مجھے گھر سے نکلنا ہے، معاشرے کے نچلے طبقات کو اپنی روزی روٹی کی فکر ہے، تاجروں کو اپنی دکانداری کا غم کھائے جا رہا ہے اورعلماء کو صرف اور صرف مساجد کو کھولنا مقصود ہے جبکہ حکومت کو ‘اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا’ کے مصداق کرنے کو اور بھی کئی کام ہیں۔
اپنے ایک پچھلے مضمون میں مساجد کے حوالے سے کورونا کے پھیلاؤ کے خدشات پر بات کی تھی، اسی دوران حکومت نے ملک گیر لاک ڈاؤن کا نفاذ کرکے اس وبا کے پھیلاؤ کو سمیٹنے کی کوشش کی۔ یہ مکمل لاک ڈاؤن کے اثرات ہمیں ماہرین کے اندازوں کے برعکس نظر آرہے ہیں جن میں انھوں نے اپریل کے اختتام تک پچاس ہزار مریضوں کی پیشنگوئی کی تھی۔ اس وقت بھی سرکاری عداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً بارہ ہزار کے لگ بھگ کورونا کے مریض رپورٹڈ ہیں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ صرف اس لاک ڈاؤن کی وجہ اس تقریباً اڑتیس ہزار میرے اور آپ کے جیسے عام لوگ اس وبا سے بچ گئے ہیں۔
ہمیشہ وقت کی کمی کا رونا رونے والے ہم آج سکون سے گھر میں ٹِک کر بیٹھ نہیں سکتے ہیں۔ اس جلد بازی کی عادت نے لاک ڈاؤن کو بھی ہتیلی پہ سرسوں جمانے کے مترادف وقت سے پہلے ہی جزوی کروا کر اس کے فوائد کو تقریباً ضائع کر ہی دیا ہے۔ اور اب محبوب کی کمر کی طرح کا یہ لاک ڈاؤن بقولِ شاعر
تمہارے، لوگ کہتے ہیں، کمر ہے
کہاں ہے، کس طرح کی ہے، کدھر ہے
کورونا اور لاک ڈاؤن کے حوالے سے چند اہم نکات ہیں جن کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔
ہم خواہ تاجر ہوں یا سرکاری ملازم، سکول کالج کے طالبِ علم ہوں یا مزدور، اساتذہ ہوں یا علماء کرام، معاشرے کے تمام طبقات کی جڑوں میں ایک عجیب سی بے چینی، حکومت اور ایک دوسرے کے خلاف بد اعتمادی اور جلدبازی رچی بسی ہوئی ہے۔
کوئی شخص کسی دوسرے کی بات سمجھنے کی غرض سے نہیں بلکہ جواب وہ بھی ‘دنداں شکن جواب’ دینے کے لئے سنتا ہے۔ اگر کوئی ماہر کسی کو کوئی بات سمجھانے کی کوشش کرے تو سمجھنا تو درکنار اپنی مرضی کے خلاف بات سننے کو ہی کوئی تیار نہیں ہے۔ اوپر سے سونے پہ سہاگہ حکومتیں چاہے وفاقی ہوں یا صوبائی اس صورتحال کو قابو کرنے میں ناکام ہوتی دیکھائی دے رہی ہیں۔
سائنسی طریقہِ کار میں تجربہ کی مدد سے حاصل کیا گیا علم نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ سائنسدان مختلف قسم کے سوالات اور معموں کا حل ڈھونڈنے کے لئے روزانہ تجربات میں مشغول رہتے ہیں ۔ جیسا کہ آج کل کورونا کے پھیلاؤ، علاج اور بچاؤ کے خاطر دوائیں اور ویکسینز کی دریافت کے لئے تجربات ہو رہے ہیں۔ ان تجربات سے حاصل ہونے والی معلومات کو اعداد و شمار میں ڈھال کر سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سائنس کے ایک طالبِ علم کی حیثیت سے میں بھی ذاتی طور پر تجربات کی افادیت و اہمیت کا قائل ہوں اور اسی لئے ہمیشہ کوشاں رہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں بھی درپیش آنے والے مسائل کے حل کے لئے سائنسی طریقہِ کار اور تجربات کی جتنی مدد ہوسکے حاصل کروں۔ آئیے آج دنیا بھر کے مشاہدات و تجربات سے حاصل ہونے والی معلومات کورونا کی وبا اور ہماری روزمرہ زندگی کے معمولات کو جاری رکھنے کی ضد کو پرکھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
اس وقت اگر آپ پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد کا روزانہ کی بنیاد پر مشاہدہ کر رہے ہوں تو آپ کو مریضوں کی تعداد میں ایک اٹھان اب واضح نظر آنے لگی ہو گی۔ جیسا کہ آپ اوپر دئیے گئے گراف میں دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی کل تعداد میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ ہر گزرے دن کے مقابلے میں بڑھ کر ہے۔ اضافے کا یہ رجھان وبا کے بے قابو ہوتے پھیلاؤ کی نشاندہی کر رہا ہے جو کہ تشویشناک امر ہے۔ اس گراف میں پاکستان میں اس وقت کورونا کے مریضوں کی کل تعداد دیکھائی گئے ہے جس میں سے صحتیاب ہونے والے مریض شامل نہیں ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ 14 مارچ سے شروع ہونے والی اٹھان کا سفر اوپر کی طرف جاری ہے۔
اگر ہم چین جہاں کہ اس وبا پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے وہاں کے مریضوں کی تعداد کے ساتھ موزنہ کر کے دیکھیں تو ہمیں ایک خاص رجھان نظر آتا ہے۔ وہاں جنوری کے آخری ہفتہ میں مریضوں کی تعداد میں اٹھان شروع ہوئی جو کہ 16 فروری کو اپنی انتہا کو پہنچی پھر چینی حکومت کے سخت لاک ڈاؤن کے اقدامات کے باعث مارچ میں مریضوں کی تعداد میں کمی آنے لگی اور 23 اپریل کو محض 6 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
اسی طرح اگر دنیا کے دیگر ممالک کا جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی یہی صورتحال نظر آتی ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک جن کے پاس وسائل کی وافر فراہمی ہے ان میں بھی حکومتی سطح پر بد انتظامی اور لاپرواہی کے سبب وبا بے قابو ہوچکی ہے۔ زیرِ نظر جدول میں آپ پاکستان سمیت مختلف ممالک کے اعداد و شمار دیکھ سکتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کا جائزہ ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جہاں امریکہ اور چین جیسے امیر ممالک بھی غیر سنجیدگی کا مطاہرہ کرتے ہوں تو اپنے بے پناہ وسائل کے باوجود بھی اس پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں جبکہ انہی کہ مقابلے میں اگر حکومتی سطح پر موثر حکمتِ عملی مرتب کی جائے اور پوری سنجیدگی اور تندہی کے ساتھ کی جانے والی کوششوں سے ویت نام جیسا پاکستان سے کم جی ڈی پی اور محدود وسائل کا حامل ملک جو کہ چین کا ہمسایہ بھی ہے اس وبا کو قابو کئے ہوئے ہے۔
آخری تاریخ (23 اپریل، 2020): یومیہ نئے مریضوں کی تعداد |
ابتک کے سب سے زیادہ رپورٹڈ:
یومیہ نئے مریضوں کی تعداد + (تاریخ) |
اٹھان کی شروعات: یومیہ نئے مریضوں کی تعداد + (تاریخ) |
ممالک |
6 |
19457 (16 فروری) | 77 (19 جنوری) | چین |
2646 |
6557 (21 مارچ) | 587 (4 مارچ) | اٹلی |
1030 |
3186 (30 مارچ) |
835 (3 مارچ) |
ایران |
32331 |
34243 (9 اپریل) | 393 (12 مارچ) | امریکہ |
4583 |
6199 (5 اپریل) |
152 (16 مارچ) |
برطانیہ |
2352 |
6294 (28 مارچ) |
733 (14 مارچ) |
جرمنی |
0 | 188 (22 مارچ) | 03 (31 جنوری) |
ویت نام |
981 | 1147 (21 اپریل) | 134 (16 مارچ) |
پاکستان |
ہمیں بطور پاکستان اور باقی ساری دنیا کو ویت نام کی اپنائی گئی حکمتِ عملی کا مطالعہ کرنے اور اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
اور ہاں اتنا یاد رکھئے کہ پاکستان میں کورونا کی پارٹی تو ابھی شروع ہوئی ہے ا ور اگر اس وبا کے تدارک کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے تو پھر آئندہ تین سے چار ہفتوں میں حکومت کے پاس کرفیو لگانے کے سوا کوئی اور راستہ موجود نہیں ہوگا چاہے وہ حکمتِ عملی کے تحت لگائے یا باامرِ مجبوری۔
اگر آپ سے آج گھر میں نہیں بیٹھا جا رہا ہے تو اس وقت کیا کریں گے جب نہ تو بازار کھل سکیں گے، نہ فیکٹریاں اور نہ ہی مساجد۔۔۔۔