ابن رشد یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار سمجھا جاتا ہے۔ وہ قرطبہ کا چیف جسٹس (مفتی اعظم یا قاضی القضا) تھا اور اپنے کیریئر کے دوران اس نے متعدد کتابیں لکھیں جن میں سب سے مشہور تہافت التہافت ہے۔ یہ دراصل ارسطو کے فلسفہ اور اسلامی مذہبی طرز تفکر کو ملانے کی ایک کوشش تھی جس کی وجہ سے یورپ کے ادبی حلقوں میں ارسطو کا فلسفہ (جو پہلے مکمل طور پر بھلایا جا چکا تھا) ایک دفعہ پھر زندہ ہو گیا۔

ابن رشد کی شخصیت اس وجہ سے حیران کن ہے کہ چیف جسٹس جیسے اہم عہدے اور ذمہ داری کے باوجود وہ دھڑادھڑ کتابیں لکھتا تھا اور فلسفہ میں ایک مکمل طور پر نئے مکتبہ فکر کی بنیاد ڈالی۔ خیر تہافت التہافت کی سب سے اہم بات جس کا میں یہاں تذکرہ کرنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ ابن رشد کے مطابق مذہبی سوچ اور فلسفہ گرچہ سطحی طور پر دیکھنے میں مختلف، یہاں تک کہ متصادم نظر آتے ہیں، لیکن یہ دونوں ہی حتمی سچائی تک پہنچنے کے (درست) راستے ہیں۔ یعنی ایسا ممکن ہے کہ دو باتیں آپس میں بالکل متضاد ہوں لیکن پھر بھی ان کا منطقی نتیجہ ایک ہی نکلتا ہو۔ یہ اپنے آپ میں ایک انقلابی نظریہ تھا۔

میں نے بارہ سال پہلے جب تدریس شروع کی تو میں ابن رشد کے اس فلسفے سے بہت متاثر تھا۔ اس نے مجھے احساس دلایا کہ مخالف آئیڈیاز کو یکسر مسترد کیے بغیر ان میں چھپی ہم آہنگی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی جانی چاہیئے۔

حیاتیات پڑھانے میں سب سے زیادہ دشواری اور مخالفت کا سامنا عموما نظریہ ارتقا پڑھاتے ہوئے ہوتا ہے اور طلبا وقتی طور پر خاموش ہو بھی جائیں تو دل سے بتائی گئی باتوں کو تسلیم نہیں کرتے، اور اس وجہ سے سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ اس پر طرہ یہ کہ اکثر اساتذہ اپنے اساتذہ اور معاشرے سے سن سنا کر اس قسم کی کوئی بات کر دیتے ہیں گویا اس نظریے میں کوئئ سقم ہے اور بعد میں یہ بات ساری زندگی بچوں کے لیے سند کی حیثیت رکھتی ہے کہ فلاں استاد نے ایسا کہا تھا۔ اسی کے ساتھ ایک زیادہ خطرناک رجحان یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتاب میں لکھی بات (جو درجنوں ماہرین نے لاکھوں ماہرین کی تحقیق اورعرق ریزی کے بعد لکھی ہے) غلط ہے اور ایک فرد جو سامنے کھڑا ہے، اس کی بات میں زیادہ وزن ہے۔

مسئلہ تب بنتا ہے جب یہی بچے ایف ایس سی سے اوپر کی سطح پر حیاتیات پڑھتے ہیں۔ یہاں چونکہ خود مطالعہ کرنے اور مختلف کتابوں کا تقابلی جائزہ کرنے کی تاکید کی جاتی ہے، تو بہت سے طلبا پر یہ آشکار ہوتا ہے کہ کتاب میں لکھی باتیں ہی دراصل درست تھیں اور جو باتیں استاد اس کے رد میں کہہ رہے تھے ان کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے۔ یوں اپنے بچپنے کے آئیڈیلز پاش پاش ہو جاتے ہیں اور پہلے جن کی عزت دل میں تھی اب وہ احمق اور دقیا نوس گردانے جاتے ہیں۔ پہلے حالِ دل پر ہنسی آتی ہے اور پھر وہ مقام آتا ہے جب کسی بات پر نہیں آتی، بلکہ غصہ آتا ہے۔ یہی چیز پھر سائنس پڑھنے والے نوجوانوں میں مذہب بیزاری کی بڑی وجہ بنتی ہے۔

اسی قسم کی صورتحال کا سامنا انگریزی ادب، دینیات اور دیگر مضامین پڑھنے پڑھانے والوں کو بھی کرنا پڑتا ہے، گرچہ اختلافی موضوعات مختلف ہو سکتے ہیں۔

بات یہاں ختم ہو جاتی تو بھی شاید مسئلہ اتنا بڑا نہ ہوتا۔ جب اپنے اساتذہ اور بڑوں کی سوچ سے متنفر یہی افراد استاد بنتے ہیں تو زیادہ شد و مد سے ان نظریات کو کم عمر بچوں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا ردعمل بھی زیادہ شدید آتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب وہ خود بچوں کی جگہ تھے تو ان کی سوچ کی سطح اور جذبات کی شدت کیسی تھی اور ایسے میں نتیجہ بعض دفعہ کمرہ جماعت میں شدید تناؤ کی صورت میں نکلتا ہے۔

یہ پانچ سات سال پہلے کی جب ہمارے کالج کا نیا نیا عروج شروع ہوا تھا اور بہت اچھے نمبروں والے بچے داخلہ لینے لگے۔ ہزار سے کچھ اوپر نمبروں والے ایک بچے نے ہفتہ دس دن بعد کالج چھوڑ دیا۔ بہت کوشش کے باوجود اس نے وجہ نہیں بتائی۔ تقریبا ایک سال بعد وہ کسی اور طالبعلم کا داخلہ کروانے آیا تو بتایا کہ دراصل انگریزی کا پہلا سبق پڑھاتے ہوئے استاد صاحب نے اس قصے کو ایک پیغمبر سے جا ملایا اور ان کے حوالے سے کچھ ایسے الفاظ استعمال کیے جو شاید نہیں کرنے چاہیئے تھے۔ بچے نے یہ معاملہ اپنی مسجد میں بتایا جس پر اس کو کہا گیا کہ ایسے استاد سے پڑھنا مناسب نہیں لہذا اس ہونہار طالبعلم نے تعلیم چھوڑ دی۔ بعد میں دیگر طلبا سے معلوم ہوا کہ وہ استاد صاحب ایسی باتیں اکثر کر دیتے تھے۔

اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اساتذہ کو کلاس میں اپنے نظریات کے پرچار کی کس حد تک آزادی ہے۔ تاہم مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ معصوم (لیکن جذباتی) بچوں کے سامنے ایسی باتیں کرنے کا کیا مقصد ہے جب کہ آپ کو معلوم ہو کہ وہ قبول نہیں کریں گے؟ کیا آپ کا انداز ہی ایسا ہے کہ کوئی بات کو قبول کرنے کو تیار ہو؟ کیا آپ درپردہ سامنے والے کے جذبات مجروح تو نہیں کرنا چاہ رہے؟ کیا بات کرنے کا مقصد مثبت تعمیری مباحثے کو فروغ دینا ہے؟ کیا بات کرنے کا انداز اس طرح بدلا نہیں جا سکتا کہ سامنے والا قبول کرنے پر راضی ہو؟

میں کلاس روم میں ارتقا پڑھاتا بھی ہوں، اس حوالے سے ڈاکومنٹریز بھی دکھاتا ہوں، کئی دفعہ پبلک میں اس حوالے سے مباحث میں بھی حصہ لیتا ہوں اور سوشل میڈیا اور اپنی ویب سائٹ پر اس حوالے سے بلاگز بھی لکھتا ہوں۔ تاہم مجھے آج تک معمولی بحث مباحثے یا تنقید کے علاوہ کبھی کسی شدید رد عمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بات کرتے ہوئے سامنے والے کی جذباتی عقیدت اور لگاؤ کو مدنظر رکھا جائے تو میرا حیال ہے مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ ابن رشد کہتا ہے کہ دونوں متصادم تشریحات شاید ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech