کچھ دن پہلے غزہ سے تعلق رکھنے والی بیسان عودہ کی ایک دل دہلا دینے والی ویڈیو سامنے آئی۔ اس میں وہ رفاح کی تباہی کے بعد ایک خستہ حال مکان کی چھت سے اردگرد پھیلے کھنڈرات کا منظر دکھا رہی تھیں۔ اسی دوران انہوں نے بتایا کہ جس چھت پر وہ کھڑی ہیں، اسے اسرائیلی نشانہ باز معصوم فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ وہ دکھاتی ہیں کہ پوری چھت خالی کارتوسوں اور بموں کے خولوں سے بھری پڑی تھی۔ وہاں کوکا کولا کے خالی کین بھی موجود تھے۔ بیسان نے دیکھنے والوں سے التجا کی کہ یہ منظر کبھی نہ بھولیں کہ جب اسرائیلی فوجی بچوں، عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں پر نشانہ بازی کی مشق کر رہے تھے، عین اسی وقت وہ کوکا کولا سے لطف اندوز بھی ہو رہے تھے۔ انہوں نے پرزور درخواست کی کہ کوکا کولا کا بائیکاٹ کیا جائے۔

یہاں ایک سوال فوراً ذہن میں آتا ہے کہ اگر کوئی فوجی اپنی ذاتی جیب سے کوکا کولا خرید کر پیتا ہے تو اس میں کمپنی کا کیا قصور ہے؟ اس کا بائیکاٹ کیوں کیا جائے؟ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ کوکا کولا اور اس جیسی دیگر ملٹی نیشنل کمپنیاں نہ تو براہ راست اسرائیل کی ملکیت ہیں اور نہ ہی لازمی طور پر یہودی ان کے مالک ہیں۔ تو پھر ان کے بائیکاٹ کا جواز کیا ہے؟ میں آسانی سے ملنے والی، اچھی کوالٹی یا قیمت والی چیزیں چھوڑ کر متبادل کی طرف کیوں جاؤں؟

جواب یہ ہے کہ یہ کمپنیاں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ اہم نکتہ یہ نہیں کہ ان کمپنیوں کے مالک کون ہیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ ان عالمی قوانین کو پامال کر رہی ہیں جو مقبوضہ علاقوں کے حوالے سے بنائے گئے ہیں، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ قوانین اکثر انہی مغربی طاقتوں کے وضع کردہ ہیں۔ قانون واضح ہے کہ اگر کوئی علاقہ عالمی سطح پر مقبوضہ تسلیم کیا جاتا ہے، تو وہاں کوئی بھی کمپنی سرمایہ کاری نہیں کرے گی اور نہ ہی سہولیات فراہم کرے گی تاکہ قابض قوت پر دباؤ پڑے اور وہ قبضہ ختم کرنے پر مجبور ہو۔ لیکن یہ کمپنیاں جان بوجھ کر، پوری ڈھٹائی سے اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کی دھجیاں اڑاتی ہیں اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی طور پر بسائی گئی یہودی بستیوں میں آباد کاروں کو بھرپور سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ ان میں روزگار کے مواقع دینا، انفرا سٹرکچر بنانا، تعلیم اور صحت کے وسائل مہیا کرنا، قیام و طعام، تفریح اور ٹیکنالوجی سے متعلق خدمات دینا اور عمومی طور پر معیار زندگی بہتر بنانا شامل ہے۔ ہر کمپنی کسی نہ کسی صورت یہ سب کر رہی ہوتی ہے۔ یہ عمل نہ صرف قبضے کو مستحکم کرتا ہے بلکہ اسے معمول کی کارروائی کے طور پر پیش کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ اسی لیے ان کمپنیوں کا بائیکاٹ ضروری سمجھا جاتا ہے جو مقبوضہ علاقوں میں کاروبار کر کے قابض قوت کی معاونت کرتی ہیں۔

اسرائیل دنیا بھر سے یہودیوں کو یہ کہہ کر فلسطین میں قبضے کی ترغیب دیتا ہے کہ “ہم نے یہ ملک جنت بنا دیا ہے، یہاں آ کر آباد ہو جاؤ۔” ظاہر ہے، کوئی بھی شخص بہتر سہولیات والے علاقے کو چھوڑ کر کم سہولیات والی جگہ پر جانا پسند نہیں کرتا۔ اسی لیے اسرائیل ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ مقبوضہ علاقوں سمیت پورے اسرائیل میں اعلیٰ معیار زندگی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی مصنوعات اور خدمات فراہم کریں۔ نتیجتاً، بہت سی ایسی سہولیات جو خود یورپ اور امریکہ میں عام آدمی کو میسر نہیں، وہ اسرائیل میں دستیاب ہیں، جس سے قبضے کو مزید پرکشش بنایا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ساٹھ فیصد سے زیادہ قابضین کو ساری زندگی یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ مقبوضہ علاقے میں ہیں اور کسی دوسرے کی زمین پر ناجائز رہ رہے ہیں۔

مزید براں، یہ کمپنیاں بعض اوقات اپنی مارکیٹنگ کے لیے جنگ اور تشدد کے ماحول سے بھی فائدہ اٹھاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، حالیہ جنگ شروع ہونے پر کچھ کمپنیوں نے اسرائیلی فوجیوں کے لیے مفت خوراک اور مشروبات فراہم کرنے کا اعلان کیا، جو کہ کھلم کھلا جارحیت کی حمایت کے مترادف ہے۔

مقامی صنعتوں اور تحقیق کی تباہی کا ذمہ دار کون؟

عالمی کمپنیوں کا اثر و رسوخ صرف مقبوضہ علاقوں تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ یہ ترقی پذیر ممالک کے اندرونی معاملات پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔اپنی اجارہ داری بنائے رکھنے کے لیے وہ مختلف حربے استعمال کرتی ہیں جیسے :

  • ٹیکس چھوٹ یا قوانین میں نرمی حاصل کرنے کے لیے سرمایہ کاری واپس لینے یا نہ کرنے کی دھمکی دینا (جیسے پرائیویٹ بجلی مہیا کرنے والی کمپنیاں)۔
  • آئی ایم ایف/ورلڈ بینک جیسے اداروں کے ذریعے قرضوں کے ساتھ اپنی پسند کی شرائط (نجکاری، ڈی ریگولیشن) منسلک کروانا (یہ شاید سب سے عام حربہ ہے جو لوگوں کے علم میں ہے)۔
  • پیسے اور اثر و رسوخ سے مقامی (ٹیکس، ماحولیاتی، مزدوری) قوانین کو اپنے حق میں تبدیل کروانا، اور اس کے لیے رشوت اور سیاسی دباؤ کو عوامی مفاد کے خلاف استعمال کرنا (جیسے تمباکو اور دوا ساز کمپنیاں)۔
  • تجارتی معاہدوں کی آڑ میں عوامی مفاد کی پالیسیوں پر حکومتوں کے خلاف اربوں ڈالر ہرجانے کے مقدمے کرنا یا اس کا خوف دلا کر پالیسی سازی کو روکنا (جیسے ریکوڈک کے معدنیات کا کیس)۔
  • رشوت یا دیگر فوائد کے عوض مقامی طاقتور اشرافیہ سے مل کر غیر منصفانہ ٹھیکے، وسائل تک رسائی اور قوانین سے استثنیٰ حاصل کرنا (رینٹل پاور پراجیکٹس، پانی اور معدنیات پر قبضہ کرنے والی کمپنیاں)۔

اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ میں جس علاقے میں رہتا ہوں وہاں انٹرنیٹ فراہم کرنے والا لوکل کیبل آپریٹر، قومی ادارے پی ٹی سی ایل کے ملازمین کو گن پوائنٹ پر دھمکا کر اور ان کی تاریں کاٹ کر اپنا کاروبار چلاتا ہے، اور ریاستی ادارے اس ایک فرد کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ تاہم اگر کوئی شخص یا گروہ کسی غیر ملکی ادارے کو اس طرح دھمکانے کی جرات کرےتو یقینا پوری ریاستی مشینری ان غیر ملکی کمپنیوں کو تحفظ اور سہولیات فراہم کرنے پر مرکوز ہو جاتی ہے، جبکہ مقامی صنعت اور ادارے نظر انداز ہوتے ہیں۔ جو پولیس پورے ملک میں غیر ملکی کمپنیوں کو سیکیورٹی دے سکتی ہے، وہ ایک مقامی بدمعاش کے آگے بے بس کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ ریاستی ترجیحات اکثر غیر ملکی سرمائے کے تحفظ کی طرف مائل رہتی ہیں، جس سے مقامی اداروں کا معیار بہتر نہیں ہو پاتا۔ سٹریٹ کرائمز کو روکنے کے لیے تو پولیس دستیاب نہیں ہے لیکن ان کمپنیوں کی سیکیورٹی کے لیے پولیس ضرور تعینات کی جا سکتی ہے۔

یہ صورتحال مقامی تحقیق و ترقی (R&D) کے لیے بھی مہلک ثابت ہوتی ہے جس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ ڈاکٹر شیخ ریاض الدین نے لاہور میں سینٹر فار ایکسیلنس ان مالیکیولر بائیولوجی میں ہیپاٹائٹس کے علاج کے لیے مقامی طور پر انٹرفیرون تیار کی، لیکن بین الاقوامی دوا ساز کمپنیوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے انہیں اپنی دوا کے ٹرائل کی اجازت نہیں مل سکی۔ الٹا ان کے اوپر کرپشن کے کیسز بنا کر پراجیکٹ کو روک دیا گیا اور قیمتی انجیکشنز ضائع کر دیے گئے۔ محققین نے ذاتی طور پر دوا کا تجربہ اپنے اوپر کر کے اس کی افادیت بھی ثابت کی لیکن بات اس سے آگے نہ بڑھی۔ متعلقہ اداروں میں بیٹھے اہلکاروں کا معیار صرف یہ ہے کہ اگر کسی دوا کو مغربی ممالک میں منظوری ملی ہے، تب ہی اسے پاکستان میں اجازت دی جائے گی (کیونکہ ہمارے پاس اس کی افادیت جانچنے کے لیے نہ ٹیکنالوجی ہے نہ اہلیت)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کوئی چیز خود بنا بھی لیں تو اسے اپنے ہی ملک میں استعمال نہیں کر سکتے۔ نتیجتاً، سینکڑوں پروٹینز، ویکسینز، اور دیگر بائیو ٹیکنالوجی کی پراڈکٹس صرف پی ایچ ڈی کے مقالوں تک محدود رہ جاتی ہیں اور ان کی تیاری میں لگنے والا سارا پیسہ اور مہارت ضائع جاتی ہے۔ اس طرح کی درجن بھر مثالیں تو میرے ذاتی علم میں ہیں۔

میرے ایک ہونہار طالب علم نے دو سال قبل پاکستان یوتھ انوویشن ایوارڈ میں حصہ لیا۔ ہزاروں ٹیموں میں سے چوٹی کی سو ٹیموں میں منتخب ہوا حالانکہ وہ اپنی عمر کے لحاظ سے ان سب سے چھوٹا تھا۔ اس نے کباڑ سے ایک سمارٹ ڈیوائس بنائی تھی اور اس فیلڈ میں اس کا علم بہت گہرا تھا۔ لیکن مقابلے کے آخری مرحلے میں ججوں نے اسے یہ کہہ کر باہر کر دیا کہ “تم یہ مت کہو کہ یہ ڈیوائس خود بنائی ہے، بلکہ باہر سے کوئی بنی بنائی ڈیوائس لے کر اس کی مارکیٹنگ کا پلان پیش کرو تو کامیابی کے امکان زیادہ ہیں۔” یہ واقعہ بھی اسی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جو مقامی ایجادات کے بجائے غیر ملکی مصنوعات کی مارکیٹنگ کو ترجیح دیتی ہے۔

اس کے برعکس اگر آپ نے دیکھنا ہو کہ غیر ملکی کمپنیوں کی عدم مداخلت کا مقامی صنعتوں پر کیا اثر ہوتا ہے تو آپ ایران میں دوا ساز کمپنیوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ عالمی پابندیوں کے تناظر میں ایران کو باہر سے ادویات خریدنے کی اجازت نہیں اور جو تھوڑا بہت زر مبادلہ ان کے پاس ہوتا بھی ہے تو وہ اس سے ادویات نہیں خرید سکتے۔ تاہم، اس بیرونی دباؤ نے ایران کو ایک غیر متوقع موقع بھی فراہم کیا: اپنی مقامی دوا ساز صنعت کو ترقی دینے کی شدید ضرورت کا احساس۔ اس مجبوری کے تحت، ایرانی حکومت، تحقیقی اداروں اور نجی شعبے نے دوا سازی میں خود انحصاری کے حصول کو اولین ترجیح بنایا۔ انہوں نے تحقیق و ترقی (R&D) میں بھاری سرمایہ کاری کی، مقامی سائنسدانوں اور انجینئرز کی حوصلہ افزائی کی، اور دوا سازی کے کارخانے قائم کیے۔ نتیجتاً، آج ایران اپنی ضرورت کی پچانوے فیصد سے زائد ادویات مقامی طور پر تیار کرتا ہے، جن میں بنیادی ادویات سے لے کر پیچیدہ بائیو ٹیکنالوجی پر مبنی ادویات اور ویکسینز تک شامل ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے عالمی وبا کے دوران کامیابی سے اپنی کووڈ-19 ویکسین بھی تیار کی جبکہ ہم بھیک کے لیے کبھی امریکہ کی طرف دیکھ رہے تھے اور کبھی چین کی طرف۔اسی طرح کے حالات ایران کی دفاعی صنعت کے بھی ہیں کہ ہم فضائیہ کے جہازوں کے لیے امریکی پرزوں کے محتاج ہیں جبکہ ایران اپنے طور پر جہازوں کے سپیئر پارٹس تیار کرتا ہے۔  یہ کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح بیرونی ناکہ بندی، اگرچہ مشکلات پیدا کرتی ہے، لیکن قومی عزم اور مربوط کوششوں کے ذریعے ایک ملک کو کلیدی شعبوں میں خود کفیل بنا سکتی ہے اور جدید مقامی صنعتوں کو فروغ دے سکتی ہے۔

بائیکاٹ کی سوچ دقیا نوسی اور ناقابل عمل ہے

ان حالات کی سنگینی کا اندازہ ایک اور وائرل ویڈیو سے لگایا جا سکتا ہے جس میں چار نہتے فلسطینی لڑکے ایک ساتھ جا رہے تھے۔ ایک ڈرون حملے میں دو وہیں ڈھیر ہو گئے۔ تیسرے زخمی کو چوتھا لڑکا اٹھا کر بھاگا۔ کچھ دور جا کر پیچھے رہ جانے والے زخمی نے آواز دی۔ وہ لڑکا اپنے زخمی ساتھی کو لینے واپس پلٹا، لیکن اسی لمحے ایک اور میزائل آیا اور وہ سب وہیں ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ یہ سوچ کر دل کانپ جاتا ہے کہ وہ اپنی جان بچا سکتا تھا، مگر اپنے ساتھی کے لیے واپس کیوں آیا؟ یہ انسانی ہمدردی اور قربانی کی وہ مثال ہے جو شاید ہم آرام دہ زندگیوں میں سمجھنے سے قاصر ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ تعاون اور قربانی کی ضرورت ہمیشہ مشکل حالات میں ہی پڑتی ہے۔ ہمارے حالات فلسطینیوں کے مقابلے میں کہیں بہتر ہیں، اسلیے ہم اپنی زبان کا ذائقہ یا معمول کی آسائش چھوڑنے کو تیار نہیں، اور اس کے لیے طرح طرح کی دلیلیں گھڑتے ہیں۔ جن مغربی ممالک کے عوام کے حالات ہم سے بھی بہتر ہیں، ان میں سے بہت سوں کو شاید اتنا احساس بھی نہ ہو، لیکن جنہیں ہوا ہے، وہ ہم سے زیادہ مؤثر احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ اپنی حکومتوں کے دباؤ، میڈیا کی یکطرفہ رپورٹنگ اور سماجی مشکلات کے باوجود سڑکوں پر ہیں، گرفتاریاں دے رہے ہیں، اور اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ ان کی حکومتیں ہماری حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہیں اور آواز کو زیادہ سختی سے دباتی ہیں، پھر بھی ان کا احتجاج جاری ہے۔

ہم میں سے اکثر کو شاید یہ بھی پوری طرح معلوم نہ ہو کہ بین الاقوامی فورمز پر اس مسئلے پر کن نکات پر بحث ہو رہی ہے۔ ہمارا ردعمل اکثر جذباتی اور سطحی ہوتا ہے، صرف اس لیے کہ ہم مسلمان ہیں اور فلسطینی بھی اکثریتی طور پر مسلمان ہیں۔ لیکن مغرب میں احتجاج کرنے والوں کی اکثریت پیدائشی طور پر فلسطین کی حامی نہیں تھی۔ انہیں بچپن سے اسرائیل کی حمایت اور فلسطین کی مخالفت کا سبق پڑھایا گیا تھا۔ میڈیا اور حکومتوں نے بھی یہی بیانیہ مضبوط کیا تھا۔ لیکن ان لوگوں نے حالات و واقعات دیکھ کر، حقائق جان کر اپنی رائے تبدیل کی، اپنے معاشرے اور دوستوں کی ناراضگی مول لی، نوکریوں سے نکالے گئے، مشکلات برداشت کیں، لیکن اپنی بات پر ڈٹ گئے۔ یہ ایک شعوری فیصلہ تھا، محض جذباتی ردعمل نہیں۔

اسلیے میرے خیال میں بائیکاٹ کی سوچ کو دقیانوسی یا غیر مؤثر کہنا درست نہیں۔ اول تو، خود غزہ کے مظلوم عوام، جیسے بیسان عودہ، ہم سے بائیکاٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسرا، دنیا بھر کی نامور یونیورسٹیوں کے طلباء، جن کے پاس ہم سے زیادہ معلومات اور صورتحال کا گہرا ادراک ہے، وہ بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ان بڑی کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز وہ لوگ جنہوں نے ضمیر کی آواز پر اپنی نوکریاں چھوڑ دیں، وہ بھی بائیکاٹ کی حمایت کر رہے ہیں۔

ہم اپنی روزمرہ زندگی میں معمولی ذاتی رنجشوں پر، چاہے وہ مسلکی (شیعہ-سنی)، نسلی (پنجابی – پٹھان – بلوچ – سندھی)، سیاسی (پٹواری-یوتھیا) یا محلے اور خاندان کی لڑائی ہو، عمر بھر کے لیے ایک دوسرے کا بائیکاٹ کر لیتے ہیں، شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ لیکن جب فلسطین کے لیے، انسانیت کے لیے، اور عالمی قوانین کی پامالی کے خلاف کھڑے ہونے کی بات آتی ہے تو ہمیں ہزار بہانے یاد آ جاتے ہیں۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ عام مارکیٹوں میں روزمرہ استعمال کی اشیا کے مقامی متبادل دستیاب نہیں۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ جب بائیکاٹ کی وجہ سے ایک بڑے مارٹ میں مقامی برانڈ (مثلاً شان نوڈلز) کا پوچھا گیا تو پہلے وہ دستیاب نہیں تھے، لیکن اگلے مہینے گاہکوں کے تقاضے پر انہیں وہ رکھنے پڑے۔ اسی طرح دیگر کئی مصنوعات کے ساتھ ہوا کہ مقامی متبادل کو جگہ ملنا شروع ہوئی اور کم از کم مقابلے کی فضا ضرور پیدا ہوئی۔ یہ کمپنیاں دس دس، بیس بیس روپے کر کے بھی پاکستان جیسے غریب ممالک سے کروڑوں ڈالر سالانہ منافع کی صورت میں لے جاتی ہیں۔ اصل دباؤ اس وقت پڑے گا جب گاہک دکان پر جا کر چیزیں واپس کر کے کہیں گے کہ “اس صابن کے بجائے فلاں مقامی صابن دو، اس کیچپ کے بجائے دوسرا والا دو۔” تب دکاندار مجبور ہو گا کہ وہ سپلائر کو کہے کہ آئندہ یہ والی چیز کم لائے۔ دکاندار گاہک کی ڈیمانڈ پوری کرنے پر مجبور ہوتا ہے، اس لیے اسے ہر کمپنی کی چیز رکھنی پڑتی ہے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے ہر سطح پر قربانی دینی ہوگی۔ گھر میں استعمال کرنے والے کو اپنی پسند بدلنی ہوگی، دکاندار کو شاید کچھ منافع پر سمجھوتہ کرنا پڑے، سپلائر کو اپنی حکمت عملی بدلنی ہوگی، تب جا کر اصل منافع کمانے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو احساس ہوگا کہ انہیں اپنا طرز عمل بدلنا چاہیئے۔

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech