کورونا وائرس کا غلغلہ ہر جگہ سنائی دے رہا ہے ، ہر کوئی اس سے پریشان اور مضطرب نظر آرہا ہے۔  یہ پریشانی اور اضطراب  کوئی بے سبب بھی نہیں ہے کیونکہ تادمِ تحریر کوئی مؤثر دوا یا ویکسین موجود نہیں ہے جو کورونا کے انفیکشن کا تدارک کر سکے، اورفوری طور پر آنے والے کچھ ماہ تک ایسی ادویہ و ویکسینز کی دستیابی کا سرِدست کوئی قوی امکان نظر بھی نہیں آرہا ہے۔ اس تمام صورتحال میں آج بات کرتے ہیں کہ ویکسین کیا چیز ہے، یہ کام کیسے کرتی ہے اور اس کی کون کونسی اقسام ہیں۔

ویکسین کاتصور لیڈی میری ورٹلی مونٹاگونے پہلی بار ترکی میں جانا اور بعدازاں انگلستان اور یورپ کو اس تصور سے روشناس کروایا۔

ویکسن بنیادی طور پر ایسےا جزاء پر مشتمل ہوتی ہے جو کہ کسی بیماری پھیلانے والے خوردبینی جسم (جیسے وائرس) یا جاندار (جیسے جراثیم و غیرہ)   سے مماثلت رکھتے ہیں۔ ان اجزاء میں کسی انسان کو بیمار کرنے کی صلاحیت  ویکسین بنانے کے عمل کے دوران کئی مختلف طریقوں سے ختم کردی جاتی ہے ۔

لیکن ویکسینز کو سمجھنے سے پہلے ہمیں اپنے جسم کے مدافعتی نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ ہمارا مدافعتی نظام ہمیں بیماریوں سے بچاتا ہے۔ اس نظام کے عملاً دو حصے ہوتے ہیں ایک وہ جوہم اپنے والدین سے اپنی پیدائش کے وقت حاصل کرے ہیں ، یہ اننیٹ  ایمیونیٹی یا ذاتی مدافعتی نظام  عمومی طور پر ہمارے جسم کی مسلسل نگرانی کرتا رہتا ہے ، اور کسی بھی جراثیم  وغیرہ  کو ہمارے جسم میں داخل ہونے سے روکتا ہے۔ حاصل شدہ مدافعتی نظام پولیس کی طرح نگرانی کے فرائض انجام دیتا ہے ۔ یہ ہماری جلد سے لیکر منہ، آنکھوں، آنتوں اور خون ، ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ ہمارے پورے جسم میں اس کی چوکیاں ہوتی ہیں اور اس نظام کے خلیات مسلسل ہمارے جسم میں نگرانی کی غرض سے گھومتے پھرتے پائے جاتے ہیں ۔  نگرانی کے علاوہ اس حصے کی ذمہ داریوں میں فوری ایکشن لینا بھی شامل ہوتا ہے مثلاً اگر کوئی جراثیم ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے تو یہ حصہ فوری طور پر حرکت میں آجاتا ہے اور سوجن، بخار جیسی بنیادی تراکیب کی مدد سے آنے والے جراثیم کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔

ہمارا مدافعتی نظام اور ویکسینز 1

ان کوششوں میں ایک اہم ذمہ داری ہمارے مدافعتی نظام کے دوسرے  حصے کو خبردار کرنا بھی ہوتا ہے  ، اس دوسرے حصے کو کام کے اعتبار سے آپ ایس ایس جی کمانڈوز سمجھ لیں، اس حصے کو ایکوائرڈ ایمیونیٹی یا حاصل شدہ مدافعتی نظام  کہتے ہیں ۔ اس حاصل شدہ مدافعتی نظام کے پاس ایسے خلیات ہوتے ہیں جو کہ ہمارے جسم میں داخل ہونے والے کسی بھی  جراثیم کا مکمل بائیو ڈیٹا اپنے ریکارڈ میں محفوظ رکھتے ہیں۔ مدافعتی نظام کا یہ حصہ ہر انسان کی ذات تک محدود ہوتا ہے اور نہ تو آپ اپنے والدین سے یہ جراثیمی ریکارڈ حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں میں منتقل۔یہ ریکارڈ ہر انسان کی زندگی کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور اس کی موت  پر ختم ہوجاتا ہے۔  یہاں ایک بات سمجھنا ضروری ہے کہ دونوں حصے برابر اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ اگر ذاتی مدافعتی نظام کام کرنا  چھوڑ دے تو  حاصل شدہ  نظام کو یہ پتا ہی نہیں چلے گا کہ حملہ آور کونسا جراثیم ہے اور جتنی دیر میں یہ نظام  حرکت میں آئے گا  اس وقت تک جراثیم کا پھیلاؤ اس قدر بڑھ چکا ہوگا کہ سنبھالنا ہی مشکل ہوجائے گیا۔ اسی طرح اگر صرف ذاتی نظام پہ تکیہ کیا جائے تو پھر اگر ایک ہی جراثیم چھ بار بھی ہمارے جسم میں داخل ہوگا تو ہمیں چھ کے چھ بار بیماری اور بخار سے گزرنا  پڑے گا ۔

اب آتے ہیں ویکسین کی طرف۔۔۔۔ ویکسین ہمارے مدافعتی نظام کے دونوں حصوں کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں کیسےبیماری سے بچاتی ہے۔ جیسا کہ آپ جان چکے ہیں کہ ویکسین  کا بنیادی جز کسی مخصوص بیماری پھیلانے والے جراثیم  کی شکل و صورت کا حامل ہوتا ہے ۔ اس کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ یہ ویکسین اس مخصوص جرثومے کی شاخت پریڈ ہمارے مدافعتی نظام کو کروادے۔ یہ شاخت پریڈ ذاتی نظام کے ذریع ہوتی ہے اور  حاصل شدہ  نظام کے ریکارڈ میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ کبھی کبھار یہ شناخت پریڈ ایسی زبردست ہوتی ہے کہ ایک بار ویکسین لینے کے بعد ریکارڈ زندگی بھر کے لئے محفوظ ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد دو تین بار یادہانی کروانی پڑتی ہے، یہ ویکسین کی قسم پر منحصر ہوتا ہے۔

ہمارا مدافعتی نظام اور ویکسینز 2

اب بات کرتے ہیں ویکسین کی اقسام اور بنانےکے طورطریقوں کی۔  سب سے پہلی قسم کی ویکسین میں مردہ جراثیم شامل ہوتے ہیں۔ ان جراثیم کو مارنے کے لیے حرارت ، تعابکاری یا دیگر کیمیائی اجزاء  استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان مردہ جراثیم کی شکل و صورت اپنے زندہ بھائیوں جیسی ہی ہوتی ہے لہٰذا اب جب کبھی   اس قسم کے جراثیم حملہ آور ہونے کی کوشش کریں گے تو مدافعتی نظام  اپنے ریکارڈ کی موجودگی میں فوراً حرکت میں آئے گا اور ان کا صفایا کردے گا۔ ہیپیٹائٹس اے، انفلوئینزا اور ریبیز وغیرہ کی ویکسین اس طریقے سے بنائی جاتی ہیں ۔ کبھی کبھی کسی ایسے جرثومہ   سے ہمارا واسطہ پڑجاتا ہے کہ اگر اس کو مار دہا جائے تو اس کی شکل بدل جاتی ہے،  اگر اس مردہ جرثومہ کو بطور ویکسین استعمال کیا جائے تو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں سائنسدان کوشش کرتے ہیں کہ کسی طریقے سے اس جرثومے کی بیمار کرنے کی صلاحیت کو ختم کردیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ سمجھیں کہ کسی علاقے میں ایک ہی چور ہے اور اہل علاقہ اس کی تصویر پولیس اور چوکیداروں کو پہلے سے ہی دیدیں کہ جیسے ہی یہ بندہ نظر آئے تو اس پکڑلیا جائے۔ اب اس بیچارے چور کو کہاں چوری کرنے کا موقع مل سکے گا بھلا۔ ٹی بی، خسرہ اور طاعون  کی ویکسینز اس دوسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ تیسری قسم کی ویکسین ان مخصوص جراثیم کے لئے  ہوتی ہے جو بذاتِ خود بیمار کرنے کی بجائے کسی زہر کی مدد سے ہمیں بیمار کرتے ہیں۔ ایسے جراثیم کی شناخت پریڈ کروانے کاکوئی خاص فائدہ  نہیں ہوتا کیونکہ اگر وہ جرثومہ ہمارے جسم میں داخل نہ بھی ہو اور ان کا زہر خوراک ،پانی یا  اورکسی  بھی شکل میں ہمارے جسم میں داخل ہوجاے تو ہمارا مدافعتی نظام تو اس جرثومے کے پیچھے بھاگتا پھر گا جبکہ وہ زہر ہمیں بآسانی بیمار کردے گا۔ لہٰذا ایسی صورتحال میں جرثومے کی جگہ اس کے زہر کو ناکارہ کرنے کے بعد بطور ویکسین استعمال کیا جاتا ہے۔ تشنج  کی ویکسین کا تعلق اس قسم سے ہے۔ بعض اوقات جرثومہ زندہ یا مردہ دونوں حالتوں میں اتنا نقصان دہ   ہوتا ہے کہ کسی بھی شکل میں اسے  بطور ویکسین استعمال نہیں کا جا سکتا ، ایسے جراثیم کے لئے ویکسین بنانا تھوڑا مشکل اور پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ ایسے کسی جرثومہ کے لئے ویکسین بناتے وقت سائنسدان اس جرثومے کے بنیادی خدوخال کا جائزہ  لیکر اس کے خلیہ کے ایسے چھوٹے چھوٹے  حصے ڈھونڈتے ہیں کہ جو ہمارے مدافعتی نظام کو اس جرثومہ کی صحیح شاخت کروا سکیں۔ آسان زبان میں ویکسین کی اس قسم کی مثال یہ سمجھ لیں  کہ آپ کے علاقے کا چور سرخ رنگ کا کوٹ پہنتا ہے، اس  کوٹ کے بٹن سبز رنگ کے ہیں اور اس کوٹ کی کالر میں ایک زرد رنگ کا گلاب کا پھول  لگا ہوا ہے۔ اب یہ سرخ کوٹ، سبز بٹن اور زرد گلاب  اگرچہ چور کے حلیہ میں تو شامل ہیں مگر  چور کی پوری تصویر  نہیں دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی چور کے علاوہ کسی اور شخص کے پاس ایسا کوئی کوٹ  بھی موجود نہیں ہے لہٰذا جیسے ہی  کوئی شخص سبز بٹنوں والا سرخ کوٹ جس پہ زرد گلاب لگا ہوا   ہو پہنے ہوئے نظر آئے گا فوراً شناخت کرلیا جائے گا۔  بعض صورتوں میں صرف کوٹ ہی کافی نہیں ہوتا  بلکہ مزید معلومات بھی چاہیئے ہوتی ہے کہ چہرے پہ ماسک کس قسم اور رنگ کا پہنا ہوا ہوگا  جوتے کیسے ہونگے وغیرہ وغیرہ ۔ ہیپیٹائٹس بی  اور پیپی لومہ  وائرس کی ویکسینز ان دونوں طریقوں سے تیار کی جاتی ہیں۔

یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ جیسے ہی کوئی ویکسین کسی انسان کو دی جاتی ہے تو مدافعتی نظام   فوراً اس کو حملہ آور جرثومہ سمجھ کر نہ صرف تباہ کردے گا بلکہ ساتھ ساتھ اپنے ریکارڈ میں آئندہ کے لئے محفوظ بھی کرلے گا۔ لیکن اگر کبھی ایسا ہو کہ ہمارا مدافعتی نظام ویکسین کو حملہ آور جراثیم ہی نہ سمجھے تو ایسی صورت میں ویکسین کے خلاف نہ تو کوئی کاروائی ہوگی اور نہ ہی اسے کسی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے گا۔ ایسی صورت میں ویکسین بنانے کا مقصد ہی سرے سے ختم ہوجائے گا۔ یا پھر ویکسین تو ٹھیک کام کرتی ہو مگر اس کی ایکسپائری ڈیٹ بہت تھوڑی ہو مثلاً ہفتہ، دس دن یا پھر ایک مہینہ۔ ان دونوں صورتوں میں ویکسین اپنے مطلوبہ مقصد یعنی ایک موثر شناخت پریڈ میں ناکام ہی رہے گی ۔  ان دونوں مسائل کا حل سائنسدانوں نے یہ نکالا کہ انھوں نے ویکسین میں کچھ اضافی اشیاء شامل کردی جنھیں  ایڈجووینٹ کہا جاتا ہے۔  ایڈجووینٹس وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کا جرثومہ کی مخصوص ساخت و  شناخت کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے مگر یہ ہمارے ذاتی مدافعتی نظام کو شدت کے ساتھ حرکت میں آنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ان ایڈجووینٹس کے ساتھ جب جراثیم کے اجزاء کو جوڑ دیا جاتا ہے تو شناخت پریڈ کی افادیت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح  ویکسین کی شیلف لائف یا عمر بڑھانے کے لئے پریزرویٹیوز استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ ویکسین کی افادیت لمبے عرصے تک برقرار رہ سکے۔  

اپنی تحریر کو تشنہ چھوڑتے ہوئے اجازت چاہوں گا اور کوشش کروں گا کہ جلد ہی اگلے حصے میں  آپ کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کے خلاف ہونے والی تحقیقی کاوشوں کا جائزہ پیش کرسکوں۔

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.