الله کی تمام تر مخلوقات میں انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل ہے اور ان میں بھی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو الله پاک کی مہربانی سے مسلمان پیدا ہوے ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے عشق رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ہمارے ایمان کا لازمی جز ہے اور اس کا بنیادی نقطہ یہ ہے کے رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم دنیا کے تمام انسانوں سے افضل ہیں اور اسکی وجہ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا نہ صرف انسانوں سے عمدہ اخلاق سے پیش آنا تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و الیہ وسلم کی شفقت و رحمت جانوروں اور پودوں تک کا احاطہ کئے ہوئے تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ہمیشہ سچ بولتے، غریبوں اورمسکینوں کی کفالت فرماتے، نادار لوگوں کا بوجھ اٹھاتے یتیموں بیواؤں کی ضروریات زندگی پوری فرماتے اور پڑوسیوں کے حقوق کی تو اتنی بار تلقین فرمائی کی صحابہ کرام کو لگتا کے کہیں پڑوسی کو وراثت میں سے حصہ دار ہی نہ بنا دیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی سچائی کا یہ عالم تھا کی بد ترین دشمن بھی آپ کی سچائی کے معترف تھے اور اپنی امانتیں آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی حفاظت میں رکھتے۔ الله پے توکل اتنا تھا کے کبھی گھر میں کسی چیز کا ذخیرہ نہ کیا یہاں تک کے اگر روٹی  کا ٹکڑا بھی بچ جاتا تو نماز چھوڑ کے اسے صدقہ کرنے چلے جاتے۔

یہ اور اسکے علاوہ اور بھی بیشمار خوبیاں آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ذات مبارکہ میں موجود تھیں جن کا نہ صرف اس زمانے کے مسلمان بلکہ کافر بھی اعتراف کرتے تھے اور بعد میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ذات پر کتابوں کے دفتر کے دفتر لکھے گئے اور لکھے جاتے رہیں گے۔

عشق رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا پہلا اور بنیادی نقطہ بھی یہی ہے کے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ان خوبیوں کا اعتراف کیا جائے اور اس بات کو حق سچ سمجھیں کے آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی کہی گئی ہر بات  ہر زمانے میں سچ ہے۔۔۔ ایسا سچ کہ جس کے آگے سورج بھی مانند پڑجائے۔

اس بات کا اعتراف محض زبان سے ہی نہیں بلکہ ہمیں اپنی نیتوں اور اعمال ہر دو صورتوں میں کرنا ہوگا، تبھی آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی اطاعت کامل ہو سکے گی۔

اس بات کو تسلیم کرنا آج کے مسلمان کے لیے بہت ضروری ہے اور جتنا ضروری ہے شائد اتنا ہی مشکل بھی، تبھی تو آج ہم صرف زبانی کلامی عاشق رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ہونے کا دعوی کرتے ہے اور جب بات عمل کرنے کی آتی ہے تو اپنے زمانے کا حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے زمانے سے موازنہ شروع کر دیتے ہیں اور طرح طرح کی صفائیاں پیش کرتے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کے کیا کل روزِ محشر ہمارا یہ بہانہ الله کی عدالت میں قابل قبول ہو گا؟

بلکل بھی نہیں

کون کتنا عاشق رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ہے اس کا فیصلہ میں یا آپ کرنے اہل نہیں ہیں۔ ہم تو بس اس بات کا فیصلہ کرنے کے مکلف ہیں کے ہم خود کتنے عاشق رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ہیں، اور جب تک اس فیصلہ کے لئے میزان پہ ہماری باتیں، زبانی دعوے اور پرجوش نعروں کی جگہ ہمارے اعمال نہیں تولے جائیں گے تب تک ہمارے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا دعویٰ خام ہی رہے گا۔