بات وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے ٹوٹی تھی، اگر یہ میوٹیشنزصرف تکا بازی کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوتی ہیں تو پھر خطرناک اقسام ہی کیوں ‘سلیکٹ’ ہوتی ہیں یا زیادہ پھیلتی ہیں؟

 اس سوال کا جواب جاننے کے لئے ہمیں وائرس اور اس کے میزبان (یعنی ہمارے) درمیان جاری انٹرایکشن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کورونا سمیت کسی بھی وائرس کو اپنے میزبان کے مدافعتی نظام سے بچ بچا کر اس کے خلیات میں داخل ہونا ہوتا ہے۔ ایک بار داخل ہو جائے تو پھر وائرس کثیر تعداد میں اپنی اولاد پیدا کرنے کے عمل میں مصروف ہوجاتا ہےجس کے لئے وہ اپنے میزبان کے خلیے کی مشینری کا کنٹرول سنبھال لیتا ہے، اس ‘ٹیک اوور’ کے نتیجہ میں خلیہ اپنے روٹین کے افعال کی انجام دہی سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس دوران نئے بننے والے وائرس متاثرہ خلیہ سے نکل کر آس پاس کے صحت مند خلیوں کو نشانہ بنانے لگتے ہیں اور یوں ہم خود کو بیمار محسوس کرنے لگتے ہیں۔

مضمون کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں

مضمون کا دوسرا حصہ یہاں پڑھیں

مضمون کا تیسرا حصہ یہاں پڑھیں

اس تمام عمل کو اختصار کے ساتھ تین بنیادی مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

  • میزبان کے مدافعتی نظام سے خود کو محفوظ رکھنا
  • میزبان کے خلیوں میں کامیابی کے ساتھ داخل ہونا
  • خلیہ کی مشینری پر موثر قابو اور کثیر تعداد میں اپنی افزائشِ نسل

آئیے ان تمام مراحل کا باری باری جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اگر ان میں کوئی میوٹیشن آجائے تو کیا ہوگا؟

  1. میزبان کے مدافعتی نظام سے اپنی حفاظت

تصور کریں کہ ایک متاثرہ خلیے سے  تین عدد نوزائیدہ وائرس  باہر نکلے ہیں اور ان کی منزل پڑوس میں موجود صحت مند خلیے ہیں۔ اب یہ ٹہلتے ٹہلتے تو اپنے ٹارگٹ تک تو نہیں جاسکتے ہیں، کیونکہ میزبان کا مدافعتی نظام ان بن بلائے عذابِ جان مہمانوں کی تاک میں سرگرم ہے اور ایک مخبری کی مدد سے وہ جانتا ہے کہ جسم میں داخل ہونے والا ابتدائی وائرس کس شکل و صورت کا تھا۔

کورونا وائرس کی نئی اقسام کا انتخاب کون کرتا ہے؟ (آخری حصہ) 1

ان تین وائرسوں میں سے ایک تو بالکل اپنے جدِ امجد کی شکل کا ہے یعنی کہ اس کی بیرونی سطح پہ موجود پروٹینز میں کوئی میوٹیشن نہیں ہے، جبکہ باقی کے دونوں وائرس اپنے اند رمیوٹیشنز رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان دونوں کے بیرونی پروٹینز کی شکل میں تبدیلیاں آچکی ہیں۔ ان میں سے ایک کے پروٹینز ابتدائی وائرس کی نسبت بہت زیادہ پوشیدہ ہیں جبکہ دوسرے کے بہت زیادہ ظاہر۔

یہاں میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہوں گا کہ مدافعتی نظام (جس کے پاس مخبری کی بنیاد پہ وائرس کی شکل و صورت کے بارے میں معلومات موجود ہیں) کے لئے ان تینوں وائرسوں میں سے کونسا زیادہ آسان شکار ثابت ہوگا  اور کونسا لوہے کا چنا؟

1۔ وہ وائرس جس میں کوئی میوٹیشن نہیں ہے اور وہ اپنے والدین کی ہوبہو کاپی ہے

2۔ وہ جو اپنی حفاظت سے بے پرواہ کھلم کھلا اپنے پروٹینز کی نمائش کر رہا ہے

3۔ وہ جس نے خود کو پہلے کی نسبت زیادہ پوشیدہ اور چھپا کر رکھا ہوا ہے

جی ہاں بالکل سیدھی سی بات ہے کہ پہلے دو وائرسوں کے مقابلے میں تیسرا وائرس مدافعتی نظام سے بآسانی بچ کر آس پاس کے خلیات کو متاثر کرے گا جبکہ پہلے دونوں کو مدافعتی نظام آرام سے شاخت کرلے گا اور یہ بیچارے

اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

والی کیفیت سے دوچار ہو جائیں گے۔

  1. خلیہ کے اندر داخلہ

ہمارا ننھا منا سا جاسوس نما وائرس مدافعتی نظام سے تو بچ گیا لیکن ابھی اس کا کام ختم نہیں ہوا۔ اس کو ابھی اگلے خلیہ میں خاموشی کے ساتھ داخل ہونے کا مرحلہ عبور کرنا ہے۔ پچھلے مرحلے پہ ہم نے بات کی تھی وائرس کی بیرونی سطح پہ پائے جانی والی پروٹینز کی جن کی مدد سے مدافعتی نظام وائرس کی شناخت میں مصروف ہوتا ہے۔ ان پروٹینز کا اصل کام چابی کا ہوتا ہے، ایسی چابی جو کہ وائرس کے لئے خلیے کی سطح پہ موجود دروازوں میں لگے تالوں  کو کھول کر وائرس کو اندر داخل ہونے دے (کورونا وائرس کے لئے چابی کا کام اس کی سطح پہ موجود ایس پروٹین کرتا ہے)۔

  کورونا وائرس کی نئی اقسام کا انتخاب کون کرتا ہے؟ (آخری حصہ) 2

اب اس مرحلے پہ اس نئے وائرس کے تبدیل شدہ پروٹینز خود کو چھپاتے چھپاتے اگر اپنا اصل کام ہی بھول گئے  ہوں تو پھر ظاہر سی بات ہے کہ وائرس خلیہ کے درودیوار پہ اپنا سر پٹکتا پٹکتا بے مراد ہی رہ جائے گا۔ چلیے یہاں بھی پچھلی والی مشق دہراتے ہیں۔ ہمارے پاس پھر سے تین نئے وائرس خلیہ کے باہر کھڑے اندر داخل ہونے کو بیتاب ہیں:

کورونا وائرس کی نئی اقسام کا انتخاب کون کرتا ہے؟ (آخری حصہ) 3

1۔ پہلا وائرس وہ ہے جس کا ایس پروٹین بغیر کسی میوٹیشن کے اپنی اصل حالت میں موجود ہے

2۔ دوسرا وائرس وہ ہے جس نے مدافعتی نظام سے خود کو بچانے کے لئے اپنے ایس پروٹین کی ساخت بالکل ہی تبدیل کرلی ہے

3۔ تیسرے وائرس میں ان دونوں کے مقابلے میں ایسی میوٹیشن ہوئی کہ جس نے نہ صرف اسے مدافعتی نظام سے بچائے رکھا بلکہ اس کے ایس پروٹین میں ‘ماسٹر کی’ جیسی خاصیت پیدا کردی ہے، یعنی اب یہ وائرس زیادہ سہولت کے ساتھ خلیوں کے اندر داخل ہو سکتا ہے

کورونا وائرس کی نئی اقسام کا انتخاب کون کرتا ہے؟ (آخری حصہ) 4

بتائیے ان تینوں میں سے کونسا وائرس زیادہ سے زیادہ خلیات کا شکار کرپائے گا؟ صاف ظاہر ہے کہ یہاں بھی تیسرا وائرس ہی زیادہ کامیاب ہوگا۔

  1. خلیہ کی مشینری پہ مؤثر قابو اور افزائشِ نسل

محض خلیہ کے اندر داخل ہوجانا ہی وائرس کی حتمی منزل نہیں ہوتی بلکہ اسے اس نئے خلیے کے نظام اور اس کی مشینری پہ قابو بھی پانا ہےتاکہ وہ اپنی افزائشِ نسل کر سکے۔ اس مرحلے پر وائرس میں ہونے والی میوٹیشنز کو چار پیمانوں میں تولا جا سکتا ہے:

کورونا وائرس کی نئی اقسام کا انتخاب کون کرتا ہے؟ (آخری حصہ) 5

1۔ وائرس جس میں قابو پانے اور افزائشِ نسل کی صلاحیت میں کوئی فرق نہیں

2۔ میوٹیشن کے باعث قابو پانا تو آسان ہے مگر افزائش مشکل ہوگئی ہے

3۔ میوٹیشن کے باعث افزائش ِ نسل کی صلاحیت تو ٹھیک ہے مگر خلیہ پہ قابو تھوڑا مشکل ہوگیا ہے

4۔ نئی میوٹیشن کے باعث افزائش کی رفتار بھی بڑھ گئی ہے اور ساتھ ہی خلیہ پہ قابو بھی آسانی کے ساتھ پایا جا سکتا ہے

تو بتائیے آپ کے خیال میں اب اس آخری مرحلےمیں کون کونسے وائرس کامیاب ہو سکیں گے؟ آسان جواب ہے کہ دوسرا ور تیسرا وائرس تو بالکل ہی کام نہیں کر سکیں گے، جبکہ پہلا وائرس اگرچہ اپنی افزائشِ نسل میں مشغول ہوگا لیکن اس کے مقابلے میں چوتھا وائرس اپنی میوٹیشن کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ اولاد بنانے اور پھیلانے میں کامیاب ہوگا۔

یہ ہلکی پھلی سی مشق آپ کو یہ سمجھاتی ہے کہ نئے بننے والے وائرسوں کو ہر مرحلے پہ ایسے امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے اور ہر بار وہی وائرس کامیاب و کامران ہوتا ہے جو کو باقیوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہو۔ ان تمام مراحل پہ ایک دو یا چند نہیں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں وائرسز ہوتے ہیں اور ان میں سے چند ایسے ہوتے ہیں جو کہ گویا بھٹی سے گزر کر کندن بنتے ہیں،  یعنی سینکڑوں ہزاروں وائرسوں میں سے ایک یا چند ہی قدرتی طور پر منتخب  ہوتے ہیں۔ اس اصطلاح  ‘قدرتی انتخاب’ کا اگر انگریزی میں ترجمہ کیا جائے تو Natural Selection بنتا ہے۔

اس وقت جتنی بھی کورونا وائرس کی اقسام ہیں وہ سب اسی طرح کے امتحانوں سے گزر کر وجود میں آئی ہیں۔ اگر آپ ان کا بغور جائزہ لیں تو آپ کو ان تمام اقسام میں ان  تینوں قسم کی میوٹیشنز یا کم از کم ان میں سےکوئی  ایک قسم کی میوٹیشن تو لازمی ملے گی۔  اس وقت جبکہ میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں میرے سامنے سائنسی جریدے نیچر میں چھپا تحقیقی مقالہ موجود ہے جس میں سائنسدانوں نے  بھارت میں دریافت ہونے والی ڈیلٹا قسم کے بارے میں تحقیق سے جانا ہے کہ ڈیلٹا ویرئینٹ میں موجود ایس پروٹین کی میوٹیشنز اس وائرس کو ہمارے مدافعتی نظام سے بچاتی ہیں اور اس طرح اس کے تیز تر پھیلاؤ  کا سبب بھی ہیں۔

(اس تحقیقی مقالے کو آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں  https://www.nature.com/articles/s41586-021-03777-9)

ڈارون کے نظریہ ارتقاء میں اس امر کو Natural Selection  (قدرتی انتخاب) اور Survival of the fittest (بہترین کی بقا) کہا جاتا ہے، یعنی بدلتے ماحول اور حالات کے ساتھ جو جاندار خود کو ڈھال نہیں سکتے وہ اپنے مدمقابل سے ہار جاتے ہیں اور ان کے مقابلے میں صرف وہ جاندار جو اپنے آپ کو ہمہ وقت  اپنے حالات سے ہم آہنگ رکھتے ہیں وہ اپنے مدمقابل سے ہمیشہ ایک قدم آگے ہوتے ہیں۔

بالفاظِ دیگر کورونا کی نت نئی اقسام کے وجود میں آنے کا واحد سبب حیاتیاتی ارتقاء ہے۔

 

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.