اپنی طرف سے جھوٹی خبریں اور غلط معلومات شیئر کرنے سے حد درجہ گریز کریں۔ کسی ایسی بات کو شیئر نہ کریں جس کی آپ نے خود اچھی طرح تصدیق نہ کر لی ہو۔ پڑھے لکھے لوگوں کو جدید دنیا کے تقاضوں کو سمجھ کر اس مسئلے کے حل کی طرف کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ افسوس یہ ہے کہ اکثر مسائل کے معاملے میں ہمیں اس سے زیادہ کچھ نہیں پتہ کہ “اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے”۔ وہ قرار دادیں کیا ہیں، ان کے مندرجات کیا ہیں، ان کے پیچھے کار فرما اصول کیا ہیں اور اس میں ہمیں کیا مسئلہ ہے ہمیں کچھ بھی نہیں پتہ۔ ہمیں نہ اصل مسئلہ کا علم ہے نہ اس کے پس منظر سے واقف ہیں نہ مؤثر انداز میں اسے اٹھا سکتے ہیں۔ جھوٹ کے پیچھے ہمیں لگا دیا جاتا ہے اور ہم بخوشی لگ کر الٹا انہیں ہی فائدہ پہنچاتے ہیں۔

عربوں کی عیش پرستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ لیکن ایمان سے ایک بات بتائیں۔ ہم نے خود کبھی بریانی اور گٹر کے ڈھکن سے اوپر کسی چیز کی خاطر ووٹ دیا ہے؟ کبھی کسی امیدوار سے پوچھا ہے کہ اس کا کشمیر اور فلسطین کے لئے مذمتوں کے علاوہ کیا پلان ہے؟ امریکہ میں الیکشن کے دوران اسرائیل کی حمایت ایک میجر پوائنٹ ہوتا ہے اور کسی پر ذرا سا فلسطین کی حمایت کا الزام ہی لگ جائے تو اسکا ووٹ بینک کریش ہو جاتا ہے۔ جب ہماری اپنی ملی حمیت اور ہوش مندی کا یہ عالم ہے کہ ایم پی اے ایم این اے سے ایسی باتوں پر سوال بھی نہیں کر سکتے تو دوسروں کا مذاق برائے مذاق چہ معنی دارد؟ اس کا فائدہ ہے یا نقصان کہ صرف ایک دوسرے کی خامیاں دکھا دکھا کر ایک دوسرے پر ہنستے ہنساتے رہیں اور ملت کو مزید نفاق پر آمادہ کرتے رہیں؟ سب کو بیت المقدس کی تکلیف ہے۔ لیکن فرقہ واریت کی بنیاد پر تقسیم ہو کر ہم کبھی ان کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے۔ قبلہ اول کی محبت میں ہی دوسرے کی غلط بات یا نامناسب بات کو بڑے مقصد کی خاطر برداشت کرنا سیکھ لیں۔ اللہ اس سوچ کا اجر کبھی نہ کبھی دے دے گا

وصل کے اسباب پیدا ہوں تیری تحریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تیری تقریر سے

ایسی بے تکی چیزیں شئیر کرنے کے بجائے وہ چیزیں شیئر کریں جو اسرائیل دنیا کی آنکھ سے چھپانا چاہتا ہے اور جس میں دنیا اس کا ساتھ دیتی ہے۔ اور شئیر بھی ہم جیسوں سے کرنے کے بجائے ان سے کریں جن کو کرنے کا فائدہ ہو۔ ہم سب تو پہلے ہی غیر مشروط طور پر فلسطین کے ساتھ ہیں۔ دنیا کے بہت سے لوگ اس معاملے میں نیوٹرل ہیں۔ ہمیں ان کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ عالمی میڈیا ان کو یہ دکھاتا ہے کہ فلسطینی “گروپ” دہشت گردی کرتے ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل “مجبورا” بمباری کرتا ہے۔ ہمیں ان معاملات کا دوسرا رخ پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ غزہ اور ویسٹ بینک والے کس اذیت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اسرائیل ان سے کیسے دوسرے درجے کے شہری کے طور پر سلوک کرتا ہے۔ کیسے ان کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں۔ کیسے غزہ کے میڈیا ہاؤسز کو تباہ کر رہے ہیں تاکہ وہاں کے حالات رپورٹ نہ کیے جا سکیں (یہ ضروری ہے کیونکہ دنیا میں جرنلسٹوں پر حملوں اور میڈیا کی آزادی کی اہمیت ہے)۔ کیسے لوگوں کو بغیر مقدمے کے قید کیا جاتا ہے اور پولیس اور فوج نہتوں اور بچوں پر تشدد کرتی ہے۔ وغیرہ۔

آپ ٹوئٹر پر ایک ٹویٹ کر کے دیکھیں۔ پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ کیسے اسرائیل اور اس کے حامی (بالخصوص بھارتی) منٹوں میں شہد کی مکھیوں کی طرح آپ پر حملہ آور ہوں گے اور آپ کے دلائل کی دھجیاں اڑا دیں گے۔ پھر آپ کو احساس ہو گا کہ وہ کتنے منظم اور ہم کتنے خواب غفلت میں سوئے ہوئے ہیں

اسرائیل میں ہر نوجوان مرد اور عورت پر فوجی سروس لازمی ہے جبکہ ہم اس بات پر گھنٹوں بحث کرتے ہیں کہ بچوں کو عید پر کھلونا بندوق خریدنی چاہیئے یا نہیں۔ ان کی یونیورسٹیوں میں روزانہ ایک گھنٹہ پروپیگینڈا لیب میں بیٹھ کر سوشل میڈیا پر اپنے ملک کے نظریات کا دفاع کرنے والوں کو ایکسٹرا کریڈٹ ملتا ہے ڈگری میں اور ہم اس بات پر گھنٹوں نہیں مہینوں ضائع کر سکتے ہیں کہ دو قومی نظریہ درست تھا یا نہیں اور قائد اعظم سیکولر ملک بنانا چاہتے تھے اور اقبال کا خواب کیا تھا۔

وہ چند لاکھ لوگ پوری دنیا سے اربوں ڈالر امداد اکٹھی کرتے ہیں جنگ کے لئے اور ہمارے اکثریت بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ہم آنکھیں بند کر کے اپنے اپنے پسند کے ملک کی پراکسی وار کی حمایت کرتے ہیں اور دوسروں پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ وہ پوری دنیا میں بیٹھ کر اپنے ایک ایک بندے کی حمایت کرتے ہیں۔ اپنے لوگوں کے لیے ان کی کوشش دیکھنی ہے تو ریڈ سی ڈائیونگ ریزورٹ فلم دیکھیں جس میں انہوں نے اپنے ایک ایک بندے کو جنگ سے بچانے کے لئے کتنی محنت کی ہے۔ ان کی ہزاروں فلمیں ہولوکاسٹ میں مرنے والوں پر ہیں جس سے وہ پوری دنیا کی ہمدردیاں لیتے ہیں، ہمیں ابھی تک اردو میں بھی اپنی کہانی تک لکھنی نہیں آتی۔ ہمیں تو نوبل اور آسکر پرائز بھی اپنوں کو غیر مشروط گالیاں دینے پر ملتے ہیں۔

The Red Sea Diving Resort | Official Trailer | Netflix

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech