گزشتہ سے پیوستہ –  پہلی قسط  –  دوسری قسطتیسری قسطچوتھی قسطپانچویں قسط

تیس ہزار سال پہلے نیئنڈر تھل زمین سے معدوم ہو گئے اور جدید انسان – جو زیادہ چالاک، منظم اور جنگجو تھے – زمین پر حکمرانی کرنے لگے۔ البتہ اس دفعہ ہمارا مقابلہ نیئنڈر تھلز کی نسبت زیادہ تباہ کن قوت سے تھا۔ تقریبا بیس ہزار سال پہلے زمین کا درجہ حرارت انتہائی کم ہو گیا۔ ایک دفعہ پھر ہم پر دباؤ تھا کہ خود کو ماحول کے مطابق ڈھالیں یا پھر مر جائیں۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ اور اس دفعہ ٹیکنالوجی کی ایک بہت گھریلو سی ایجاد نے ہماری زندگی بچا لی!

چھوٹی ایجاد کے بڑے فائدے

ہڈی کی بنی یہ عام سی لگنے والی سوئی ہماری موسم سے جنگ میں سب سے اہم ایجاد ثابت ہوئی
ہڈی کی بنی یہ عام سی لگنے والی سوئی ہماری موسم سے جنگ میں سب سے اہم ایجاد ثابت ہوئی

یہ ایک سوئی ہے جو کسی جانور کی ہڈی سے بنائی گئی ہے۔ یہ بہت کمال کی ایجاد تھی۔ یہ پندرہ ہزار سال پرانی ہے۔ اس میں ایک بہت دھیان سے بنایا گیا چھوٹا سا سوراخ ہے۔ یہ دیکھنے میں آج گھر میں استعمال ہونے والی سوئی جیسی ہے۔ اس سوئی کی وجہ سے آپ جانوروں کی کھال سے اپنا جسم صرف ڈھانپتے نہیں بلکہ باقاعدہ کپڑے سی سکتے ہیں جو جسم پر فٹ آتے ہیں۔ اس سوئی کی ایجاد نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا۔ سلے ہوئے کپڑے ایک کے اوپر ایک پہن کر اور آپس میں ایک دوسرے سے جڑ کر بیٹھ کر ہم نے برفانی دور کے شدید سرد موسم کو شکست دی۔ اس کی وجہ سے ہم زیادہ دور اور زیادہ دیر تک اپنی کمین گاہوں سے باہر جنگلوں میں شکار کے لئے پھر سکتے تھے – سوئی نے ہمیں بہتر شکاری بنا دیا! بے شک ہمارے پاس تیر اور برچھے بھی تھے لیکن سوئی نے کمال کر دیا۔ اسکی ایجاد ایک زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے والا معرکہ تھا۔

فنون لطیفہ ہمیں جانوروں سے منفرد بناتے ہیں

جدید انسان اس سیارے کی سب سے سخت جان مخلوق ثابت ہو رہے تھے، ایسا منظر آسمان نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ لیکن فرانس کے پہاڑی سلسلوں میں ہمیں کچھ ثبوت ملتے ہیں کہ جدید انسان “سمجھدار آدمی” کے بلند بانگ دعوے پر پورے اتر رہے تھے۔ ہم اب باقی جانداروں کی طرح صرف زندہ رہنے کی جدوجہد میں نہیں تھے۔ ہم نے کوششیں شروع کر دی تھیں کہ خود کو دوسروں سے مختلف ثابت کریں اور دنیا میں اپنے مقام کو سمجھیں۔ جنوبی فرانس کے گارگاس نامی غاروں میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے آباؤاجداد اپنا نشان باقی چھوڑنے کو پرعزم تھے۔ یہاں جو ہے وہ آرٹ یا دیوار نگاری تو نہیں لیکن شاید کچھ پرسنل ہے اور میرے خیال میں بہت جذباتی بھی۔

فرانس کے غاروں میں بنے ہاتھوں کے نشان ستائیس ہزار سال پہلے انسانوں نے بنائے
فرانس کے غاروں میں بنے ہاتھوں کے نشان ستائیس ہزار سال پہلے انسانوں نے بنائے

یہ نشان ہم جیسے لوگوں نے آج سے ستائیس ہزار سال پہلے بنائے تھے۔ اپنے منہ اور ہاتھ کا استعمال کر کے بنائے گئے۔ اس سے زیادہ پرسنل اور کیا ہو سکتا ہے؟ اپنے ہاتھوں کا نشان بنانا اتنا عام اور سادہ ہے کہ پرائمری سکولوں میں بچے آج بھی ساری دنیا میں ایسا کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے آپ کو عجیب طرح سے ان لوگوں سے جڑے ہونے کا احساس ہوتا ہے جو انسان کی کہانی کے آغاذ کے وقت اسی جگہ کھڑے تھے۔ ہاتھوں کے یہ نشان دنیا میں انسانوں کے بنائے سب سے پہلے نشانات میں سے ہیں۔ ایسی ہی نشانات جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، شمالی امریکہ اور ارجنٹینا میں بھی ملے ہیں۔ یہ وہ پہلی مثال ہے جس کو آپ ریکارڈڈ ہسٹری کہہ سکتے ہیں۔ ایک آفاقی اعلان – جس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ “ہم یہاں ہیں”۔

خوراک کے مسئلے کا حل

تقریبا سولہ ہزار سال پہلے زمین کا شمالی حصہ گرم ہونے لگا۔ دسیوں ہزار سال خانہ بدوش شکاریوں کی طرح قدرت کے رحم و کرم پر رہنے کے بعد زمین کے ماحول کی اس تبدیلی نے ہمارے اجداد کو کچھ بالکل نیا کرنے میں مدد دی۔ مشرقی ترکی میں دریائے دجلہ کے کنارے پر زرخیز ہلال کا علاقہ ہے۔ انسان لگ بھگ چھپن مختلف طرح کی جنگلی گھاس کھاتے ہیں اور ان میں سے بتیس یہاں اگتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں، مثال کے طور پر، صرف چار امریکہ میں پائی جاتی ہیں۔ یقینا یہ علاقہ بہت زرخیر تھا۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں انسانوں نے آج کی سائنس، ٹیکنالوجی اور بڑے بڑے شہروں کی آباد کاری سے بھی بڑا کارنامہ انجام دیا۔ انسان کے اس عمل نے زمین کو باقی ہر چیز کی نسبت زیادہ تبدیل کیا۔

جب آپ بھوک سے بے حال ہوں تو خوراک کے دانوں کو مٹی میں دبا کر انتظار کرنے کے لئے بہت سا یقین چاہیئے
جب آپ بھوک سے بے حال ہوں تو خوراک کے دانوں کو مٹی میں دبا کر انتظار کرنے کے لئے بہت سا یقین چاہیئے

جو لوگ دریاؤں کی اس مبارک زمین میں رہتے تھے، عام طور پر جنگلی پودے کھاتے تھے، کچھ سدھائے ہوئے جانور پالتے تھے اور شکار کرتے تھے۔ لیکن وہ انتہائی سست اور کاہل واقع ہوئے تھے اور خوراک کی تلاش میں مزید چلتے جانا نہیں چاہتے تھے۔ ہم سستی اور کاہلیت کو انسانی تاریخ میں خاص اہمیت نہیں دیتے لیکن یہ بہت اہم طاقت تھی۔ اگر آپ خوراک ڈھونڈنے نہیں نکلیں گے تو آپ خوراک کو تو اپنے پاس آنے پر مجبور نہیں کر سکتے، یا کر سکتے ہیں؟ یہاں وہ عظیم گمنام موجد بستے تھے جن کی ایجاد کی وجہ سے دنیا میں پھر سب کچھ ممکن ہوا۔ یہ انسان اور قدرت کے درمیان طاقت کا توازن بدلنے والا سب سے بڑا معرکہ تھا۔

ایسا کرنا کوئی عقلمندی کا تقاضا تو نہیں لگتا لیکن اسکا طریقہ کچھ یوں ہے۔ آپ کچھ دانے لیں – اس خوراک کے دانے جس سے آپ اپنی اور گھر والوں کی بھوک مٹا سکتے ہیں – اور پھر انہیں کھانے کے بجائے آپ ان کو مٹی میں دبا دیں! اور پھر آپ انتظار کریں۔

بیجوں کو لے کر زمین میں اگانا آج تو بالکل سیدھی اور عام سی بات لگتی ہے لیکن تیرہ ہزار سال پہلے یہ زندگی اور موت کا جوا تھا۔ یہ دکھاتا ہے کہ انسان اب آگے کی سوچ رہے تھے، منصوبہ بندی کر رہے تھے، ان کو چیزوں اور حالات پر کچھ نہ کچھ یقین تھا۔ لیکن ایسا کرنے کی وجہ سے وہ در بدر خوراک ڈھونٹنے والے اور سارا سامان لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومنے والے خانہ بدوش اب کسان بن گئے۔ انہوں نے زمین کے ایک ٹکڑے پر سرمایہ کاری کی تھی۔ اور اگانے کے لئے سب سے بڑے بیجوں کا انتخاب کرنے سے وہ پودوں کو بھی تبدیل کر رہے تھے۔ بڑے بیج – اور نتیجتاً – سب کچھ بڑا۔ بعد میں چین، برصغیر اور جنوبی امریکہ کے لوگوں نے اپنے طور پر کاشتکاری کا طریقہ پھر سے ایجاد کیا۔

کاشتکاری کا طریقہ بارہ ہزار سال پہلے ترکی، شام اور ایران کے علاقوں سے شروع ہوا اور نو ہزار سال پہلے تک پوری دنیا میں پھیل گیا
کاشتکاری کا طریقہ بارہ ہزار سال پہلے ترکی، شام اور ایران کے علاقوں سے شروع ہوا اور نو ہزار سال پہلے تک پوری دنیا میں پھیل گیا

کاشتکاری سے جڑے مسائل

تین طرح کی گھاس شروع سے ہی باقی تمام پودوں پر سبقت لے گئی – گندم، چاول اور مکئی۔ بارہ ہزار سال گزرنے کے بعد بھی یہ تینوں انسانی خوراک کا سب سے بنیادی جزو ہیں۔ کاشتکاری یقیناً ایک بہت بڑی کامیابی تھی لیکن اس کی قیمت بھی ہمیں چکانی پڑی۔ جب لوگ کاشتکاری کے لئے زمین میں بسنے لگے تو زندگی مشکل ہو گئی۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین بہت یقین سے بتاتے ہیں کہ کسانوں کے قد چھوٹے ہو گئے، اور وہ شکاریوں کی نسبت کم عمر میں مرنے لگے۔ کھیتوں میں کام کرنے سے جوڑوں کی سوزش اور درد کے مسئلے پیدا ہوئے اور چپچپا دلیہ کھانے سے پہلی دفعہ دانتوں کی خرابی کا مسئلہ بنا۔

تو لوگوں نے کاشتکاری شروع کیوں کی جب کہ ابھی دنیا میں بہت سا شکار دستیاب تھا؟ اور ان مسائل کے باوجود انہوں نے کاشتکاری چھوڑی کیوں نہیں؟ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ تیزی سے بڑھتی آبادی کی وجہ سے پھنس گئے تھے۔ جیسے جیسے لوگ زیادہ خوراک کی خاطر ایک جگہ رک کر آبادیاں بسانے لگے، خاندانوں میں افراد کی تعداد بڑھنے لگی۔ شکاریوں کے بچوں کی تعداد کی ایک حد تھی۔ وہ اتنے بچے بیدا کر اور بچا سکتے تھے جتنوں کو وہ اپنے ساتھ اٹھائے پھر سکیں۔ لیکن کسانوں میں ایسی کوئی حد نہیں تھی۔ جوں جوں انسانوں کی تعداد بڑھی، انہوں نے مل کر کام کرنا شروع کیا اور زیادہ سے زیادہ بڑے گروہ وجود میں آنے لگے۔ ترکی میں اناطولیہ کے میدانوں میں یہ عجیب سے ٹیلے بکھرے پڑے ہیں۔ ان ٹیلوں کے نیچے ایک نئی انقلابی ایجاد کے نشان ہیں – شہر۔


مزید پڑھیے – پہلی قسط  –  دوسری قسطتیسری قسطچوتھی قسطپانچویں قسط

تحریر و تخلیق: بی بی سی چیف ایڈیٹر انڈریو مارز
ترجمہ: محمد بلال
انگریزی میں ویڈیو دیکھنے کے لئے

لنک پر کلک کریں

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech