آج بات کرتے ہیں ہمارے معاشرے کی سائنس سے بیزاری اور الرجی کی۔ آج کل کہیں تو سائنس کو مذہب کے خلاف تصور کرتے ہوئے بالکل ہی رد کر دیا جاتا ہے تو کہیں اسے حرفِ آخر اور پتھر پر لکیر سمجھ لیا جاتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہلاکو خان کے ہاتھوں سقوطِ بغداد سے پہلے تک کے مسلمان علماء، اشرافیہ اور عوام کیوں سائنس کے حوالے سے ایسی بے نظیر وسعتِ قلب کے مالک تھے کہ یورپ، ہندوستان، چین جہاں سے بھی انہیں کوئی کتاب ملی، نہ صرف اسے محفوظ کیا بلکہ اس کا ترجمہ کرکے اس کی شرحیں لکھیں اور اس موضوع کو مزید آگے بڑھایا۔ لیکن پھر تیرہویں صدی عیسوی کے بعد ایسی کون سی تبدیلی آئی جس نے امتِ مسلمہ کو مجموعی ذہنی جمود کا شکار بنادیا؟

اگر اس وقت کے یورپ کو دیکھا جائے تو بندہ انگشت بدنداں رہ جاتا ہے، اس لیے نہیں کہ وہ عہدِ تاریکی یا دورِ جاہلیت میں تھے، بلکہ اُس وقت کے یورپ اور آج کی امتِ مسلمہ میں کئی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کون سے اسباب تھے جن کے باعث یورپ تاریکی میں ڈوبا اور پھر اس کی نشاۃ ثانیہ کن اسباب کے باعث ہوئی۔

جدید علوم کی ابتداء یونانیوں کے مشاہدے اور فلسفہ کی وجہ سے ہوئی۔ سقراط، بقراط، افلاطون، جالینوس، ارسطو، فیثاغورس نے مختلف علوم کو ان کی ابتدائی شکل دی اورانسان کو سوال کرنا سکھایا۔ اسی ارسطو کے شاگرد کو دنیا سکندرِاعظم کے نام سے جانتی ہے۔ یونانیوں کے بعد یورپ کی باگ ڈور رومی سلطنت نے سنبھالی۔ اگرچہ سائنسی علوم کے ساتھ ان کا کوئی خاص یارانہ نہیں رہا مگر انہوں نے اپنے وقت کی ایک عظیم تہذیب کی بنیاد رکھی اور اس وقت کی دنیا کے درمیان، جو بحیرہ روم کے کناروں تک محدود تھی، مواصلات اور تجارتی روابط کے ذریعے نادانستہ اور بالواسطہ خیالات کی وسیع تر پیمانے پر ترویج کی۔ روم کے زوال کا آغاز جرمن قبائل کے حملوں سے ہوا اور ایرانیوں کے ساتھ مخاصمت نے ان دونوں سلطنتوں کو لاحاصل جنگوں میں صدیوں تک الجھائے رکھا۔ ان دونوں سلطنتوں کی آمدن تجارت سے ہوتی تھی۔ ایرانی بذریعہ شاہراہِ ریشم چین سے اور رومی بذریعہ بحیرہ روم افریقہ سے تجارت کرتے تھے۔ ایک بات جو خصوصی اہمیت کی حامل ہے، یہ ہے کہ چین اور ہندوستان بھی اپنی اپنی تہذیبوں کے ساتھ اپنے اپنے ادوار میں سائنس میں خاصی مہارت پیدا کرچکے تھے۔

لیکن اسلام کے ظہور کے وقت عمومی طور پر کوئی خاص علمی پیش رفت نہیں ہو رہی تھی۔ اسلام کا ظہور اور اموی خلافت کا پھیلاؤ ایسے واقعات تھے کہ جن کی مثال اس وقت تک کہیں نہیں ملتی تھی۔ عربوں نے مراکش کے ساحل سے مکران اور ماوراء النہرین (وسطی ایشیاء) تک اس وقت تک کی سب سے بڑی سلطنت قائم کی، اندورنی امن و امان قائم کیا اور تجارت و مواصلات کےلیے آسانیاں پیدا کیں۔ اسلامی خلافت اس وقت کی عالمگیر سلطنت تھی، مشرق میں وہ ہندوستان سے منسلک تھی تو مغرب میں ایشیائے کوچک اور اندلس میں یورپ کے ساتھ مربوط اور تیسری جانب شمال میں شاہراہِ ریشم کے ذریعے چینیوں سے منسلک۔ عباسیوں نے اس ’’جیو اسٹریٹیجک لوکیشن ‘‘ کا خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور پوری دنیا سے کتب ڈھونڈ کر بغداد میں مدینۃ الحکمۃ قائم کیا۔ اس دور میں سائنس کی دنیا میں ایک ایسا انقلاب آیا جس نے بہت سے پرانے نظریات کو غلط قرار دے کر جڑ سے اکھاڑ دیا۔ اس وقت کے مسلمان سائنسدانوں نے اپنے یونانی پیشروؤں سے ہٹ کر سائنٹفک طریقۂِ تحقیق کی بنیاد رکھی اور بات محض مشاہدے سے آگے بڑھنے لگی۔ تجربات کی فضاء کو تقویت حاصل ہوئی اور ایسے ایسے کارنامے انجام دیئے گئے کہ آج بھی حیرت ہوتی ہے۔

اس وقت یورپ عہد جاہلیت میں تھا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کی فتوحات کے نتیجے میں رومی سلطنت کے زرخیز صوبے اور ان سے حاصل ہونے والی آمدن رومیوں سے چھن چکے تھے۔ اس آمدن میں نقصان کا اثر پوری سلطنت پر پڑا اور بعد ازاں عربوں کے ساتھ اور آپس کی لڑائیوں نے یورپ کو مزید تاریکی میں دھکیل دیا۔ مسلمانوں کے آپس کے سیاسی اختلافات نے مجموعی طور پر خلافت کو کمزور کیا اور صلیبی جنگوں اور منگولوں نے عربوں کو ایسا کمزور کیا کہ عالمِ اسلام کی سیادت ان کے ہاتھوں سے نکل کر پہلے مملوک اور پھر ترکوں کے پاس چلی گئی۔ عالم اسلام کے تین بڑے علمی مراکز تھے: بغداد، ماوراء النہرین اور اندلس۔ بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی میں منگولوں نے پہلے ماوراء النہرین اور پھر بغداد کو برباد کیا اور پندرہویں صدی میں سقوطِ غرناطہ کے ساتھ ہی یہ آخری علمی مرکز بھی مکمل طور پرمسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔

یہاں ایک نکتہ اہم ہے کہ جس طرح یونانیوں کے بعد رومیوں کے پاس جب تک پیسہ اور عسکری طاقت رہی، وہ چھائے رہے؛ لیکن جیسے ہی ان کی آمدن کے ذرائع پر کسی اور کا قبضہ ہوا، وہ فوراً عہدِ تاریکی میں ڈوبتے چلے گئے۔ بالکل یہی معاملہ مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔ اگرچہ ایک طرف قسطنطنیہ کی فتح کے ساتھ ترکوں نے یورپ کے اندر پیش قدمی شروع کی لیکن انہوں نے عربوں کی طرح اہلِ علم کی سربراہی نہیں کی۔ اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ایک نئے علمی مرکز کا قیام تھا مگر اس پہلو پر کماحقہ توجہ نہیں دی جاسکی۔ اس وقت تک ترکوں کو شکست دینا یورپی اقوام کےلیے مشکل تھا مگر صلیبی جنگوں کے دوران قائم ہونے والے رابطے اور سقوطِ غرناطہ نے اقوامِ یورپ کو اس وقت کے مسلمانوں کی علمی خدمات سے روشناس کروا دیا تھا۔ ان سے جنم لینے والے تازہ خیالات کی روشنی میں یورپ بیدار ہونا شروع ہوا۔ ترکوں کی پیش قدمی نے یورپ اور ایشیا کے درمیان رابطہ منقطع کیا تو مجبوراً یورپی اقوام کو تجارت کےلیے بحری راستے اختیار کرنے پڑے جو کچھ ہی برسوں میں امریکا کی دریافت کا موجب بنے۔

امریکا کی دریافت اور وہاں سے لوٹی گئی دولت نے یورپی معیشت کو دوام بخشا اور جیسے ہی واسکو ڈی گاما نے ہندوستان کا راستہ دریافت کیا، پورا یورپ بحرِ ہند میں صدیوں سے جاری گرم مصالحوں کی تجارت پر ٹوٹ پڑا۔ یہ ترکوں کی آمدن کا اہم ذریعہ تھا جس کے ہاتھ سے نکلتے ہی رفتہ رفتہ ترک معیشت سست ہوتی گئی اور صنعتی انقلاب کو اپنائے بغیر خلافتِ عثمانیہ یورپ کا مردِ بیمار بن کر رہ گئی اور رفتہ رفتہ باقی کا سارا عالمِ اسلام یورپیوں کے زیرِ نگیں آتا چلا گیا۔

یہی وہ عرصہ ہے کہ جس سے آج تک عالمِ اسلام ذہنی طور پر نکل نہیں سکا ہے۔ اپنی تحریر کو تشنہ چھوڑتے ہوئے اجازت چاہوں گا اور کوشش کروں گا کہ جلد ہی تاریخ کا تانا بانا معقول انداز سے جوڑنے کی ایک اور کوشش کرسکوں تاکہ ہمیں اپنی اجتماعی ذہنی کیفیت سے باہر نکلنے میں مدد مل سکے۔

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.