فائزر ایک مشہور دوا ساز کمپنی ہے جو کہ ایک شہرہ آفاق نیلی گولی کے حوالے سے پوری دنیا میں جانی جاتی ہے  لیکن اس زمانے میں وہ سیٹریک ایسڈ بنایا کرتی تھی۔ سیٹریک ایسڈ بھی جراثیم اور پھپھوندیوں کی مدد سے بنایا جاتا ہے اور بہت ساری مصنوعات میں استعمال ہوتا ہے۔  فائزر کے محققین کو بھی اس امر کا ادراک بہت جلدہوگیا تھا کہ محض سطح پہ افزائش کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن اس مسئلہ کا حل کیا نکالا جائے اس کے لئے  وہ سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے ۔ یہ تو سب کو معلوم تھا کہ پھپھوندی کو آکسیجن کی ضرورت ہے جو کہ محلول میں نہیں ہوتی جس کی وجہ سے  پھپھوندی کی افزائش نہیں ہوتی۔ اسی سوچ و بچار کے دوران کسی نے خیال پیش کیا کہ کیوں نہ ہم آکسیجن کی سپلائی اس محلول کے اندر، اس برتن کی تہہ سے کر کے دیکھیں، ویسے بھی آکسیجن گیس ہے اور اس نے اوپر کو ہی اٹھنا ہوتا ہے کسی بھی گیس کی طرح، تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا یہی کہ پھپھوندی سطح تک ہی محدود رہے گی لیکن اگر یہ تجربہ کامیاب ہوگیا تو پھر ہمارا مقصد حاصل ہو جائے گا۔ یہ تجویز کافی وزنی محسوس ہوئی اور اس پہ فوری طور پہ کام شروع کردیا گیا۔

پنسیلین نورمنڈی کے ساحل پہ 10

لیکن اب کی بار مسئلہ یہ تھا کی آکسیجن کی کتنی مقدار دی جاسکتی ہے کہ جس سے پھپھوندی موثر انداز میں افزائش کرسکے ۔ خیر کمپنی نے یہ داو کھیلنے کا فیصلہ کیا اور اس تجربے کے لئے انتظامات کرنے شروع کئے۔ اس تجربہ کی خاطر  فائزر نے ملک بھر سے اپنے وسائل اکھٹے کیے اور نیو یارک میں ایک فیکٹری کو اس  مقصد کے لئے تیار کیا گیا۔ حملہ کی تاریخ میں صرف دو مہینے باقی تھے  کہ فائزر نے  14 بڑے بڑے فرمنٹیشن ٹینک نصب کئے ان میں مکئی کا شیرہ ڈالا گیا اور خربوزے سے حاصل کی گئی پھپھوندی ڈال کر آکسیجن کی سپلائی شروع کردی۔

پنسیلین نورمنڈی کے ساحل پہ 11

اس تجربے کے نہایت ہی شاندار نتائج نکلے اور جلد ہی وہ اپنے مقررہ ہدف سے پانچ گنا زیادہ پنسیلین بنانے لگے۔  جون  1944 میں نارمنڈی کے ساحل پہ زخمی ہونے والے ہر سپاہی کے علاج کے لئے کافی پنسیلین دستیاب تھی کہ زخمی  اتحادی سپاہیوں کو زیادہ عرصہ ہسپتال میں رکنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور وہ جلدی صحتیاب ہو کر  بندوق اٹھائے واپس محاذِ جنگ پر اپنی ڈیوٹی پہ جانے لگے تھے۔

پنسیلین نورمنڈی کے ساحل پہ 12

پنسیلین  سے پہلے تک معمولی سے معمولی انفیکشن کے باعث سینکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں جانیں ان ننھے منے ان دیکھے قاتلوں کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں۔  اس حیرت انگیز دریافت نے طب میں ایک انقلاب برپا کیا اور آنے والی کئی دہائیوں میں سائنسدانوں نے نا صرف درجنوں مختلف اینٹی بیاٹکس دریافت کیں بلکہ ان دریافت شدہ اینٹی بیاٹکس میں کیمیائی تبدیلیاں  کرکے ان  میں سے بہت کی افادیت میں اضافہ بھی کیا۔ پال ارلیش سے شروع ہونے والے اس سفر میں انسان نے بیماریاں پھیلاتے جرثوموں کے خلاف چھوٹی موٹی کامیابیاں تو ضرور حاصل کی تھیں لیکن پنسیلین کی دریافت تاریخ کا یہ پہلا موقع تھا کہ انسان نے جراثیم کے خلاف  ایک واضح فتح حاصل کی۔۔۔ لیکن یہ اس ازل سے جاری جنگ کا اختتام ہرگز نہیں تھا اور اب باری تھی جراثیم کے جوابی وار کی۔

جراثیم کا یہ جوابی وار آیا ان دریافت شدہ اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مدافعت کی شکل میں، اس مدافعت اور ہم پر ہونے والے اثرات کے لئے پڑھیں:

جراثیم، اینٹی بائیوٹکس اور ہم

اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مدافعت کے مضمرات

 

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.