گزشتہ سے پیوستہ –  پہلی قسط  –  دوسری قسطتیسری قسطچوتھی قسطپانچویں قسط

جب سے جدید نظر آنے والے انسان افریقہ سے نکلے، ہماری سب سے بڑی جنگ قدرت کے ساتھ تھی۔ تمام مسائل کے باوجود ہم نے اولین تہذیبوں کی بناد رکھی لیکن وقت کے ساتھ ایک زیاہ بڑا خطرہ ہمارے سامنے تھا – انسانی فطرت۔ تین ہزار سال پہلے دنیا پہلی دفعہ بڑی سلطنت کے دور سے گزری۔ اس دوران چین اور بھارت سے لے کر بحیرہ روم تک شدید خانہ جنگیاں ہوئیں۔ آپ کے خیال میں اس تمام تشدد کی وجہ سے انسانی ترقی رک گئی ہو گی، لیکن حیران کن حقیقت یہ ہے کہ اس نے ہمیں مزید ترقی کرنے میں مدد دی۔ یہ ایک نئی سوچ والا دور تھا۔ جب جمہوریت سے لے کر خدا کے تصور تک، دنیا کے بہترین دماغوں نے نئے سے نئے راز آشکار کیے۔

جنگ ہمیشہ بری ہوتی ہے۔ لیکن یہاں ہم جنگ کے حق میں کچھ بات کریں گے۔ نئی سلطنتوں نے ہر طرف دھوئیں اور موت کی بدبو پھیلا دی۔ بڑے بڑے محلوں سے لے کر بادشاہوں اور شہنشاہوں تک، سب نے یہی جانا کہ عظمت کا واحد راستہ فتوحات، تباہی اور دوسروں کا سر نگوں کر کے ملتا ہے۔ لیکن پھر بھی خون سے لت پت اس مٹی میں زندگی گزارنے اور حکومت کرنے کے بارے حوالے سے نئے خیالات آشکار ہوئے۔

موجودہ عراق کا شہر نینواہ کا محل اتنا بڑا تھا کہ دنیا میں کوئی اس کا ثانی نہ تھا۔ یہ دنیا کی پہلی عظیم ریاست بنانے والے آشور کے باشاہ سنحاریب کی طاقت اور یقین کی علامت تھا۔ اس پر ایک عظیم ریاست قائم کرنے کا خبط سوار تھا۔ اس کی فوج دو لاکھ کے قریب تجربہ کار جنگجوؤں پر مشتمل تھی اور وہ ان کو استعمال کرنا بخوبی جانتا تھا۔ سات سو ایک قبل مسیح میں آشور کے لوگوں کے پاس دنیا کی سب سے قوی سلطنت تھی۔ اور تب ہی یہوداہ کے بادشاہ نے بغاوت کی بے وقوفی کر دی۔ انتقام کا قہر ان پر آسمانی بجلی کی طرح گرا۔ لکیش کا شہر اپنے وقت کی سب سے بڑی فوجی طاقت کے سامنے بے بس نظر آتا تھا۔ سنحاریب نے اپنی فوج سے ایک بہت بڑا محاصرے کا برج تیار کروایا تاکہ شہر کی فصیلیں عبور کی جا سکیں۔ یہ برج پچیس ہزار ٹن مٹی اور پتھروں سے بنا تھا جو آج بھی موجود ہے۔ گرچہ لکیش کا شہر اب موجود نہیں۔

آج ہم جنگوں میں “مکمل جنگ” اور “صدمہ اور خوف” جیسی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں جو پہلی دفعہ شاید آشور والوں نے ایجاد کی تھیں۔ بائبل کے مطابق “ان کے چہرے مکروہ تھے جیسے گدھ ہوا میں اڑ رہے ہوں، بوڑھوں پر قہر ڈھانے والے اور بچوں کے لئے بے رحم”۔ اگر کوئی اپنا دفاع کرنے کی کوشش کرتے تو کیا ہوتا؟ پکڑے جانے والوں کی زندہ کھال اتار دی جاتی۔ انکے سرداروں کے سروں کی نیزوں پر نمائش کی گئی۔ جو کوئی بچ جاتا اس کو غلام بنا کر جلا وطن کر دیا جاتا۔ جو کچھ باقی بچ جاتا اس کو آگ لگا دی جاتی۔ لکیش میں پندرہ سو مرد، عورتیں اور بچے مارے گئے۔ ماہرینِ آثار قدیمہ کو ان کی باقیات ایک اجتماعی قبر میں ملی ہیں۔

اندازہ ہے کہ آشور والوں نے اپنے تین سو سالہ دورِ حکومت میں چالیس لاکھ لوگوں کو جلا وطن کیا۔ ان لوگوں کو غلام بنا کر اپنے آقاؤں کی عظمت کی یادگاریں بنوائی جاتیں۔ آپ پوچھیں گے کہ ہمیں یہ سب کیسے پتہ؟ سچ یہ ہے کہ آشور اس حوالے سے فخر سے مٹی کی تختیوں پر بڑے بڑے دعوے کرتے تھے۔ دیواروں پر اپنی فتوحات کی بڑی بڑی تصویریں پروپیگینڈا کے لئے بنائی جاتی تھیں۔ نینوا کے محل کی دیواروں پر بھی اس ظلم کی لرزہ خیز داستان رقم تھی – زندہ کھال اتارنا، جسم میں سیخیں پرونا، جلا وطن کرنا – کس قسم کی تہذیب ایسی چیزوں کو دیواروں پر آویزاں کرتی ہے؟

نینوا کے محل کی دیواروں پر بنی تصویریں
نینوا کے محل کی دیواروں پر بنی تصویریں ان کے ظلم کی عکاسی کرتی ہیں۔

لیکن دنیا کے شاید سب بڑے جنگجوؤں کے بہت کم نشان دنیا میں باقی رہ گئے اور اس وقت کی سب سے اہم وراثت کے بارے میں شاید آشور والے جانتے بھی نہ ہوں۔ سنحاریب نے اپنے علم کے مطابق زیادہ تر دنیا کو سرنگوں کر لیا تھا۔ لیکن اس کے خواب میں بھی یہ بات نہیں ہو گی کہ اس کے دور کا انسانیت کو سب سے بڑے تحفے کا اس کے ظلم و جبر سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہ تھا۔ اس وقت کا سب سے بڑا تحفہ تو ان جہاز رانوں اور تاجروں کی بنائی ہوئی خراشیں تھی جن پر وہ ظلم ڈھاتا تھا اور جن کو اس نے سمندر میں دھکیل دیا تھا۔

یہ سمندر میں سفر کرنے والے لوگوں کا ایک گروہ تھا۔ یونانی ان کو فونیقی کہتے تھے۔ وہ آج کے لبنان اور شام کے ساحل پر رہتے تھے۔ وہ تاجر تھے اور آشور والوں کے قہر سے پیسے دے کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ پورے بحیرہ روم میں کشتیاں چلاتے تھے۔ وہ چاندی اور دوسرے تحفوں کی تجارت کرتے تھے اور آشور والوں کو جزیہ دیتے تھے۔ ان کی کشتیوں میں ایک انتہائی کمال کی ایجاد بھی ان کے ساتھ ہوتی تھی۔ ایک ایسی شے جس میں آج ہم سب گھرے ہوئے ہیں – حروف تہجی۔ اس سے پہلے لکھئی اصل میں بہت سی چھوٹی چھوٹی تصویروں پر مشتمل ہوتی تھی، جیسے کسی مچھلی کی تصویر۔ لیکن یہ تصویر آپ کو یہ نہیں بتاتی کہ “مچھلی” بولنا کیسے ہے۔

فونیقیوں کے حروف تہجی سے زیادہ تر زبانوں کے حروف کی شروعات ہوئی
فونیقیوں کے حروف تہجی سے زیادہ تر زبانوں کے حروف کی شروعات ہوئی

فونیقیوں نے پہلی دفعہ آوازوں کے لئے مختلف علامتوں کا استعمال کرنا شروع کیا۔ آپ ان علامتوں کو اکٹھا لکھ سکتے تھے اور پھر اکٹھا پڑھنے سے آپ کو لفظ حاصل ہوتے تھے۔ یہ انتہائی کارآمد اور انقلابی پیش رفت تھی۔ الیف، بیتھ، جیمل، دالیتھ، ان کے حروف تہجی کے حصے تھے جو آج کافی مانوس لگتے ہیں۔ آپ سوچیں کہ تاجروں کے لئے کتنا کار آمد اوزار تھا۔ ان کو بحیرہ روم کے کنارے بہت سے مختلف زبانیں بولنے والوں سے تجارت کرنی ہوتی تھی اور کاروبار کی تفصیل لکھنی ہوتی تھی۔ ان کے لئے یہ بہت با سہولت ثابت ہوا اور تب سے اب تک ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لئے بھی۔ یہ حروف تہجی تیزی سے پھیل گئے۔ یونانیوں نے ان کو اپنا کر واول (حروف علت) کا اضافہ کیا۔ رومیوں نے اس پر لاطینی حروف تہجی کی بنیاد رکھی۔ عبرانیوں نے اپنی بائبل لکھنے کے لئے اس کو استعمال کیا۔

درحقیقت اندازہ ہے کہ تمام مغربی زبانوں میں حروف تہجی یہاں سے شروع ہوئے۔ جہاں دوسری ثقافتوں نے محل اور احرام چھوڑے، فونیقیوں نے ایک بہت زیادہ متاثر کن چیز ہمیں دی۔ سنحاریب کے اپنے ہی بیٹے کے ہاتھوں مارے جانے کے سو سال کے عرصہ میں یہوداہ میں آشور کی طاقت ماند پڑ چکی تھی اور ایک نئی سلطنت جنم لے رہی تھی۔ (جاری ہے)


مزید پڑھیے – پہلی قسط  –  دوسری قسطتیسری قسطچوتھی قسطپانچویں قسط

تحریر و تخلیق: بی بی سی چیف ایڈیٹر انڈریو مارز
ترجمہ: محمد بلال
انگریزی میں ویڈیو دیکھنے کے لئے

لنک پر کلک کریں

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech