پاکستان میں عید کے چاند ہمیشہ سے ہی اختالف کا باعث رہے ہیں۔ بطور پشاور کے مکین، یہ مسئلہ باقی ملک کی نسبت میرے جیسے لاکھوں پشاور کے شہریوں کے لئے ہر سال ایک نئے مخمصے اور الجھن کا باعث بنتا ہے۔ کس کا روزہ ہوگا، کس کو عید کی مبارکباد دینی ہے آدھا دن تو یہی سوچتے سوچتے گزر جاتا ہے۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ اتنے بڑے بڑے مدارس ، جامعات، یونیورسیٹیوں ، محکہ موسمیات، سپارکو جیسے اداروں کے ہوتے ہوئے بھی ایک چاند کا مسئلہ کیونکر حل نہیں ہو سکتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ہر سال لوگوں کی فرض عبادات چاہے روزہ ہو یا قربانی پہ غیر یقینی کے بادل چھائے رہتے ہیں۔
بحیثیتِ قوم ہم جتنے جوش و جذبے کے ساتھ رمضان کا استقبال کرتے ہیں، جتنا زور ہم عبادات و تلاوت وغیرہ پہ دیتے ہیں وہ سب اپنی جگہ مسلمہ اہمیت کا حامل ہے لیکن رمضان کا اختتام آتے آتے ہر سال چاند کا جھگڑا سر اٹھا کہ آجاتا ہے۔ اس چیز سے قطع نظر کہ عوامی سطح پہ ایسے اختلافی امور چلتے ہی رہتے ہیں لیکن اس معاملے میں یہ اختلاف عوام کا نہیں بلکہ اہلِ علم کے درمیان ہے۔ ایک جانب مرکزی روئیت ہلال کمیٹی اور اس کی ذیلی کمیٹیاں ہیں جبکہ دوسری طرف ایک غیر سرکاری روئیت ہلال کمیٹی ہے۔ دونوں کی سربراہی علماء کرام کے پاس ہے، اور دونوں ہی ایک دوسرے کے موقف کو تسلیم کرنا تو کجا سننے یا سمجھنے تک کو تیار نہیں ہیں۔
میں ان اختلافی معاملات کی بات نہیں کرنا چاہتا کہ کس فقہ میں روئیت یا عید کے لئے کون کونسی شرطیں ہیں اور پاکستان میں ان کا نفاذ کیوں نہیں ہوسکتا۔ یہ سعی لا حاصل سابق وزیر سائنس فواد چودھری صاحب اپنے وقت میں بخوبی کرچکے ہیں۔ ہمارے کلینڈر میں ماہ و سال کا حساب کتاب سورج اور چاند دونوں پہ ہی منحصر ہے۔ زمیں سورج کے گرد ایک سال میں اپنا چکر پورا کرتی ہے جبکہ چاند زمین کے گرد تقریباً ایک مہینے میں اپنا چکر مکمل کرتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں ہزاروں برسوں سے دنیا بھر میں آباد انسان اس امر سے واقف ہیں اور ان دونوں اجسامِ فلکی کی مدد سے وقت کا حساب رکتے ہیں۔ آج ہمیں یہ ٹھیک ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ نئے چاند کی پیدائش کتنے بج کر کتنے منٹ پر ہو گی، کس دن اور کس وقت پہ سورج اور چاند کو گرہن لگیں گے اور کہاں کہاں نظر آئیں گے۔ لیکن ان سب کے باوجود بھی اگر ہم سال میں محض دو ایام کی صحیح سے تاریخ کا تعین نا کرسکیں تو کیا فائدہ ایسی سرکاری اور پرائیوٹ کمیٹیوں کا جو صرف تفرقہ کا باعث بنتی ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ شوال کے چاند کی پیدائش مورخہ 20 اپریل کو صبح تقریباً 9 بجے کے لگ بھگ ہوگی۔ جس کا مطلب ہے کہ غروبِ آفتاب تک اس نئے چاند کی عمر اندازاً 10-11 گھنٹے ہوگی۔ عمومی طور پہ ماہرینِ فلکیات کہتے ہیں کہ چاند کی عمر روئیت کے لئے تقریباً 20 گھنٹے ہونی چاہیئے ، جس کا مطلب ہے کہ اس جمعرات کو سائنسی حساب سے چاند روئیت کے قابل نہیں ہوگا۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی شہادت آتی ہے تو سرکاری روئیت ہلال کمیٹی اس شہادت کو شائد قبول نا کرے ، جبکہ اس کے مقابلے میں پرائیویٹ کمیٹی قبول کرلے تو پھر ہر سال والا تنازعہ درپیش ہوگا۔
اس کا مؤثر حل تو باہمی افہام و تفہیم ہی ہے جس میں ہم من الحیث لقوم زرا برابر دلچسپی نہیں رکھتے۔ چلئے کچھ اور سوچتے ہیں۔ عمومی طور پہ تو ان کمیٹیوں میں اصل تنازعہ کا باعث روئیت کی غیر مستند اور غیر مصدقہ شہادتیں ہی ہوتی ہیں۔ اگر ان شہادتوں کے لئے کوئی ایسا انتظام کرلیا جائے کہ شہادت دینے والی کی جگہ (صحیح کوارڈینیٹس یعنی عرض بلد اور طول بلد)، روئیت کا وقت، اور چاند کی شکل و دیگر ضروری معلومات کا ریکارڈ حاصل کیا جاسکے تو ان غیر مصدقہ شہادتوں کو صحیح روئیت سے الگ کرنا کوئی خاص مشکل نہیں ہوگا، بھلے وہ سرکاری کمیٹی ہو یا پرائیویٹ۔
اس غرض کے لئے ایک عد د موبائیل ایپ بنائی جا سکتی ہے اور یہ اصول طے کیا جاسکتا ہے کہ آئندہ شہادت صرف اس ایپ کی مدد سے وصول کی جاسکے گی۔ ویسے بھی آج کل ہر کسی کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے اور اس میں مفت انٹرنیٹ۔ ایپ سٹور پہ آپ کو کئی ایپس مل جائیں گی جو کہ آپ کو نا صرف آسمان پہ نظر آنے والے ستاروں کے نام بتا دیتی ہیں بلکہ سورج ، چاند اور نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں کا صحیح صحیح مقام بھی بتا دیتی ہیں۔ یہ ایپس ہر کسی کے استعمال کے لئے مفت دستیاب ہیں۔ ان ایپس کی دستیابی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ کوئی ایسی پیچیدہ ٹیکنالوجی نہیں جو پاکستا ن قابلِ عمل نہ ہوسکے۔
آج جب کہ ہماری قوم ہر ایک موضوع پہ شدید قسم کی تقسیم کا شکار ہے تو ہمیں اس امر کی کوشش کرنی چاہیئے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے ایسے اختلافات اور خلیج کو دور کرتے ہوئے قومی یگانگت اور ہم آہنگی کے فروغ کے لئے کام کریں۔ بات محض نیت کی ہے اگر کسی کی ہو۔