لوگ کہتے ہیں کہ برطانیہ کو برصغیر میں روا رکھے جانے والے مظالم کے بدلے میں جرمانہ ادا کرنا چاہیئے۔ میرے خیال میں یہ مطالبہ کسی طرح بھی ٹھیک نہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جو ظلم یہاں ہوا وہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کا تخمینہ لگانا ہی ناممکن ہے۔ مثال کے طور پر آپ ان تین کروڑ پچاس لاکھ انسانی جانوں کی قیمت کتنی لگائیں گے جو برطانوی حکومت کے دور میں غلط پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے قحط سے مارے گئے۔ یہ قیمت اتنی زیادہ ہے کہ کبھی ادا ہی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن پھر بھی ان تمام مظالم کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے کہ کہیں یہ بھلا ہی نہ دیے جائیں اور مستقبل کے تاریخ دان تاریخ کو کسی اور ہی نظر سے دیکھتے رہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ باتیں شاید لوگوں کو پتہ ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب ہی ان چیزوں سے مکمل طور پر لاعلم ہیں۔

انگریز جب اس ملک میں آئے تو اس وقت یہ خطہ دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ برطانوی ماہر معاشیات اینگس میڈیسن کی تحقیق کے مطابق سنہ سترہ سو میں برصغیر کا جی ڈی پی پوری دنیا کا ستائیس فیصد تھا اور اٹھارہ سو میں یہ تقریبا تیئیس فیصد تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ بہت خوشحال اور ترقی یافتہ تھا اور تقریبا دو ہزار سال سے کپڑا، بحری جہاز اور سٹیل پوری دنیا میں برآمد ہوتا تھا۔ انگریزوں کے یہاں قبضے اور دو سو سال کی لوٹ مار نے اس خطے کو غربت کی تصویر بنا دیا۔ یہاں تک کہ جب انگریز انیس سو سینتالیس میں انگریز واپس گئے تو اس ملک کی نوے فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔ یہاں کے لوگوں کی اوسط عمر صرف 27 سال رہ گئی تھی اور اور شرح خواندگی 17 فیصد سے بھی کم تھی۔ ان دو سو سالوں کی تباہی کی داستان سنانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ بہت سے تاریخ دانوں جیسے کہ پروفیسر فرگوسن اور مشہور مصنفین جیسے لارنس جیمز اور اینڈی رابرٹس نے دلائل پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ برٹش راج اصل میں اس خطے کے لیے بھلائی کا پیغام لایا تھا۔ ان لوگوں کے خیال میں برٹش راج نے بھارت کے لئے عالمگیریت کا کا باب کھولا جس کی وجہ سے اس علاقے نے بہت فائدہ اٹھایا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے چارٹر میں ملکہ برطانیہ کی طرف سے یہ بات شامل کی گئی تھی کہ وہ اپنے معاشی فائدے حاصل کرنے کے لیے جارحیت کا استعمال کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف انگریزوں کے لیے یہ وقت بہت سازگار تھا کیونکہ مغل حکومت سترہ سو کے بعد سے بہت کمزور ہو چکی تھی۔ جب انگریز یہاں پہنچے تو اس وقت برصغیر دنیا کی امیر ترین حکومت تھا یہاں تک کہ اورنگزیب کی حکومت یورپ کے تمام بادشاہوں کی کل دولت سے زیادہ امیر تھی۔ اورنگزیب عالمگیر کی دولت لوئی چہار دہم کی دولت سے دس گنا زیادہ تھی۔ لیکن عالمگیر کے بعد ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوتا گیا یا اور نادر شاہ کے حملے نے حکومت کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف ریاستوں کے گورنر، شہزادے، نواب، اور مہاراجے آہستہ آہستہ خود مختار ہو گئے۔ چنانچہ انگریزوں کو برصغیر کی اصل طاقت سے سامنا ہی نہیں کرنا پڑا۔ وہ بہت آسانی کے ساتھ ان چھوٹے چھوٹے حکمرانوں کو ایک ایک کرکے شکست دیتے گئے۔

تاہم اس کے بعد جو ہوا وہ انتہائی تکلیف دہ تھا۔ انگریزوں نے نے بڑی شدت کے ساتھ یہاں کی انڈسٹری کو ختم کرنا شروع کر دیا۔ یہاں کی ٹیکسٹائل انڈسٹری سب سے زیادہ مشہور تھی۔ رومی سلطنت کے دور سے ہی یہ علاقہ اپنی کپاس کی پیداوار اور اس سے بنے مختلف طرح کے کپڑوں کے لیے شہرت رکھتا تھا۔ روم کے کمانڈر پیلینوس نے رومی سینٹ میں بیان دیا تھا کہ روم کا سونا وہاں کی عورتوں کی برصغیر کے کپڑے سے محبت کی وجہ سے ضائع ہو رہا ہے۔ ستاروہویں اور اٹھارہویں صدی کے انگریز دکاندار اپنے گھٹیا یورپی کپڑے کو برصغیر کا ظاہر کرکے بیچتے تھے کیونکہ یہاں کا کپڑا وہاں کے امرا اور شرفا میں زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کپڑا اتنا تفیس تھا کہ جیسے کسی نے ہوا کو بن دیا ہو۔ پوری کی پوری ساڑھی ایک انگوٹھی میں سے گذر سکتی تھی۔ انگریزی صنعت جب اس بہترین انڈین کپڑے کا مقابلہ نہیں کر سکی کی تو انہوں نے اس کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کہا تو بہت کچھ جاتا ہے لیکن زیادہ تر چیزیں ریکارڈ کا حصہ نہیں بن سکیں کی۔ ایک بد نام زمانہ واقعے کے بارے میں اس دور کے ایک ڈچ سیاح نے لکھا کہ انگریز کپڑا بننے والوں کے انگوٹھے کاٹ دیا کرتے تھے تاکہ اگر کھڈیاں دوبارہ بنا بھی دی جائیں تو وہ دوبارہ کپڑا بن نہ سکیں۔ یوں کپڑے کی صنعت کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا اور اور دنیا میں پہلی دفعہ بڑے بڑے شہروں کی آبادیاں خالی ہونے لگیں۔ مرشد آباد اور ڈھاکہ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ انڈسٹری کی تباہی کی وجہ سے بہت سے لوگ مجبورا واپس دیہی علاقوں میں چلے گئے۔ اس کے علاوہ کپڑا بنانے اور برآمد کرنے پر بھاری ڈیوٹیاں اور ٹیکس لگائے گئے اور برطانیہ سے درآمد ہونے والے کپڑے کو سستا بنایا گیا گیا تاکہ وہاں کی انڈسٹری پروان چڑھ سکے۔

اسی طرح کی کہانی یہاں کی بحری جہاز بنانے کی صنعت کی بھی ہے۔ برصغیر میں جہاز بنانے کے دو بڑے بڑے مراکز تھے۔ یہاں کی ساگوان اور مہاگنی سے بننے والی کشتیاں اور جہاز 25 سال چلتے تھے جبکہ یورپ میں چیڑھ سے بننے والے جہاز صرف 6 سال چلتے تھے۔ ایک برطانوی رپورٹ کے مطابق برصغیر کے جہاز بنانے والوں کی مہارت ایسی تھی کہ فیصلہ کیا گیا کہ یورپ کے بجائے برصغیر کی صنعت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ لیکن جب اس کی وجہ سے برطانیہ کے کاریگر اور بڑھئی فارغ ہوگئے تو برطانوی پارلیمنٹ نے فورا قوانین بنائے جن کی رو سے برصغیر میں بنے جہازوں کو نفع بخش بحری تجارتی راستوں پر چلنے کی اجازت نہ تھی جس کی وجہ سے یہ صنعت بھی مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔

برصغیر کے لوگوں نے سٹیل بنانے کی صنعت میں بہت مہارت حاصل کی۔ یہاں ایک خاص قسم کا اسٹیل تیار کیا جاتا تھا جس کو ووٹز اسٹیل کہتے ہیں۔ جب عرب آئے تو انہوں نے اس طریقے سے دمشقی فولاد بنایا۔ انگریزوں کے ابتدائی دور میں جب وہ کسی مقامی فوجی کو مارتے تھے تو اس کے جسم پر جتنا فولاد ہوتا وہ ضرور لوٹ لیتے کیونکہ یہ یورپ کے فولاد سے کئی گنا بہتر تھا۔ یہ صنعت بھی مختلف طرح کی پابندیوں کے ذریعے تباہ کر دی گئی۔ پرانی یا نئی کسی طرح کی بھی ٹیکنالوجی سے فولاد بنانے پر پابندی انیسویں صدی کے آخر تک برقرار رہی۔ یہاں تک کہ ایک مقامی صنعت کار نے اسٹیل کا کارخانہ لگانا چاہا تو اس کو اجازت ملنے میں بیس سال لگے۔ اتنا عرصہ اس کو مختلف حیلے بہانوں سے سے ٹرخایا جاتا رہا۔ جب بالآخر اجازت ملی تو وہ انتہائی بوڑھا ہو چکا تھا اور اس کے بیٹے نے پہلا کارخانہ لگایا۔ ایک انگریز ریلوے افسر نے اس موقع پر نہایت حقارت سے بیان دیا کیا کہ وہ یہاں کا بنا ہوا فولاد کھانا پسند کرے گا۔ اسی مقامی صنعت کار سر جمشید جی ٹاٹا کے وارثین میں سے ایک نے چند سال پہلے پہلے بچی کچھی برٹش سٹیل انڈسٹری خرید لی۔

یہ ساری کہانیاں سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ بتایا جائے کہ اس علاقے کی صنعت کو جان بوجھ کر اور بہت محنت سے ختم کیا گیا۔ اس پر بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ یہ ساری صنعتیں اصل میں دست کاریاں تھیں اور اتنی پرانی تھیں کہ جب صنعتی انقلاب آیا تو یہ مقابلہ نہیں کر سکیں۔ جبکہ اصل بات یہ ہے کہ جب آپ دنیا میں سب سے زیادہ پیداوار کر رہے ہوں تو آپ کے پاس اتنا پیسہ ہوتا ہے کہ دنیا میں جو بھی ٹیکنالوجی بن رہی ہو آپ اس ٹیکنالوجی کو خرید سکتے ہیں۔ برصغیر کے صنعت کار دنیا کے انڈسٹریل انقلاب کو خرید سکتے تھے اگر وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہوتے۔ باقی ساری آزاد دنیا نے بھی تو یہی کیا تھا۔

اس دور کے برطانوی پارلیمنٹ کے اچھی طرح محفوظ ریکارڈ دکھاتے ہیں کہ برصغیر میں مسلط کردہ ٹیکسوں کا نظام کتنا ظالمانہ تھا۔ بہت سی جگہوں سے ثبوت ملتے ہیں کہ برطانوی زیر انتظام علاقوں سے کسان بھاگ بھاگ کر اس وقت تک آزاد ریاستوں میں پناہ لیتے تھے تاکہ وہ کسی حد تک بہتر زندگی گزار سکیں۔ برطانوی حکام ہر کام اصول کے مطابق کرتے تھے۔ چنانچہ کسی قحط یا خوشی غمی کی صورت حال میں مقامی حکمران وقتی طور پر کسی کو ٹیکس معاف کر دیتے تھے لیکن برطانوی نہ صرف فصل کا پچاسی فیصد تک ٹیکس کی صورت میں زبردستی وصول کرتے اور بالکل لچک کی گنجائش نہ رکھتے بلکہ ٹیکس جمع نہ کروانے پر ظالمانہ سزائیں بھی دیتے۔ ایک واقعہ جو برطانوی ہاؤس اف کامنز کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جب ٹیکس ادا نہ کرنے پر دی جانے والی سزاؤں کا احوال سنایا گیا تو ایک ممبر رچرڈ شریڈن (ڈرامہ نگار) کی بیوی بے ہوش ہو کر گر پڑی اور اس کو اٹھا کر باہر لیجانا پڑا۔ یہ بات اس وقت کے اخباروں کی زینت بنی۔


یہ مضمون ڈاکٹر ششی تھروڑ کے یونیورسٹی آف ایڈنبرگ میں دئے گئے لیکچر کا اردو ترجمہ ہے۔ وہ اقوام متحدہ میں انڈر سیکرٹری جنرل کے عہدہ پر فائز رہے اور برصغیر کی تاریخ پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔

Dr Shashi Tharoor - Looking Back at the British Raj in India

 

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech