پوری دنیا میں ایک تہائی سے زیادہ لوگ گھروں میں قید ہیں۔ دنیا کرونا وائرس کے خطرے سے نبردآزما ہے۔ ہم نے بیلجیئم کے وائرالوجسٹ (وائرسز کے ایکسپرٹ) گیڈو وین ہیم سے بات کی جو بیلجیئم میں استوائی میڈیسن کے ادارے کے سربراہ رہے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ وبا ختم کیسے ہو گی اور یہ کن عوامل پر منحصر ہے؟

کرونا وبا کیسے ختم ہو گی؟

یہ شاید کبھی ختم نہ ہو۔ ایک طرح سے یوں سمجھ لیں کہ یہ وائرس اب ہمیشہ دنیا میں رہے گا اگر ہم نے خود اس وائرس کو مکمل طور پر ختم نہ کیا۔ اور وائرس کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اس کے خلاف انتہائی کارآمد ویکسین بنا لیں اور دنیا کے ہر انسان تک وہ ویکسین پہنچا دیں۔ ہم چیچک کو اسی طریقے سے مکمل ختم کر چکے ہیں۔ لیکن یہ بیماریوں کی لمبی لسٹ میں سے واحد مثال ہے اور اس میں بھی کئی سال لگے تھے۔

تو زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ وائرس دنیا میں رہے گا۔یہ وائرسز کی ایسی فیملی سے ہے جن کے بارے میں ہم پہلے سے جانتے ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ یہ انہی وائرسز کی طرح برتاؤ کرتا ہے یا نہیں؟ ہو سکتا ہے کہ آئندہ یہ موسمی بن جائے، سردیوں، بہار اور خزاں میں زیادہ ہو جائے اور گرمیوں میں کم۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ موسم کا اثر ہو گا یا نہیں۔

لیکن اس وبا کے دوران کسی نہ کسی موقع پر – بالخصوص ان ملکوں میں جہاں حملہ انتہائی شدید ہے، جیسے اٹلی اور سپین – بیمار لوگوں کی تعداد بہت بڑھ جائے گی کیونکہ ایک اندازے کے مطابق سپین میں چالیس فیصد اور اٹلی میں چھبیس فیصد تک لوگ اس سے پہلے ہی متاثر ہو چکے ہیں۔ اور یقینا جب تعداد پچاس فیصد سے بڑھ جائے گی، تو آپ کچھ کریں یا نہ کریں، وائرس کو نئے شکار ملنا کم ہو جائیں گے تو وبا کی شدت خود ہی کم ہو جائے گی۔ ہمیشہ سے وباؤں میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے جب ہمارے پاس طریقۂِ علاج نہیں ہوتے تھے۔ انفکیشن کی شرح اور متاثر ہونے والوں کی تعداد یہ بتائے گی کہ آگے کیا ہونا ہے۔

کون کون سے عوامل اس وقت کھیل کا حصہ ہیں؟ ہم کیا جانتے ہیں اور کیا نہیں جانتے؟

پہلی چیز جو ہمیں معلوم ہے کہ یہ بہت (آسانی سے پھیلنے والا) متعدی وائرس ہے۔ شاید اب تک دنیا کے ہر شخص کو یہ معلوم ہو گیا ہو۔ لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کم سے کم کتنی مقدار میں وائرس سے انفیکشن ہو سکتی ہے۔ اور یہ معلوم کرنا بہت مشکل ہے ماسوائے اس کے کہ ہم خود تجرباتی طور پر لوگوں کو انفیکٹ کریں۔

ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ لوگوں میں اینٹی باڈیز پیدا ہو جاتی ہیں۔ چائنہ میں یہ تجربات کی مدد سے ثابت بھی ہوا ہے۔ لیکن ہمیں ابھی تک یہ پکا نہیں معلوم کہ یہ اینٹی باڈیز کس حد تک حفاظت کر سکتی ہیں۔ اس بات کا ثبوت موجود نہیں کہ جو لوگ ایک دفعہ بیماری سے ٹھیک ہو گئے ہیں وہ دوبارہ چند دن یا ہفتوں بعد انفیکٹ ہوتے ہیں یا نہیں۔  شاید یہ اینٹی باڈیز کسی حد تک حفاظت کر سکتی ہیں۔ لیکن یہ حفاظت کتنی دیر رہے گی؟ مہینے یا سال؟ مستقبل میں بیماری کتنا پھیلے گی یہ اسی بات پر منحصر ہے کہ لوگوں کے جسم میں انفیکشن کے بعد کس حد تک حفاظتی مدافعت پیدا ہوتی ہے۔ وبا کی اس لہر کو فی الحال ہم روک نہیں سکتے۔ ہم اس کی شدت کو کم کر سکتے ہیں، اگر پھیلنے کی رفتار کو کم کر لیا جائے۔ لیکن اس کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں۔ کبھی نہ کبھی ہمیں کام کرنے اور تعلیم و تعلم کے لئے گھروں سے نکلنا ہو گا۔ کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کب ہو گا۔

کرونا یومیہ نئے کیسز
عالمی سطح پر کرونا کے یومیہ نئے کیسز اپریل کے شروع سے تقریبا ایک ہی سطح پر ہیں لیکن مستقبل میں ترقی پذیر ممالک میں اس کی تعداد تیزی سے بڑھ سکتی ہے۔

وائرس اپنا دور پورا کرے گا اور لوگوں میں کسی حد تک مدافعت پیدا ہو جائے گی۔ لیکن وہ مدافعت کس حد تک ہوتی ہے اس سے اس بات پر فرق پڑتا ہے کہ آئندہ کب تک اس کے حملے چلیں گے، اور ان وبائی حملوں کی فریکوئنسی اور شدت کیا ہوتی ہے۔ ہاں البتہ ہم کسی پُر اثر ویکسین کے ذریعے ایک دو سالوں میں اس کو مکمل طور پر روکنے کا کوئی طریقہ نکال لیں تو اور بات ہے۔

ابھی تک ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ کسی فرد کے بیمار ہونے کے امکانات کن عوامل کی وجہ سے کم یا زیادہ ہوتے ہیں۔ ابھی تک اس میں عمر کا عمل دخل واضح نظر آ رہا ہے لیکن یہ تو عام بات ہے۔ عمر کے ساتھ لوگوں کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے۔ پھر اس میں دوسری بیماریوں کا بھی عمل دخل ہے۔ اگر کم عمر لوگوں کو اور بھی بیماری ہو تو وہ شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔

یہ بات آسانی سے قابل فہم ہے کہ جب آپ کو کینسر یا ذیابیطس ہو تو آپ کو دوسری بیماریاں لگنے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ لیکن جو بات حیران کن ہے وہ یہ کہ بلد فشار خون (بلڈ پریشر) والے افراد بھی اس سے تیزی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ابھی تک ہمیں نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہے۔

اور یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ جن لوگوں کے جسم میں وائرس ہے لیکن ان میں بیماری کی علامات پیدا نہیں ہوئیں ان میں ایسا کیوں ہے۔ اس سوال پر چین میں پہلے سے کام ہو رہا ہے اور چند مہینوں میں ہمیں معلوم ہو جائے گا۔ پھر ہم لوگوں کا اینٹی باڈی کا ٹیسٹ کر سکیں گے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ جس کسی کو اس کی انفیکشن ہوتی ہے اس کے جسم میں کم سے کم کچھ دیر اینٹی باڈیز ضرور بنتی ہیں۔

ایسے لوگ بھی سامنے آئے ہیں جن کے جسم میں وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز تھیں لیکن وہ ہسپتال نہیں آئے کیونکہ ان کا دعوی ہے کہ وہ پورا عرصہ صحتمند تھے۔ ان لوگوں کی جینز میں بیمار ہونے والوں کی نسبت کیا فرق ہے؟ یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے۔ ایک اشارہ چین میں سائنسدانوں نے کھوجا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں ہمارے خون کے گروپ کا کوئی کردار ہو۔ یہ تحقیق ابھی شروعات میں ہے لیکن ایک آدھ سال میں ہمارے پاس اس موضوع پر بھی کافی معلومات اکٹھی ہو جائیں گی۔

 

یہ انٹرویو ورلڈ اکنامک فورم کی ویب سائٹ پر چھے اپریل دو ہزار بیس کو شائع ہوا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لئے کلک کریں۔

ترجمہ: محمد بلال

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech