ہمیں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ صنعتی انقلاب سوا دو سو یا اڑھائی سو سال پہلے انگلستان میں شروع ہوا۔ یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ صنعتی انقلاب تقریبا بارہ سو سال پہلے مشرق وسطی میں شروع ہوا۔ صنعت سے مراد تمام مزدوروں کو ایک چھت کے نیچے اس طرح جمع کرنا ہوتا ہے کہ ہر شخص اصل مصنوعات کی تیاری میں ایک چھوٹا سا حصہ بنا رہا ہو تاکہ یہ عمل تیز رفتاری سے تکمیل پائے۔ انگریزوں نے پہلے سے موجود نظام میں یہ اضافہ کیا کہ اس میں کنویئر بیلٹ شامل کر دی جو بھاپ کی طاقت سے چلتی تھی۔ یہ اپنے آپ میں ایک کمال کا اضافہ تھا۔

ایک لمحے کو سوچیں کہ مثال کے طور پر میں فیکٹری میں کام کرنے والا ایک کاریگر ہوں جہاں جوتے بنائے جا رہے ہیں۔ میری ذمہ داری جوتے کے ساتھ تلوا جوڑنا ہے۔ تو آپ مجھے تلووں کا ایک ڈھیر صبح کو دے دیتے ہیں اور میں ان کو جوتوں کے ساتھ جوڑتا جاتا ہوں۔ پھر میں یہ جوتا اپنے سے اگلے کاریگر کے حوالے کر دیتا ہوں جس کا کام شاید ایڑھی جوڑنا ہو۔ تو وہ ایڑھیاں جوڑتا جائے گا۔ تو جب وہ کافی سارے جوتوں پر ایڑھیاں لگا لے گا تو وہ اپنا ڈھیر اٹھا کر اپنے سے اگلے شخص کے پاس دے آئے گا جو شاید تسموں کے لیے سوراخ بنا رہا ہو گا۔ ہر بندہ اپنے حصے کا کام کر رہا ہے اور کام ایک ترتیب کے ساتھ چلتا جا رہا ہے۔

اگر اس عمل کے دوران کنویئر بیلٹ کا اضافہ کر دیا جائے تو پیداواری صلاحیت یکسر بدل جائے گی۔ کیونکہ ابھی تک کام کی رفتار کو کام کرنے والے کنٹرول کرتے ہیں۔ وہ سامان اٹھا کر اپنے سے اگلے کاریگر کو دیتے ہیں اور اس سے کام کی رفتار متعین ہوتی ہے۔ لیکن اگر سامان کو ایک کاریگر سے اگلے کاریگر تک لیجانے کے لیے کنویئر بیلٹ لگا دی جائے تو اب کام کی رفتار کو مزدور نہیں بلکہ مینیجر سیٹ کرے گا۔ مزدور کے پاس کسی حد تک جو خودمختاری باقی تھی وہ بھی اس سے چھین لی گئی کیونکہ اگر آپ کا کام کنویئر بیلٹ کی رفتار سے سست ہے تو آپ کی تنخواہ کاٹی جائے گی۔ اس لیے آپ کو تیزی سے کام کرنا پڑے گا۔ تو انگریزوں کی اس نئی اختراع سے مزدوروں کی رہی سہی خود مختاری بھی ختم ہو گئی، لیکن صنعتیں بہر حال پہلے سے موجود تھیں۔

عربوں نے سنہ سات سو گیارہ میں حملہ کیا تو وہ تقریبا دس پندرہ فیصد حصے کے علاوہ باقی سارے سپین پر قابض ہو گئے تھے۔ شمال کے کچھ علاقے پر عیسائی ریاستیں تھیں۔ تو جب انہوں نے مسلمانوں کے زیرِ تسلط علاقے دوبارہ چھڑانے کا فیصلہ کیا اور مسلمانوں اور یہودیوں کو وہاں سے بیدخل کیا تو اس عمل میں تقریبا سات سو اکیاسی سال لگے۔ یعنی تقریبا انتالیس نسلیں اس کوشش میں گزر گئیں اگر ایک نسل آپ بیس سال کی گنیں۔ آج کل ایک جنریشن بارہ سال کی گنی جاتی ہے (جیسے جنریشن ایکس، جنریشن زی وغیرہ)۔ رومیوں میں ایک جنریشن تیرہ سال کی گنی جاتی تھی یعنی شادی کی عمر تیرہ سال تھی۔

بہر حال، جب عیسائیوں نے سپین پر دوبارہ قبضہ کیا تو ان کے پاس کوئی صنعت موجود نہیں تھی اور اس کی وجہ ان کی حکمت عملی تھی کہ جس چیز پر قبضہ کرو اسے آگ لگا دو۔ ان کو قبضہ کرنے میں آٹھ سو سال اس لیے لگ گئے کہ مسلم سپین کی آبادی زیادہ تھی اور ان کی ٹیکنالوجی اور دولت کی صورتحال بہت بہتر تھی۔ عیسائی سپین کے حالات برے تھے۔ ان کے پاس نہ عددی برتری تھی نہ تکنیکی۔ لیکن ان کومذہبی جنون اور آگ لگانے کی پالیسی نے بالاخر جتوا دیا۔ اگر وہ کسی فیکٹری پر قبضہ کرتے تو اس کو آگ لگا دیتے۔ اس سے ملسلمانوں کی واپس قبضہ کرنے کی خواہش ختم ہو جاتی۔ اگر مسلمان پھر بھی دوبارہ حملہ کرتے اور فیکٹری دوبارہ کھڑی کر ہی لیتے تو کچھ عرصے بعد عیسائی پھر سے آتے اور آگ لگا کر اسے زمین بوس کر دیتے۔ یوں کبھی نہ کبھی مسلمان تنگ آ کر علاقہ چھوڑ دیتے اور سات سو اکاسی سالوں میں یہی کچھ چلتا رہا۔

یوں تھوڑا تھوڑا کر کے جب بالاخر غرناطہ پر عیسائیوں نے چودہ سو بانوے میں قبضہ کیا تو ان کے پاس کوئی صنعت موجود نہیں تھی لیکن جرمنی اور اٹلی ان کے زیر تسلط تھے۔ تو جب میکسیکو پر سپین کا قبضہ ہوا تو وہاں کی کپاس جرمنی اور اٹلی کی فیکٹریوں میں بنی جاتی اور کپڑا بن کر واپس سپین جاتی اور یوں سپین کپڑے کی تجارت کرتا تھا۔

ملکہ الزبتھ کا پلان یہ تھا کہ کسی طرح میکسیکو میں غلاموں کی تیار کردہ کپاس انگلستان لائی جائے، وہاں موجود اون کی انڈسٹری کی مدد سے کپڑا بنا جائے جو اٹلی کی نسبت خواہ اچھی کوالٹی کا نہ بھی ہو لیکن سستا ہو۔ اس مقصد کے لیے اس نے پرائیویٹیئر کھڑے کیے (جو برطانوی لائسنس یافتہ بحری قزاق تھے جنہیں دشمن کی کشتیوں پر حملہ کرنے اور لوٹنے کی اجازت تھی)۔ یہ سپین کی نوآبادیوں سے غیر قانونی تجارت کرتے تھے کیونکہ سپین کی طرف سے تجارت کی اجازت نہیں تھی۔ یہ وہاں جا کر کپاس خرید کر برطانیہ لاتے تھے لیکن یہ ایک سست رفتار عمل تھا اسلیے انہوں نے خریداری کے بجائے قزاقی کی راہ اختیار کی۔ اس میں آپ کو سر فرانسس ڈریک جیسے نام ملتے ہیں جو سمندر میں سپینیوں کی گردنیں اڑانے کے لیے مشہور ہے۔ اسے لگتا تھا کہ وہ زمین پر خدا کا کام کر رہا ہے۔ یعنی وہ قتل و غارت اس لیے نہیں کر رہا تھا کہ سامان لوٹنے اور قزاقی (جو اس کا اصل پیشہ تھا) کے دوران مجبوری تھی، بلکہ اسلیے کہ اسے لگتا تھا کہ خدا کو کیتھولک عیسائیوں سے نفرت ہے۔

پھر سر والٹر ریلے کو ایک نیا خیال آیا۔ وہ ملکہ کا آشنا تھا اور اسے سمندر میں آوارہ گردی پسند تھی۔ یہ وہ پہلا یورپی ہے جس نے معلوم کیا کہ اورینوکو دریا دونوں طرف سے سمندر سے ملتا ہے۔ اس نے اس دریا کے ذریعے بحرالکاہل سے بحر اوقیانوس تک کا سفر کیا۔ اسی نے انگلستان میں تمباکو متعارف کروائی۔ اپنے ایک سفر کے دوران وہ کیپ ہیٹراس (موجودہ شمالی کیرولائنا) سے گزر رہا تھا جب اسے پتہ لگا کہ جب آپ بحر اوقیانوس سے امریکہ کی طرف آئیں تو یہاں کا ساحل اصل میں ساحل نہیں بلکہ ساحل سے آگے ایک بڑا سا جزیرہ  ہے جس کے پیچھے دو بڑی خلیجیں ہیں۔  ان خلیجوں اور جزیرے کے درمیان ایک اور چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ اس نے ملکہ کو بتایا کہ جب اوقیانوس سے دیکھیں تو آپ کو یہ جزیرہ پیچھے نظر آتا ہے لیکن اس کے پیچھے چھپی خلیجیں بالکل نظر نہیں آتیں جب تک آپ ان کے دہانے پر نہ پہنچ جائیں۔ ہمیں اس جزیرے پر ایک خفیہ اڈہ بنانا چاہیئے تاکہ سپین کی کالونیوں سے بہتر طریقے سے غیر قانونی تجارت ہو سکے۔ ملکہ کو یہ خیال بہت پسند آیا۔ چنانچہ پندرہ سو ستاسی میں انہوں نے یہاں ایک کالونی کی بنیاد رکھی۔

اگلے سال معجزاتی طور پر انگریزوں نے (برطانیہ پر حملہ کرنے کے لیے آنے والا) ہسپانوی بیڑہ غرق کر دیا۔ یہ کسی طرح بھی ممکن محسوس نہیں ہوتا۔ انگریزوں کی تعداد کم تھی، ہسپانوی جہاز بہت بہتر تھے۔ ہسپانوی ملاح زیادہ ماہر تھے۔ ہسپانیوں کو ہر قسم کی برتری حاصل تھی لیکن پھر بھی انگریز کامیاب ہو گئے۔ اس میں سبق یہ ہے کہ غرور خاک میں مل جاتا ہے۔ ایسا دوسری جنگ عظیم میں بھی ہوا جب امریکی ٹینک محض کوڑا کرکٹ تھے اور جرمن ٹینک بہترین ٹیکنالوجی کا شاہکار تھے لیکن وہ ہار گئے۔ بہرحال انگریز ہسپانویوں کی شکست پر اتنے خوش تھے کہ اپنی کالونی کو بھول گئے اور کئی سال بعد جب وہاں دوبارہ گئے تو کالونی ختم ہو چکی تھی۔

اس کے بعد ایک اور بیڑہ پندرہ سو نوے میں بہاما، کیوبا اور فلوریڈا سے ہوتا ہوا ہیوسٹن پہنچا جہاں سب مر گئے۔ وہ راستہ بھول گئے تھے۔ پھر سولہ سو سات میں انہوں نے پھر سے کوشش کی جو جیمز ٹاؤن پہنچا۔ ملکہ سولہ سو تین میں مر چکی تھی۔ اب جیمز اول بادشاہ تھا جس کو اس نے خود جانشین مقرر کیا تھا کیونکہ اگر ملکہ کے بچے تھے بھی تو وہ ناجائز تصور ہوتے (کیونکہ وہ شادی شدہ نہیں تھی) اور قانون وراثت میں ان کا حق نہیں مانتا تھا۔ یعنی وہ کسی طرح اپنے حقیقی بچوں کو حکمران نہیں بنا سکتی تھی اسلیے مجبورا جیمز کو بادشاہ بنایا۔ یوں سٹوئرٹ خاندان حکومت میں آیا اور چار نسلوں تک حکومت میں رہا۔ وہ سکاٹش کیتھولک تھے۔

بہر حال، ایک دفعہ پھر سے برطانوی امریکہ کے ساحل پر اترے۔ لیکن اس دفعہ وہ عام لوگ نہیں تھے۔ وہ سب مرد تھے اور اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ وہاں ایک خطہ زمین پر قبضہ کریں اور سونا ڈھونڈیں۔ ان کا خیال تھا کہ ہسپانوی یہاں سے اتنا سونا لے کر جا رہے ہیں تو یقینا ہر جگہ سونا ہی بکھرا پڑا ہو گا۔ تو ان کی خواہش تھی کہ سونا برطانیہ لے جائیں گے اور وہاں سے خرید کر دلہن اور مزارعے یہاں لائیں گے اور یہاں کے جاگیر دار بن جائیں گے۔ اور جو کچھ اگے گا اس کی تجارت برطانیہ اور یورپ میں کریں گے۔

مسئلہ یہ ہوا کہ جیمز ٹاؤن کا ہر طرح سے ستیاناس ہو گیا۔ وہاں لوگ بھوک سے مرتے رہے اور ایک دوسرے کو کھانے لگے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ سب بگڑے ہوئے نواب زادے تھے۔ انہوں نے زندگی میں کبھی کام نہیں کیا تھا۔ وہ انتہائی مراعات یافتہ تھے۔ وہ سارا دن بندوقیں پکڑے شکار کھیلتے یا سونا ڈھونڈتے۔ انہیں کام کرنے کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ وہاں کوئی سونا نہیں تھا۔ براعظم امریکہ کی دوسری (مغربی) طرف کیلی فورنیا، نواڈا، یا کولاراڈو میں سونا مل سکتا تھا لیکن (مشرق میں) ورجینیا میں نہیں۔

قحط کے بعد جان سمتھ نے فوج کی مدد سے کالونی پر قبضہ کر لیا اور سب کو کام پر مجبور کرنے لگا۔ کیونکہ آدھی کالونی مر چکی تھی اسلیے اس نے باقی سب کے لیے خوراک اگانا لازمی کر دیا۔ حیران کن طور پر سب نے اس آمر کا کہنا ماننا شروع کر دیا۔ چھے سات سال ایسے ہی چلتا رہا یہاں تک کہ سمتھ کو احساس ہوا کہ یہاں سونا نہیں ملے گا اور وہ جہاز پر سوار ہو کر ہمیشہ کے لیے واپس چلا گیا۔ حالات ایسے ہی چلتے رہے یہاں تک کہ جان رالف نے تمباکو کو قابل استعمال بنایا۔ اس سے پہلے تمباکو دستیاب تھا لیکن وہ خام ہوتا تھا یعنی اس کے کش لگانے سے شدید کھانسی آتی تھی۔ رالف نے طریقہ دریافت کیا جس سے اب، سوائے شروع میں سیکھتے ہوئے، کھانسی نہیں آتی تھی۔ انہوں نے اس کے ذائقے کو بھی سٹینڈرڈائز کیا اور اب ایک نیا سوال ان کا منہ تک رہا تھا۔

سوال یہ تھا کہ کیا ہم تمباکو اپنی عوام کو بیچیں؟

(جاری ہے)

یہ رائے کاساگرانڈا کے موجودہ سیاسی و معاشی نظام کے موضوع پر ایک لیکچر کا ترجمہ ہے۔ مکمل لیکچر یہاں دیکھ سکتے ہیں

Why Did Someone Think This Was a Good Destination (Part 1: The Grand Wealth Redistribution Scheme)

The long awaited Part 1 of this critical series is finally here.

The long awaited Part 1 of this critical series is finally here.

The long awaited Part 1 of this critical series is finally here.

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech