میں یہاں تین اہم باتیں کرنا چاہتا ہوں :

پہلی بات

وَاَنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَيۡدِيۡكُمۡ اِلَى التَّهۡلُكَةِ ۖ ۛۚ وَاَحۡسِنُوۡا ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ

سورۃ البقرة، آیت 195

ترجمہ:
اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنو ں کو پسند کرتا ہے.

اس آیت کے انتخاب کیا کیونکہ موجودہ صورت حال سے متعلقہ دو پہلو بیان ہوئے ہیں :

  1. پہلا پہلو یہ ہے کہ اس آیت میں ہے: اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو”
  2. دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس میں ہلاکت و انفاق فی سبیل اللہ کا باہمی تعلق بھی مذکور ہے.

دنوں پہلوؤں سے یہ بات اخذ ہوئی کہ خود کو مرنے کے لیے چھوڑ دینا یہ اللہ جل شانہ کو پسند نہیں بلکہ ایسا کرنے سے منع کیا ہے. موجود صورت حال میں ہمارا ایسا رویہ کہ جس سے خود یا دیگر انسانوں کے لیے وبال جان بننا شرعا ممنوع ہے. ایسی مجموعی حالات میں یقینا چند لوگوں کے چولہے بند ہونے کا خدشہ ہے کہ بھوک مری بڑھے گی، سو ایسی صورت میں یہی آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ اپنے لوگوں کو بھی مرنے نہیں دینا، بلکہ ان کے لیے خرچ کرو. اپنے اردگرد ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کوئی ایسا بندہ خدا تو نہیں، جسے کھانے پینے اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں دشواری ہو، اس کی ضروریات کو پورا کرنے میں ہمیں ممد و معاون بننا ہو گا…

  1. دوسری بات: اہل علم سے استفادہ
    چونکہ یہ صحت و بیماری کا مسئلہ ہے، اس میں اہل علم یقینا علم الطب کے ماہرین ہیں، سو وہی بتائیں گے کہ ہمیں کیا کرنا اور کن چیزوں سے پرہیز کرنا ہے اور ہر میدان کے ماہرین سے ان کے دائرے میں پوچھا جانا حکم خداوندی کے عین مطابق ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِىۡۤ اِلَيۡهِمۡ‌ فَسۡــئَلُوۡۤا اَهۡلَ الذِّكۡرِ اِنۡ كُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَۙ‏ ۞

سورۃ 16 النحل، آیت 43

ترجمہ:
اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے.

3.تیسری بات : تدابیر کو عملی جامہ پہنانا
یہ بات دنیا میں کئی ہزار اموات سے واضح ہو چکی کہ نول کرونا وائرس متعدی یعنی “Infectious” بھی ہے اور جان لیوا بھی. سو اس کے بارے میں میڈیکل سائنسز اور طبی میدان سے ناواقف افراد کی باتوں میں آنے کی بجائے انتہائی احتیاط برتنے اور طبی ماہرین کی ہدایات پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے. اس احتیاط میں دیگر پرہیز والے کاموں کے ساتھ ” isolation ” یعنی عوامی بھیڑ بھاڑ سے دور رہنا، مصافحہ اور گلے ملنا بھی ہے. ایسا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عملا عوامی جگہ پر آنے سے کوڑھ کے مریض کو منع کیا اور اس کی بیعتِ اسلام کو ہاتھ ملائے بنا قبول کیا، جبکہ بیعت ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ہوا کرتی تھی. واقعے کی تفصیل ذیل میں ہے:

امام مسلم رح عمرو بن شرید سے نقل کرتے ہیں کہ بنو ثقیف کے وفد میں ایک بندہ تھا جسے کوڑھ کی بیماری تھی. آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے پیغام بھجوا دیا کہ ہم نے آپ کی بیعت کر لی لہذا آنے کی ضرورت نہیں.

حديث عمرو بن الشريد عن أبيه قال: كان في وفد ثقيف رجل مجذوم فأرسل إليه النبي صلى الله عليه وسلم: “إنا قد بايعناك فارجع”.

کتاب السلام، باب اجْتِنَابِ الْمَجْذُومِ وَنَحْوِهِ، حدیث نمبر : 5822

نبوی عملی مثال اور قرآنی تعلیمات ہی یقینا انسانی فلاح و بہبود اور تحفظِ جان کی ضمانت دیتی ہیں اور غیر معیاری، جہالت پر مبنی رویے انسان کی تباہی کا باعث ہیں. ہم سب کی جانیں ہمارے گھر والوں، رشتہ داروں اور متعلقین و احباب کے لیے انتہائی ضروری ہیں، سو اپنی اور اپنے سب پیاروں کی زندگی کی حفاظت کیجیے اور مومن و ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیجیے، اسی میں ہماری بقاء ہے.

Tayyab Usmani

Phd: Islamic Theology (Pakistan) Post Graduate: Islamic Theology & Scientific Literacy (USA) Fazil Dars e Nizami Lecturer Islamic Studies : Govt Murray College Sialkot