ڈِس انفارمیشن اور پروپاگینڈا ہمیشہ ہی جنگ کا اہم ہتھیار رہے ہیں۔ ایک صدی پہلے تک پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں اس ہتھیار کو اپنی عوام کو مطمئین رکھنے اور دشمن کی عوام کو جنگ سے دلبرداشتہ کرتے ہوئے شکست دینے کے لئے باقائدہ طور پر استعمال کیا گیا، جبکہ آج کل یہی ڈِس انفارمیشن اور پروپاگینڈا سوشل میڈیا کے دور میں اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ آج کی جنگیں میدانِ جنگ سے بہت پہلے میرے اور آپ کے لیپ ٹاپ اور موبائیل کی سکرینوں پر لڑی جا رہی ہیں۔اس کو آپ جو بھی نام دینا چاہیں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ گوبھی کو گلاب کہہ دینے سے نا تو گلاب کی مہک پیدا ہوتی ہے اور نا ہی خوبصورتی۔
یہی وجہ ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال ہو یا 27 فروری کا بحران، اُڑی اور پٹھانکوٹ واقعات کے بعد بھارتی مبینہ سرجیکل سٹرائکس کے دعوے ہو ں یا اس سے بھی پہلے ممبئی حملہ اور بھارتی الزامات ، کسی بھی ذمہ داراور ذی شعور پاکستانی کی طرح میں نے ہمیشہ حکومتِ وقت کے ساتھ اپنے اختلافات کوثانوی درجہ پر رکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان ، افواجِ پاکستان اور دیگر اداروں کے مؤقف کو نہ صرف فوقیت کے ساتھ سنا بلکہ اپنی پوری کوشش کی کے اس کو سوشل میڈیا پر بھر پور انداز میں اجاگر کرنے کے لئے جو بھی ہو سکے وہ کر گزروں۔
عمران خان صاحب کی حکومت کے بارے میں میرے تحفظات کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں ، میرے تمام احباب اور اقارب اس حوالے سے آگاہ ہیں کہ میں کن خطوط پر اس حکومت سے اختلاف رکھتا ہوں۔ ان اختلافات کے باوجود 27 فروری 2019 کو پاکستانی سرزمین پر ہونے والی جارحیت کے خلاف میں وزیرِاعظم پاکستان عمران خان صاحب کے پیچھے کھڑا تھا کیونکہ ایسے وقت پر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا ذہنی انتشار اور اور فکری شکست و ریخت کے سوا دشمن کو کوئی اور پیغام نہیں دیتے۔ موجودہ کشیدگی اور کشمیر کے حالات کے تناظر میں مجھے قوی امید تھی کہ پچھلے تمام ادوار کے برعکس موجودہ حکومت اپنی مضبوط سوشل میڈیا ٹیم کی بدولت اس دفعہ زیادہ بہتر طریقے سے انٹرنیٹ پر پاکستانی مؤقف کو اٹھا سکے گی اور ایک ‘تجربہ کار اور فُل ٹائم’ وزیرِ خارجہ کی موجودگی اور عمران خان صاحب کی ‘ڈرائیونگ ڈپلومیسی’ کی مدد سے پاکستان اقوامِ عالم میں پہلے کی نسبت زیادہ با وقار طریقے سے اپنا کیس پیش کرنے کے قابل ہوچکا ہوگا۔
مگر درحقیقت ڈپلومیسی کے میدان میں نہ تو عمران خان صاحب کی ڈرائیونگ کام آئی اور نہ ہی مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب کا وقت اور تجربہ۔ صورتحال یہ ہے کہ چین، ترکی کے علاوہ کسی ملک نے کھل کر پاکستان کے مؤقف کی تائید نہیں کی ہے جبکہ ہمارے ‘بہت قریبی اور برادر’ متحدہ عرب امارات نے سرکاری طور پر بھارتی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کا اندورنی معاملہ قرار دے کر ہمارے منہ پہ ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا ہے، اور ٹرمپ صاحب امریکہ کے اندرونی معاملات میں کچھ ایسے مصروف ہیں کہ ثالثی کی پیشکش کو فی الحال وقت لگے گا۔ اس وقت پاکستان کشمیر کی موجودہ صورتحال کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھانے جا رہا ہے تو اس حوالے سے کسی بھی قرارداد کو فرانس کی جانب سے ویٹو کئے جانے کی شنید ہے۔ جی ہاں وہی فرانس جس کے صدر کا مبارکباد کا فون خان صاحب نے سننے سے انکار کردیا تھا۔
اب بات کرتے ہیں سوشل میڈیا پر کشمیر کے کیس اور بھارتی مظالم اٹھانے کی، تو یقین کیجئے دیوار سے سر ٹکرانے کو جی کرتا ہے۔ مریم نواز کی گرفتاری اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے اپوزیشن کے ردِ عمل کے بعد حکومت کی سوشل میڈیا ٹیم ایسے گرِے ہوئے اور ناقابلِ بیان سوشل میڈیا ٹرینڈز چلوا رہی ہے کہ کوئی حد نہیں ۔ اوّل تو مجھے سمجھ نہیں آتا کے ایسے وقت میں مریم نواز کو گرفتار کرنے کی کیا ضرورت ہی تھی ، کیا ہفتہ، دس دن ٹھہر کر یہ کام نہیں ہوسکتا تھا؟ میں پچھلے دس دنوں سے ٹوئیٹر کے ٹاپ ٹرینڈز کو دیکھ رہا ہوں یقین کیجئے ماتم کرنے کو دل کرتا ہے کہ ہم شعوری سطح پر بطور قوم بھیڑ بکریوں کے ریوڑ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ اور عالمی ضمیر تو کُجا ہم ٹوئیٹر ، فیسبک حتیٰ کہ ٹیک ٹوک پر بھی کشمیر کا مقدمہ ہار چکے ہیں۔ اس سوشل میڈیا شکست کی وجہ اور کچھ نہیں صرف حکومت کی نااہلی، غیرسنجیدگی ، کوتاہی اور لاپروائی والا طرز عمل ہے۔
تلخ سچائی یہ ہے کہ کارگل بحران سے لیکر 27 فروری تک میں نے اس قوم کو بُرے سے بُرے حالات میں بھی بھارت کے خلاف متحد دیکھا،مگر آج نہایت دل شکستگی کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ بقولِ اقبالؔ:
“حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے”