ہمارے ہاں نمازیوں کی چار اقسام بطور مذاق بیان کی جاتی ہیں؛ ٹھاٹھ کے، آٹھ کے، گھاٹ کے اور تین سو ساٹھ کے نمازی۔ ٹھاٹھ والے نمازی روزانہ پنجگانہ نمازوں کی اہتمام کے ساتھ ادا ئیگی کا خیال رکھتے ہیں، آٹھ والے نمازی نمازِ جمعہ کا اہتمام کرتے ہیں، گھاٹ والے صرف نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں اور مؤخر الذکر صرف عیدین پر ہی صفوں میں نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثریت ٹھاٹھ اور آٹھ کے درمیان ہی کہیں کھڑی ملتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کی اہمیت کو سمجھتے ہیں مگر سستی کہہ لیں لیا غفلت ویسا اہتمام نہیں کر پاتے جیسا کہ ہونا چاہیئے۔ یہی طبقات آپ کے معاشرے کی خاموش معتدل مزاج اکثریت بناتے ہیں اور ساتھ ساتھ علماء کی بات عزت و احترام کے ساتھ سنتے بھی ہیں اور مانتے بھی ۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے موضوع کورونا وائرس کی وباء ہے اور میں نمازیوں کی اقسام بیان کر رہا ہوں تو جناب بات دراصل یہ ہے کہ کورونا کی وباء میں آنے والی شدت کے بعد ہونے والی پہلی نمازِ جمعہ پڑھنے کے لئے آج اپنے محلے کی سب سے بڑی مسجد جانا ہوا۔ بعض حلقوں کی جانب سے مساجد میں باجماعت نماز پر ہمسایہ مسلمان ممالک جیسے سعودی عرب، ترکی اور ایران و دیگر میں لگائی جانے والی پابندیوں کو پاکستان میں بھی عائد کروانے کی کوششوں کے جواب میں علماء کی جانب سے انکار کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کا آج مجھے موقع ملا۔
اپنا تجزیہ پیش کرنے سے پہلے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں گزشتہ بارہ برس سے انسانوں کے لئے مفید و مضر ہر دو طرح کے جراثیم پر کام کر رہا ہوں اور آخری چند سال سے تو میری پی ایچ ڈی اور بعد کی تحقیق کا موضوع ہی ایسے جراثیم کے لئے ویکسین اور ادویہ بنانا ہے کہ جن کا علاج اس وقت میسر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے میرے دادا مولانا سعید الدین شیرکوٹی مرحوم دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے اور پر دادا مولانا عماد الدین انصاری مرحوم کے اپنے وقت کے مہتمم ِ دارالعلوم کے ساتھ ذاتی و گھریلو تعلقات تھے۔ اس بات کا مقصد محض اتنا ہے کہ کوئی میری بات یا میرے تجزیے کو کم علمی یا ذاتی عناد و پسند و ناپسند پر محمول نہ کر سکے۔
میں یہ بات پہلے سے تسلیم کرتا ہوں کہ یہ مشاہدہ محض ایک مسجد کا ہی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ مشاہدہ ہماری مساجد کی غالب اکثریت پر منطبق کیا جا سکتا ہے ۔ اب بات کرتے ہیں آج کے مسجد میں نمازِ جمعہ کے حالات کی ۔ میں اپنے مقررہ وقت پر مسجد پہنچا تو وہاں فرش پر موجود قالین اور دریاں ہٹائی جا چکی تھیں اور اس امر کا مجھے پہلے سے علم ہے کہ ہر نمازِ جمعہ سے پہلے مسجد کا فرش سرف یا ڈیٹرجنٹ وغیرہ سے باقاعدگی سے دھلتا رہتا ہے ، لہٰذا مجھے اطمینان ہوا کہ علماء کونسل اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل ہو رہا ہے۔ مگر امام صاحب نے روٹین کے مطابق لیکن تھوڑی مختصر اپنی پشتو کی تقریر کی لیکن اس تقریر کے بعد انھوں نے چند منٹ اضافی لئے اور کچھ دوسرے موضوعات پر مزید بات کی۔ اس دوران اپنے اردگرد موجود نمازیوں کو بھی دیکھتا رہا ۔ میرے دائیں بائیں بیٹھے حضرات مسلسل اپنے چہرے کو چھوتے رہے ، وقتاً فوقتاً کھانسنے کی آوازیں بھی آتی رہیں لیکن کسی بھی نمازی کو ماسک پہنے ہوئے نہیں دیکھا۔ خطبہ مختصر تھا لیکن نماز معمول کے مطابق ہی تھی اور مسجد میں نمازیوں کی تعداد میں بھی کوئی خاص کمی محسوس نہیں ہوئی۔ تقریر کے دوران بھی کورونا کی جاری وباء سے متعلق کوئی خاص معلومات فراہم نہیں کی گئیں اور نہ ہی کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہا گیا۔
ایک بات جان لیجیئے کہ اللہ پر توکل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان اپنی ذمہ داری و احتیاط سے بالکل لاپرواہ ہو جائے ہرگز نہیں، بلکہ اللہ پر توکل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان پہلے اپنے ذمہ لگائی گئی کوشش کو بھرپور طریقے سے انجام دے اور اس کے بعد نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے اور اللہ سے خیر کی دعا کرے۔ جن حالات کا آج مجھے مشاہدہ ہوا ہے یقین جانئیے کہ کیا مساجد اور کیا بازار ہر جگہ شدید بے احتیاطی اور لاپرواہی نظر آرہی ہے اور اگر تھوڑا سا بھی غور سے دیکھا جائے تو یہ پیشنگوئی بہت آسانی سے کی جا سکتی ہے کہ آنے والے ایام میں کورونا کی وباء کو سبنھالنا خاکم بدہن ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہوجائے گا۔
بلاشبہ اس وقت علماء کرام کے سامنے یہ ایک مشکل صورتحال ہے اور یہ عاجز ‘کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ’ کی مانند اپنی حیثیت سے بخوبی آگاہ ہے ۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس ذمہ داری کا احساس کریں آگے بڑھیں اور عوام کی رہنمائی کریں۔ ڈاکٹروں ، محقیقین اور دیگر ماہرین سے خود معلومات حاصل کریں اور صورتحال کی نزاکت کو سمجھیں۔ پولیو کی ویکسین مہم بھی حکومتی نااہلی کے باعث آج تک ہمارے بچوں کو معذور کر رہی ہے اگر اس وقت بھی آپ نے اپنی ذمہ داری سے منہ موڑا اور کورونا کی وباء کو حکومت پہ چھوڑ دیا تو خدا ہی جانتا ہے کہ کیا حال ہوگا۔