اب تک ہم یہ جان چکے ہیں کہ ویکسین کے تصور کی ابتداء کیسے ہوئی، ہمارا مدافعتی نظام کیسے کام کرتا ہے اور ویکسینز کیا ہیں کیسے تیار کی جاتی ہیں اور اس اعتبار سے ان کی کون کون سی اقسام ہیں۔ اب ہم بات کریں گے کورونا کے خلاف دوا اور ویکسین کی تیاری کے لئے ہونے والی تحقیقات اور کوششوں کے بارے میں۔ کورونا وائرس کی ساخت کو سمجھے بغیر اس کے خلاف علاج یا بچاؤ کی بات کرنا ناممکن ہے اس لئے پہلے وائرس کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ آپ سبھی کورونا وائرس کے حوالے سے بنیادی معلومات سے آگاہ ہونگے کہ یہ وائرسوں کے کورونا خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس خاندان کے رکن وائرس تقریباً سارے ہی مختلف جانوروں میں پائے جاتے ہیں ۔ اس وائرس خاندان کو کورونا کا نام اس کی بیرونی ساخت کی وجہ سے دیا گیا ہے جو برقی خوردبین میں تاج کے جیسی دکھتی ہے اور باعث کراؤن سے کورونا کا نام رکھا گیا۔
حالیہ وائرس کو ‘سارس کو وی -2 ‘ کا نام دیا گیا ہے، اسے آپ سارس وائرس کے سلسلے کی تیسری کڑی کہہ سکتے ہیں ۔ اس سلسلے کا پہلا وائرس ‘سارس کو وی ‘ اکیسوی صدی کی آغاز میں پھیلا تھا ۔ دوسری کڑی میرس کو وی وائرس تھا جو کہ مشرق وسطیٰ میں اونٹوں سے انسانوں میں آیا تھا اور سانس کی بیماریوں کا باعث بنا۔ سارس کو وی -2 ، سارس کو وی کی طرح چین میں پھیلنا شروع ہوا اور اب تک کی تحقیق کے مطابق امکان یہی ہے کہ یہ وائرس چمگادڑوں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے مگر اس منتقلی کے دوران دیگر جانوروں کی موجودگی کو بھی خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ تو تھا اس وائرس کا تعارف ، اب آتے ہیں اس کی ساخت پر۔ اس وائرس کا جنیاتی مادہ رائیبو نیوکلیک ایسڈ (آر این اے) کی اکلوتی مثبت لڑی پر مشتمل ہے۔ اس لڑی پر اس کی جینز موجود ہوتی ہیں جو کہ مختلف پروٹینز بناتی ہیں ۔ ان میں سے 4 پروٹینز ایسی ہیں جو کہ وائرس کی ساخت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں یہ ایس (سپائیک )، ای (انویلپ)، ایم (میمبرین) اور این (نیوکلیو کیپسڈ) پروٹینز ہیں۔ یہ ایس (سپائیک ) پروٹین ہی ہے جو کہ تاج نما شکل دیتی ہے اس وائرس کو جیسا کہ آپ زیرِ نظر تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔
تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ وائرس کے ہمارے جسم کے خلیات میں داخل ہونے میں ایس (سپائیک ) پروٹین کا کردار سب سے اہم ہے ۔ جیسے چابی کی مدد سے تالا کھولا جاتا ہے ایسے ہی ایس پروٹین انسانی خلیات کی سطح پر موجود مخصوص پروٹینز کے ساتھ رابطہ قائم کر کےوائرس کے جنیاتی مادے آر این اے کو خلیہ کے اندر داخل ہونے کا انتظام کرتا ہے۔ اس پروٹین کو وائرس کے خلاف دوا اور ویکسین دونوں کا ہدف بنا کر نا صرف ہمارے خلیات کو وائرس کے حملے سے محفوظ کیا جا سکتا ہے بلکہ وائرس کے پھیلاؤ کو بھی محدود کرنے کے امکانات ہیں۔
ایس پروٹین کے ساتھ ساتھ ای (انویلپ) اور ایم (میمبرین) پروٹینز بھی وائرس کی بیرونی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔ ان دونوں پروٹینز کو بھی ویکسین کے ہدف کے طور پر آزمایا جا سکتا ہے۔ ان دونوں پروٹینز کی سطح پر موجودگی انہیں ہمارے مدافعتی نظام کے لئے آسان ہدف بنا دیتی ہے کیونکہ ہمارا مدافعتی نظام کسی بھی بیمار کرنے والے جسم یا شے کی بیرونی ساخت کو زیادہ آسانی سے شناخت کر لیتا ہے۔ اگر ان دونوں ای اور ایم پروٹینز اور ساتھ ساتھ ایس پروٹین میں ہمارے مدافعتی نظام کو جگانے کی صلاحیت موجود ہو تو ان کو استعمال کرتے ہوئے ویکسین بنائی جا سکتی ہے۔
تو جناب یہ تو تھا اس وائرس کا بنیادی تعارف اور اس کی ساخت و خدوخال ، اب باری آتی ہے ویکسین بنانے کی کوششوں کی ۔ یہاں میں ایک اجمالی جائزہ اور خلاصہ پیش کروں گا کہ ابھی تک کی ہونے والی تحقیقات میں کیا کیا نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی کوشش میں پورے کے پورے وائرس کو ہی ویکسین کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کے دو طریقے ہیں، جو کہ پچھلے مضمون میں ویکسین کی اقسام بیان کرتے ہوئے بتا چکا ہوں۔ اس قسم کی ویکسین میں زندہ یا مردہ وائرس کو ہر دو شکلوں میں ایسے تیار کیا جاتا ہے کہ وہ انفیکشن کرنے کے قابل نہ رہے۔ اس کے کئی طریقے ہوتے ہیں، مارنے کے لئے عموماً حرارت یا مختلف کیمیائی اجزاء وغیرہ استعمال کئے جا سکتے ہیں، جبکہ زندہ وائرس کے جنیاتی مادے (یعنی کورونا کے آر این اے) میں ایسی تبدیلیاں کردی جائیں کہ وہ اپنی افزائش یا انفیکشن کے قابل ہی نہ رہے۔دوسرا طریقہ وائرس کے (ایک یا کئی )پروٹینز کو بطور ویکسین ٹیسٹ کرنا ہے ۔ یہ طریقہ زندہ وائرس کے استعمال کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہوتا ہے ۔ ایسی طرح تیسرا طریقہ جو کہ نسبتاً سب سے زیادہ محفوظ سمجھا جا تا ہے وہ وائرس کے پروٹینز میں سے بھی صرف وہ حصے ڈھونڈ کے ٹیسٹ کرنا جو سب سے زیادہ مؤثر ہوں، ان کو بطور ویکسین جانچنا ہے۔
ویکسین کی بات تو ہم نے کر لی ، اب باری ہے کورونا کے خلاف دوا بنانے کی۔ دوا کا معاملہ جہاں دوا دریافت کرنا ایک طرف جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے نہایت آسان ہے، وہیں اس دریافت شدہ تریاق کے انسانی جسم پر پڑنے والے اثرات کو استعمال سے پہلے سمجھ لینا اتنا ہی پیچیدہ ہے۔ آپ سبھی جانتے ہوں گے کہ ادویہ کے سائڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں یہ مہینوں ، برسوں کی تحقیقات کے بعد معلوم کئے جاتے ہیں اور ہر مرحلے پر بھر پور کوشش کی جاتی ہے کہ ان سائڈ ایفیکٹس کو کم سے کم کیا جا سکے۔ اس وقت جب کہ میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں فارمیسیز سے ضدِ ملیریا دوا ہائڈروکسی کلوروقوینین تقریباً غائب ہی ہو چکی ہے کہ اس کو کورونا کے علاج میں مؤثر پایا گیا ہے۔ ابتدائی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہائڈروکسی کلوروقوینین، ایس پروٹین کے کام میں رکاوٹ ڈالتی ہے اور وائرس کے ہمارے جسم میں داخلے کو روکنے میں اپنا کردار رکھتی ہے ۔ لیکن اس دوا کے کورونا کے خلاف اثرات کو ابھی تک جانوروں یا انسانوں میں ٹیسٹ نہیں کیا گیا ہے ، اور ساتھ ساتھ یہ بات بھی جان لیں کہ ہائڈروکسی کلوروقوینین بذاتِ خود اگر بے احتیاطی سے استعمال کی جائے تو اس کی اوور ڈوز جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اگر کسی کو خدا نخواستہ کورونا کا انفیکشن ہو جاتا ہے تو ڈاکٹر سے رجوع کئے بغیر ٹافیاں سمجھ کے اس دوا کو پھانکنا نہ شروع کر دیجیئے گا۔
بزرگوں نے اردو کی ایک کہاوت میں نیم حکماء کو خطرہِ جان کہا ہے اور آج کل تو خیر سے ساری قوم ہی نیم حکیم، نیم ڈاکٹر اور نیم سائنسدان بنی ہوئی ہے۔ جی ہاں میں بات کر رہا ہوں اپنے ‘امیون سسٹم’ کو “بوسٹ” کرنے والے نسخوں کی۔ ان گزرے چھ سات دنوں میں بیسیوں لوگوں نے مجھے طرح طرح کے نسخے واٹسایپ، ایس ایم ایس، فیسبک پر بھیجے ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے میں اپنے امیون سسٹم کو ‘سوپرمین’ بنا سکتا ہوں۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ ایک بات جان لیجیئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک خاص توازن کے ساتھ بنایا ہے اور اس توازن میں کی جانے والی چھیڑ چھاڑ کبھی کوئی خاص فائدہ مند نہیں ہوتی ہے۔ جیسا کہ اپنے پچھلے مضمون میں عرض کر چکا ہوں کہ ہمارا مدافعتی نظام فوج کی طرح ہوتا ہے اس میں ہماری فوج کی طرح رینجرز بھی ہوتے ہیں، انفینٹری بھی، آرمڈ بھی اور ایس ایس جی کمانڈوز بھی۔ عام طور پر مدافعتی نظام کی صلاحیت کو بڑھانے کا مطلب یہ سمجھا جا تا ہے کہ خون کی تمام سفید خلیوں کی تعداد بڑھا دی جائے، کہ جتنے زیادہ مدافعتی خلیات ہونگے اتنا زیادہ جلدی کسی بھی انفیکشن کو قابو کیا جا سکے گا۔ یہاں ایک بات جاننا ضروری ہے کہ کوئی بھی وائرس یا جراثیم اتنا بھی بیوقوف نہیں ہوتا ہے جتنا کہ اسے ہم سمجھتے ہیں، ان وائرسوں کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ کروڑوں مدافعتی خلیات کی موجودگی میں وہ براہ راست ان سے لڑ نہیں سکتے ہیں جبکہ ہمارا مدافعتی نظام گھنٹوں کے اندر اندر اپنی پوری طاقت کے ساتھ کسی بھی جراثیم یا وائرس کے خلاف عمل میں آنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمیں بیمار کرنے والے وائرسز اور دیگر جراثیم ہمارے مدافعتی نظام کا سامنا کرنے کی بجائے اس سے چھپ کر اپنی افزائش پر توجہ دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔اسی طرح کورونا وائرس بھی ہمارے مدافعتی نظام سے براہ راست ٹکرانے کی بجائے ہمارے پھیپڑوں کے خلیات میں ایک طرف تو چھپ کر اپنی افزایش کر نے میں مصروف ہوتا ہے تو دوسری جانب وہ ہمارے مدافعتی نظام کے کمیونیکیشن نیٹ ورک کو ہیک کرنے میں لگا ہوا ہوتا ہے۔ تصور کیجیئے کہ حالتِ جنگ میں دشمن کسی فوج کا پیغام رسانی کا نظام ہیک کرلے تو کیا نتیجہ نکلے گا، یقیناً دشمن تو نہیں پکڑا جا سکے گا نہ اسے شکست دی جاسکے گی، لیکن ہونے والے نقصان کا اندازہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔
کورونا وائرس یہی کرتا ہے اور سانس میں دشواری درحقیقت ہمارے پھیپڑوں کو ہمارے ہی مدافعتی نظام سے پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اب خود جواب دیجیئے اگر آپ نے ان ٹوٹکوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے امیون سسٹم کو “بوسٹ’ کرلیا تو کیا نتیجہ نکلے گا، سوچیئے۔
چاہے یہ بات ذہن نشین کرنا کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو حقیقت یہی ہے کہ اس وباء میں آپ کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، صرف گھر میں رہیں ، کوئی نسخہ، کوئی ٹوٹکا کرنے کا فائدہ نہیں ہے، اپنے ہاتھ باقاعدگی سے اور اچھی طرح دھوئیں، منہ، آنکھ ، ناک کو ہاتھ نہیں لگائیں، اگر ممکن ہو تو تازہ پھلوں کے رس استعمال کریں اور اللہ تعالیٰ سے خیر کی دعا کریں۔ اگر آپ نے خود اور اپنے گھر والوں سے یہ کام کروا لئے تو یقین جانئیے آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔
مانا کہ ہمارے ‘قومی مزاج کے خلاف’ ہے ،لیکن صاحب کوشش تو کیجیئے کچھ نہ کرنے کی۔