یہ تو غالباً سب ہی جانتے ہیں کہ پنسیلین  کی دریافت کا سہرا ڈاکٹر الیکزنیڈر فلیمنگ کے سر باندھا جاتا ہے مگر اس حقیقت کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران امریکی فوج اور حکومت جن دو ٹاپ سیکرٹ پراجیکٹس پہ کام کر رہی تھی ان میں ایک ایٹم بم تھا اور دوسرا پنسیلین۔

پہلا حصہ یہاں پڑھیں

دوسرا حصہ یہاں پڑھیں

تیسرا حصہ یہاں پڑھیں

اگست 1928 میں ڈاکٹر فلیمنگ مختلف جرثوموں پہ اپنی تحقیق میں مصروف تھے کہ انھیں چند ایام کی رخصت پہ کچھ ایسے جانا پڑا  کہ وہ اپنے جرثومہ کے نمونے زیادہ احتیاط سے محفوظ کیئے بنا ہی نکل پڑے۔  اس بے احتیاطی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ساتھ کی تجربہ گاہ سے اڑنے والے چند  پھپھوندی کے ذرات  ان کے نمونوں میں شامل ہوگئے۔  جب تک ڈاکٹر فلیمنگ نے واپس آنا تھا تب تک کسی نے ان کے نمونوں کا خیال نہیں کیا اور پھپھوندی کو ان نمونوں کو خراب کرنے کا موقع مل گیا۔  اب چھٹیاں ختم ہونے کے بعد جیسے ہی ڈاکٹر  فلیمنگ نے اپنے نمونوں پہ نظر ڈالی تو انھیں شدید غصہ آیا  کہ جہاں جرثوموں کو ہونا چاہیئے تھا وہاں شدومد کے ساتھ پھپھوندی موجود تھی اور جراثیم اس سے دور دور تھے۔  ایک لمحہ کے لئے تو  فلیمنگ  کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ اپنا سر پیٹا جائے یا پھر تجربہ گاہ میں موجود  لوگوں کی خبر ، لیکن چونکہ غلطی اپنی تھی اس لئے کسی کو کچھ کہنا بنتا بھی نہیں تھا۔  خیر فلیمنگ  اپنی تجربہ گاہ کی میز پہ سر جھکائے ان نمونوں کو دیکھتے رہے۔

پنسیلین کی کہانی 1

جراثیم اور پھپھوندی کو دیکھتے دیکھتے اچانک فلیمنگ کو خیال آیا کہ چھٹیوں پہ جانے سے پہلے اس نمونے میں جہاں اب یہ پھپھوندی موجود ہے  اس میں  تو جراثیم بھرے پڑے تھے۔  تو کیا پھپھوندی ان جراثیم کے اوپر اُگ رہی ہے؟ فلیمنگ کے دماغ کو اس سوال نے تو گویا چکرا کہ ہی رکھ دیا تھا۔  اس خیال کے آتے ہی فلیمنگ نے نمونوں کو الٹ پلٹ کے دیکھنا شروع کردیا۔  فلیمنگ کے تجربہ گاہ کے ساتھی جو کہ یہ سوچ رہے تھے کہ ابھی فلیمنگ ان نمونوں کو اٹھا کہ کوڑادان میں پھینک دے گا لیکن  وہ اب اس کی اس حرکت کو تجسس کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔  اپنے ساتھیوں کی نظروں سے بے خبر فلیمنگ کو کہیں بھی جرثومہ اور پھپھوندی ایک ساتھ نظر نہیں آئے، جیسے ان دونوں کے درمیان ایک غیر مرئی رکاوٹ تھی جس نے دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملنے سے روکے رکھا تھا۔  اس  رکاوٹ کے بارے میں سوچتے سوچتے فلیمنگ کو احساس ہوا کہ یہ بھبوندی کوئی ایسا مادہ یا کیمیکل بنا رہی ہے کہ جس نے ان جراثیم کو اپنے سے دور رکھا ہوا ہے۔  کچھ مزید تجربات کے بعد فلیمنگ کو اپنے اندازے کے سچ ہونے کی تصدیق ہوگئی کہ واقعی یہ پھپوندی  ایک مادہ پیدا کر رہی ہے جو کہ جرثوموں کو اس کے قریب پھلنے پھولنے اور افزائش کرنے  سے روکتا ہے۔  اس پھپوندی کا نام پنسیلینیم تھا تو اس کی مناسبت سے اس مادے کو پنسیلین کا نام دیا گیا۔

پنسیلین کی کہانی 2

ڈاکٹر فلیمنگ نے اپنےتجربات کے بعد  ایک مقالے میں اس بات کی نشاندہی کی کہ  اس  پنسیلین کو جراثیمی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے علاج کے لئےممکنہ طور پہ استعمال کیا جا سکتا ہے ۔  فلیمنگ نے کوشش کی کہ پنسیلین کو  کشید کیا جا سکے لیکن اس کام میں انھیں ناکامی ہوئی۔  اس ناکامی کے بعد انھوں نے اس ضمن میں مزید کوئی تحقیق نہیں کی کہ کس طرح پنسیلین کو علاج کی خاطر استعمال میں لایا جاسکتا ہو  اور یوں گزشتہ صدی کی طب کی سب سے بڑی دریافت  1938 تک سرد خانے کی نذر ہوگئی۔

  بیسویں صدی  کی تیسری دہائی کے اختتام  پہ دنیا دوسری جنگِ عظیم کے دہانے پہ کھڑی تھی یورپ میں ہٹلر کی سربراہی میں جرمنی اپنے بازو پھیلا رہا تھا تو دوسری جانب سویت روس  کے بھی توسیع   پسندانہ عزائم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔  سویت روس میں فیلکس ڈی ہرلی کی دریافت جرثومہ خور وائرسوں کو بطور جراثیم کش دوا  استعمال کیا جا رہا تھا تو دوسری طرف جرمنی کے پاس گیرہارڈ کی دریافت کردہ سلفونامائیڈ جیسی  جراثیم کش دوا موجود تھیں، ایسے میں برطانیہ میں اس کمی کوشدت کے ساتھ محسوس کیا گیا کہ ان کے پاس کوئی جراثیم کش دوا اپنے سپاہیوں کے علاج کے لئے  دستیاب نہیں ہے۔

پنسیلین کی کہانی 3

جراثیم کش دوا کی کمی  کا احساس یقیناً آپ کے لئے حیرت کا باعث ہونا چاہیئے کہ جہاں یہ وسیع و عریض سلطنتیں  لاکھوں  سپاہیوں پہ مشتمل بڑی بڑی افواج رکھتی ہوں، جہاں ہر روز لڑاکا جہاز، آبدوزیں، ٹینک اور میزائلوں جیسے نت نئے اور تباہ کن ہتھیار ایجاد ہو رہے ہوں وہاں ایک معمولی سی دوا کی ایسی کیا خاص اہمیت؟  آپ کی یہ حیرت اور یہ سوال بالکل بجا ہے اور اس سوال کا جواب چھپا ہے پہلی جنگِ عظیم میں۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران دشمن کی گولیوں سے اتنی ہلاکتیں نہیں ہوئیں تھیں جتنی جراثیم کے  ہاتھوں ہوئیں۔ مطلب جنگ میں لڑائی کے دوران اگر کوئی سپاہی زخمی ہوگیا تو جنگ کے حالات میں مناسب دیکھ بھال نہ ملنے کے سبب اس کے زخم خراب  ہوجاتے  کئی دفعہ  نوبت بازو اور ٹانگ کے کٹنے تک پہنچ جاتی۔  ان زخموں کے خراب ہونے کی واحد وجہ جراثیم ہوتے تھے (جیسے آج کل کے زمانے میں شوگر کے مریض اگر بے احتیاطی کریں تو ان کے زخم خصوصاً پاؤں ٹانگوں کے  زخم خراب ہوجاتے ہیں)۔  پہلی جنگِ عظیم کے نتیجے میں  لاکھوں کی تعداد میں ایسے سپاہیوں کو اپنے اعضاء سے ہاتھ دھونے پڑے تھے اور اب جب کہ ایک بار  پھر سے جنگ دہلیز پہ کھڑی دستک دے رہی تھی تو لازمی بات ہے کہ ان جرثوموں کا کوئی حل نکالا جانا لازمی تھا۔

1939 میں آکسفرڈ یونیورسٹی کے دو محققین ای بی چین اور ایچ ڈبلیو فلوری نے بدلتے عالمی حالات میں جراثیم کش ادویات پہ کام کرنے کی ٹھانی۔ مطالعہ کے دوران فلیمنگ کا وہ تحقیقی  جس میں پنسیلین کا ذکر تھا ان کی نظر سے گزرا، زرا سی تگ و دو کے بعد انھیں فلیمنگ کے نمونوں میں لگنے والی پھپوندی بھی وہیں دستیاب ہوگئی، جس سے انھوں نے پنسیلین حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ۔

پنسیلین کی کہانی 4

( میں اپنے پچھلے ایک مضمون میں خوردبینی جانداروں کی افزائش کے طریقہ کا ذکر کر چکا ہوں لہٰذا ابھی زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا صرف اتنا بتا دینا چاہتا ہوں کہ جب ہمیں کسی خوردبینی جاندار کی شناخت کرنا ہو تو اسے جیلی والے میڈیم پہ افزائش کرواتے ہیں اور اگر اس جاندار سے کوئی مادہ، کیمیکل،  وغیرہ حاصل کرنا ہوتو اس کی افزائش شوربہ یا بروتھ میں کی جاتی ہے۔)

پنسیلینم کو بروتھ میں اگایا جانے لگا، جب کافی مقدار میں پھپوندی اگ گئی تو انھوں نے پھپوندی کو مائع بروتھ سے الگ کیا اور اس استعمال شدہ بروتھ کو ان جرثوموں کے خلاف استعمال کر کے دیکھا کہ کیا جراثیم کش صلاحیت    مطلب پنسیلین  اس محلول میں موجود ہے یا پھپوندی کے خلیات میں۔  یہ تجربہ نہایت اہم تھا کیونکہ اگر پنسیلین بروتھ کے محلول میں موجود نا ہوتی تو پھر آگے کی تمام تر حکمتِ عملی بالکل الگ اختیار کی جانی تھی۔  خیر ان کا تجربہ کامیاب رہا کہ استعمال شدہ بروتھ کے محلول  کی موجودگی میں جراثیم  کی افزائش نہ ہونے کے برابر تھی، یعنی پنسیلین اس میں حل شدہ تھی۔  اب سب سے اہم بات یہ معلوم کرنا تھی کہ کیا جانوروں میں اس پنسیلین کا کوئی زہریلا  یا نقصاندہ  اثر تو نہیں ہوتا کیا؟  اس غرض سے رابرٹ کاخ کے تجربہ سے ملتا جلتا تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اور چوہوں میں پھپوندی کا ستعمال شدہ بروتھ انجیکٹ کر دیا گیا اور انتظار کیا گیا کہ کیا چوہے اس انجیکشن کے بعد بھی صحتمند رہتے ہیں یا کوئی بیماری یا زہر کی علامات ان میں ظاہر ہوتی ہیں۔  خدا خدا کر کے انتظار ختم ہوا اور تمام کے تمام چوہے اپنے پنجروں میں زندہ سلامت  پھدکتے پائے گئے، لہٰذا  ان تجربات سے دو باتیں تو واضح ہوگئیں کہ ایک پنسیلین   پھپوندی کی افزائش کے بعد اس کے استعمال شدہ بروتھ سے حاصل کی جا سکتی ہے اور دوسری کہ اس کے کوئی خاص نقصاندہ اثرات بھی نہیں ہیں۔

پنسیلین کی کہانی 5

اب اگلا مرحلہ پھپوندی کو اگا کر زیادہ سے زیادہ مقدار میں پنسیلین  کو کشید کرنے کا تھا۔  اس کام کے لئے این جی ہیٹلی کی صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے اس ٹیم کا ممبر بننے کی دعوت دی گئی جو اس نے قبول کر لی۔ ہیٹلی نے سب سے پہلے تو جراثیم کش دواؤں کو ٹیسٹ کرنے کا ابتدائی طریقہ وضح کیا، تاکہ آئندہ  سے تمام تجربات ایک مستند طریقہ سے کیئے جا سکیں نہ کہ ہر شخص  الگ الگ طریقہ کار اپناتا پھرے۔  اس کے بعد ہیٹلی نے پھپوندی کے استعمال شدہ بروتھ سے پنسیلین کو کشید کرنے کا انتظام کیا۔ بروتھ میں پنسیلین کے علاوہ بلامبالغہ سیکڑوں دوسرے مادے اور مرکبات  موجود تھے  لہٰذا اس کا طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ   بہت سارے نامیاتی محلولوں  کو استعمال کیا گیا اور دیکھا گیا کہ ان میں پنسیلین کی کتنی مقدار  حل ہوتی ہے  اور باقی تمام  کثافتیں کتنی۔ ان تمام محلولوں میں سے اس محلول کا انتخاب کیا گیا کہ جس  میں پنسیلین سب سے زیادہ اور باقی سب کچھ نہایت کم ہو، اور اس طرح کشید کرنے کا عمل بھی کامیابی سے ہمکنار ہوا۔

پنسیلین کی کہانی 6

اب باری تھی پھپوندی کی بڑے پیمانے پہ افزائش کرنے اور زیادہ سے زیادہ پنسیلین حاصل کرنے کی۔ اس غرض سے چوڑے پیندے والے فرائی پین سے ملتے جلتے برتن ڈیزائن کئے گئے جن میں بروتھ بھر کر اس کی سطح پہ پنسیلینم چھڑک کر انھیں مخصوص درجہ حرارت میں رکھ دیا جاتا کہ پھپھوندی اچھی طرح سے اگ سکے اور پنسیلین بنا سکے۔ آخرکار مہینوں کی محنت کے بعد اتنی پنسیلین  جمع ہوگئی کہ اس کو جانوروں پہ ٹیسٹ کیا جاسکے۔  اس ٹیسٹ کے لئے پاول ارلیش کے سالورسان 606 والے تجربہ سے ملتا جلتا تجربہ کیا گیا ، چوہوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا اور ان سب کے خون میں  اسٹریپٹوکوکس نامی جراثیم کی مہلک مقدار انجیکشن کے ذریعہ داخل کر دی گئی۔  ان  چوہوں کے ایک گروہ کو پنسیلین کا انجیکشن  لگا یا گیاجبکہ دوسرے کو نہیں ، اوران دونوں گروہوں کا مشاہدہ شروع ہوگیا۔  یہ پہلا موقع تھا کہ کسی جاندار کے جسم میں پنسیلین انجیکٹ کی گئی تھی لہٰذا سب کا تجسس اپنی انتہا پہ تھا۔ کنٹرول گروہ کے چوہے جنھیں پنسیلین کا انجیکشن نہیں لگا تھا وہ سب کہ سب جراثیم کی تاب نہ لاسکے اور مرگئے جب کہ پنسیلین والے تمام چوہے زندہ اور صحتمند تھے۔  اس کامیابی کے بعد ایک بار پھر تمام لوگ پنسیلین تیار کرنے میں جت گئے کہ اگلا قدم انسانوں میں پنسیلین کے تجربات  کا تھا۔

(جاری ہے)

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.