“گل ود گئی اے مختاریا”
بعض الفاظ محض حروف کا مجموعہ ہی نہیں ہوتے بلکہ حالات و واقعات کے سمندر کو کوزے کی طرح اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں۔ مذکورہ بالا جملہ بھی شائد ایسے ہی مجموعۂِ الفاظ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن تفصیل میں جانے سے پہلے میں ان قارئین کو جو کہ اس عنوان کی وجہ اور شانِ نزول سے واقف نہیں ہیں، بتاتا چلوں کہ کچھ عرصہ قبل پی ٹی آئی کے ایک سرکردہ رہنما ندیم افضل چن صاحب کی ٹیلی فونک کال کی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر لیک ہوگئی تھی جس میں وزیر موصوف اپنے کسی مختار نامی دوست کو اس کورونا کی وبا کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے احتیاط کرنے کی تلقین کرتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں:
ویکسین کیا ہیں اور کیسے عمل کرتی ہیں؟
کورونا ویکسین اور ادویہ پر ہونے والی جدید تحقیق جانئیے
اس امر سے قطع نظر کہ وزیرِ اعظم کے ترجمان کی کال کیسے اور کیونکر ریکارڈ اور پھر لیک ہوئی اور ذمہ داروں کے خلاف کچھ ہوا بھی یا نہیں، کورونا کے حوالے سے موجودہ صورتحال واقعتاً بہت بڑھ چکی ہے۔ تادمِ تحریر 7 مئی کا دن اب تک کا پاکستان کا برا ترین دن ثابت ہورہا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں 1700 سے زیادہ نئے مریض سامنے آئے اور 30 اموات ہو چکی ہیں۔ کورونا کی ہلاکت خیزی میں یہ اٹھان ہمیں ایک ایسے موڑ پر لے آئی ہے کہ جہاں ہمارے نظامِ صحت کی گنجائش نئے مریضوں کو سبھالنے سے قاصر ہوچکی ہے۔ اور جیسے جیسے وقت گزرے گا یہ ہلاکت خیزی بڑھے ہی گی اس میں فی الحال کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اپریل کے آخری دن ملک میں رپورٹ شدہ مریضوں کی تعداد 17000 سے کم تھی اور 8 مئی تک یہ تعداد بڑھتے بڑھتے ساڑھے چوبیس ہزار کا ہندسہ عبور کر چکی ہے۔ یعنی اوسطاً ایک ہزار کیس روزانہ رپورٹ ہو رہے ہیں۔ حکومتی و انتظامی سطح پر اس پھیلتی وبا کا کتنا ادراک ہے اس کا اندازہ گزشتہ کل وزیرِ اعظم کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس میں وہ اس بڑھتی تعداد کے باوجود آنے والے دنوں میں لاک ڈاؤن کے مرحلہ وار خاتمے کے خواہشمند اور کوشاں ہیں۔
ڈاکٹر ہوں یا سائنسدان یا پھر صحت کے دیگر ماہریں سب ڈراوے دینے سے سے لیکر خوشامد کرنے تک اور فریادوں، منتوں، ترلوں غرض کے ہر طرح سے عاجز آچکے ہیں لیکن کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ سپریم کورٹ سے آنے والے ریمارکس نے حکومت کی ‘حکمت’ اور ‘عملی’ دونوں کی ہی قلعی کھول دی ہے۔
اس وقت پاکستان میں روزانہ لگ بھگ دس سے بارہ ہزار کے حساب سے ٹیسٹ کئے جارہے ہیں اور ان میں سے ایک ہزار کے لگ بھگ نئے مریض سامنے آرہے ہیں یعنی تقریباً دس فیصد کے حساب سے پھیلاؤ جاری ہے، اور یہی رجھان آنے والے دنوں میں ایسے ہی جاری رہنے کی توقع ہے۔ ایسی صورتحال میں کہ جہاں بازاروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں مل رہی ہے، راستوں پہ ہجوم اور جمگھٹے لگے ہوئے ہیں اور بینکوں، مساجد اور دیگر اجتماعات کی جگہوں پر باقاعدگی سے لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں، ویسے بھی کیا فرق پڑتا ہے اس وبا کا جن تو بوتل توڑ کر باہر نکل ہی چکا ہے۔
زیرِ نظر گراف میں آپ کو روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے ٹیسٹوں میں مثبت آنے والے مریضوں کی تعداد کا تخمینہ دیا گیا ہے۔ اس گراف میں نیلے رنگ کے نقطے نئے مریضوں کی تعداد کو ظاہر کر رہے ہیں جبکہ سرخ لکیر آنے والے دنوں کا ایک اندازہ پیش کر رہی ہے۔ یہ ایک بہت محتاط تخمینہ ہے جو کہ صرف مئی کے اختتام تک روزانہ کے نئے مریضوں کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے زیادہ بتا رہا ہے۔ آپ بالکل بجا طور پر یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ یہ تخمینہ کس بنیاد پر لگایا گیا ہے۔ تو جناب اگر آپ تھوڑا غور سے دیکھیں تو آپ کو سرخ لکیر ان نیلے نقطوں کے درمیان میں سے گزرتی آرہی ہوگی، اور جیسے جیسے یہ تعداد بڑھ رہی ہے ویسے ہی سرخ لکیر بھی۔ اس اٹھان کو کمپیوٹر کی مدد سے آنے والے دنوں کی پیشن گوئی کے لئے جانچنے کے بعد ہی یہ تخمینہ لگایا گیا ہے۔
اسی حوالے سے ایک اور تخمینہ بھی آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس دوسرے گراف میں وبا کے پھیلاؤ کو پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مئی 2020 کے آخری دن اس تخمینے کے حساب سے اسی ہزار سے اوپر لوگ کورونا کی گرفت میں آچکے ہوں گے۔ اس گراف کا سمجھنا بھی پچھلے گراف کی طرح آسان ہی ہے یہاں بھی سرخ لکیر مستقبل کے ممکنہ مریضوں کی کُل تعداد کو دیکھا رہی ہے جبکہ موجودہ معلوم مریضوں کی کُل تعداد میں ہونے والا روزانہ کا اضافہ چھوٹی نیلی لکیروں (بارز) کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
ان دنوں تخمینوں کے لئے اعداد و شمار کورونا کی معلومات کے لئے بنائی گئی حکومتِ پاکستان کی سرکاری ویب سائٹ (کوویڈ ڈاٹ گوو ڈاٹ پی کے) سے لیے گیے ہیں۔
اب یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیوں ان اعداد و شمار پر اعتبار کریں، یہ تو صرف ہندسے ہی ہیں۔ بہت سے ذہنوں میں پیدا ہونے والا یہ سوال کافی اہم ہے۔ اس سوال کا جواب دو طریقوں سے دیا جا سکتا ہے۔
اول تو یہ کہ ریاضی کے اصول ہمیشہ مسلمہ ہی ہوتے ہیں، کبھی بھی دو جمع دو پانچ نہیں ہوسکتے ہیں اور نہ ہیں کبھی تین، ہمیشہ چار ہی ہوں گےلہٰذا اگر آپ خود بھی تھوڑی توجہ سے ان دونوں گرافوں کو دیکھیں تو آپ کو کورونا کے مریضوں کی تعداد واضح طور پہ بڑھتے ہوئے نظر آئے گی۔
دوسرا طریقہ شائد زیادہ موثر ہو، اور وہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ آیا ایسے پھیلاؤ کی کوئی مثال بھی موجود ہے یا نہیں۔ اس کا جواب ہے کہ جی ہاں بالکل چین، ایران، اٹلی، برطانیہ اور اب امریکہ ہر جگہ اس وبا کا پھیلاؤ بعینہ ہی ہوا ہے۔
پاکستان، چین اور دیگر ممالک کے مابین تقابلی جائزہ یہاں پڑھیں۔
عزیزانِ من! میرےاور آپ کے لئے اس وقت سب سے تشویش ناک چیز نظامِ صحت کی گنجائش کا پورا ہو جانا ہے۔ اس امر کی سنگینی کا احساس صرف اس بات سے لگائیے کہ اب ہمارے ڈاکٹروں کو یہ فیصلے با امرِ مجبوری کرنا پڑیں گے کہ کس مریض کو وینٹی لیٹر کی ضرورت زیادہ ہے اور کس کو وینٹی لیٹر سے اتار دیا جانا چاہیئے۔ آسان الفاظ میں کس کو زندہ رکھنا ہے اور کس کو مرنے کے لئے چھوڑ دینا ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ میری بات کی بناء پر ڈاکٹروں کی نیت و اخلاص پہ شکوک کا اظہار کریں، زرا یہ تصور کریں کہ آپ کسی اسپتال میں ڈاکٹر ہیں جہاں وینٹی لیٹر کی استعداد پانچ مریضوں کے لئے ہے اور آپ کے سامنے چھ مریض موجود ہیں تو ایسی صورت میں آپ کونسی جناتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے چھٹے مریض کے لئے کچھ کر سکیں گے، زرا سوچئیے ؟ اسی کشمکش میں پیر کے روز ایک ڈاکٹر کراچی میں وینٹی لیٹر دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے دم توڑ چکا ہے۔
اگر آپ کو کوئی جواب ملے تو برائے کرم اپنے قریبی اسپتال میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کو لازمی آگاہ کریں، شائد کسی کو کوئی فائدہ ہوجائے۔ ایک بات ذہن میں رکھیئے کہ اگر کورونا کے پھیلاؤ کا موجودہ رجھان ایسے ہی جاری رہا تو خاکم بدہن اس آنے والی عید تک پاکستان میں مریضوں کی تعداد کئی گنا تک بڑھ چکی ہوگی۔
ویسے چلتے چلتے یہی بتا دیجیئے کہ آپ کہ علاقے کی مسجد میں، متفقہ طور پر منظور کئے جانے والے بیس نکات پر اب بھی عمل ہو رہا ہے یا نہیں؟ اور جب تک یہ وبا قابو میں نہیں آتی تب تک آپ سے یہی گزارش ہے کہ
خدارا خدارا خدارا خدارا آپ بھی مختار صاحب کو دی جانے والی احتیاط کی نصیحت پر عمل کریں۔