چار سو سال پہلے بدوفا میں گیلیلیو نے ایک نئے کھلونے کے بارے میں سنا جس کو شاید جنگوں میں استعمال کیا جاسکتا تھا۔ یہ دھاتی نالی، جس کے دونوں طرف عدسے لگے ہوتے تھے دور کی چیزوں کو تین گنا بڑا کر کے دکھا سکتی تھی۔ گیلیلیو کو بھی ایسی دور بین بنانے کا شوق ہوا، لیکن جو دور بین اس نے بنائی وہ چیزوں کو آٹھ سے تیس گنا تک بڑا کر کے دکھا سکتی تھی۔ گیلیلیو دور بین کی مدد سے فلکیاتی نظارے کرنے والے اولین لوگوں میں سے تھا لیکن اس نظارے نے نہ صرف اس کی اپنی زندگی، بلکہ آنے والی صدیوں کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔

ڈاکٹر گیلیلیو گیلیلی پندرہ سو چونسٹھ عیسوی میں پیزا میں پیدا ہوا۔ بچپن میں اس کو پادری بننے کا شوق تھا لیکن ہر گھر کی کہانی کی طرح اس کا باپ بھی اس کو ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا کیونکہ ڈاکٹر اچھی کمائی کرتے تھے۔ جب وہ یونیورسٹی آف پیزا میں میڈیکل میں پڑھتا تھا تو ایک دن اچانک اس نے دیکھا کہ چھت پر لگا فانوس ہوا کی وجہ سے جھول رہا ہے۔ فانوس کی حرکت نے اس کو تھوڑا حیران کیا۔ گھر آ کر اس نے دو ایک چیسے پینڈولم لیے اور یہ مشاہدہ کیا کہ ایمپلی چیوڈ (ہٹاؤ) مختلف ہونے کے باوجود بھی پینڈولم کا ٹائم پیریڈ ایک جیسا رہتا ہے۔ کرسچن ہائیگن نے تقریبا ایک سو سال بعد اس اصول پر پہلی دفعہ پینڈولم والی گھڑی بنائی۔ اس تجربہ نے گیلیلیو کے دل میں ریاضی کی محبت پیدا کی جس سے اب تک وہ زبردستی دور تھا۔ کچھ عرصہ بعد جیومیٹری پر ایک لیکچر سننے کے بعد اس سے رہا نہ گیا اور بالاخر بہت منت سماجت کے بعد اس نے اپنے باپ سے ریاضی پڑھنے کی اجازت لے ہی لی۔

جب وہ پیزا کی یونیورسٹی میں ریاضی کا پروفیسر لگا تو یقینا اس کے والد کو افسوس ہوا ہو گا کیونکہ یہ کوئی زیادہ کمائی والا شعبہ نہیں تھا۔ سنہ پندرہ سو ترانوے میں گیلیلیو نے وینس کے اسلحہ خانہ میں بیلسٹکس کے مشیر کا عہدہ سنبھال لیا جو یقینا سی وی میں لکھنے کے لئے ایک کمال کا ٹائٹل ہو گا۔ اس کو فلورنس کے چیف ریاضی دان اور فلسفی کے عہدے بھی ملے۔ اس بندے کا سی وی تو واقعی بہترین تھا! پھر سولہ سو نو میں اس کو ٹیلی سکوپس بنانے اور بہتر کرنے کا شوق ہوا جس کی وجہ سے وہ بعد میں مشہور بھی ہوا۔

پہلی ٹیلی سکوپ، جس کا اوپر ذکر ہوا، ہالینڈ میں ایک ڈچ عینک ساز ہانس لیپرشے نے سولہ سو آٹھ میں تیار کی تھی۔ لیکن گیلیلیو کی بنائی دور بین بہت بہتر تھی۔ یوں گیلیلیو کو ایک نیا شوق مل گیا۔ اس نے پیزا کی اپنی نوکری چھوڑ کر بادوفا شہر میں نئی نوکری شروع کی جو بہت بہتر تھی۔ راتوں کو جاگ کر آسمان پر ریسرچ کر کے اور مشتری کے گرد گھومتے چاند دیکھ کر گیلیلیو کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ کوپرنیکس ٹھیک کہتا تھا، زمین کائنات کا مرکز نہیں۔ اس نے کیپلر کے خیالات کو بھی پڑھا لیکن کیپلر اسے زیادہ متاثر نہ کرسکا۔ سولہ سو گیارہ تک گیلیلیو کا نام رومن محکمہ تفتیش (انکوئی زیشن) کی نظر میں آ چکا تھا۔ کوپرنیکس کی پر زور حمایت کی وجہ سے اس کے اور فلورنس کے دربار کے درمیان معاملات بھی خراب ہونے لگے۔

سترہویں صدی کی شروعات تک سب، بشمول کلیسا اور سائنسدان یا تو ارسطو کے نظریے کو درست سمجھتے تھے کہ زمین کائنات کا محور ہے اور یا پھر ٹیکوئی نظریے کو درست سمجھتے تھے جو زمینی اور شمسی مرکزیت کا ملغوبہ تھا۔ اس مسئلے پر گیلیلیو کے اپنے وقت کے مشہور سائنسدانوں سے مکالمے اور علمی مباحث ہوئے جن میں اکثر گیلیلیو ذاتی حملوں تک پر اتر آتا تھا۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ گیلیلیو کے اپنے نظریات بھی ہمیشہ درست نہیں ہوتے تھے اور اس کی دی گئی وضاحتوں میں بھی سقم تھے۔ دوسری طرف مذہبی حلقے اپنی بات کے جواز کے طور پر بائبل کی آیات بیان کرتے تھے جن کی رو سے لگتا تھا کہ زمین ساکن ہے اور اس لئے وہ زمینی مرکزیت کے سائنسی دلائل کو زیادہ قابل اعتبار سمجھتے تھے۔

سولہ سو نو میں فلورنس کی ایک شہزادی (جو گیلیلیو کی سرپرست بھی تھی) کی گیلیلیو کے ایک دوست سے خوشگوار ماحول میں انہی موضوعات پر بحث ہوئی۔ شہزادی بائبل کی رو سے زمین کو ساکن سمجھتی تھی اور شمسی مرکزیت کو بائبل سے متصادم گردانتی تھی۔ اس مسئلے پر گیلیلیو نے اپنے اس دوست کو ایک خط لکھا جس میں اس نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ بائبل کی تعلیمات دراصل شمسی مرکزیت کے مخالف نہیں بلکہ موافق ہیں۔ اس کے مطابق بائبل خدا کا کلام ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی کیسے گزارنی ہے اور ان احکامات کی پابندی نجات کے لئے ضروری ہے۔ جبکہ سائنس خدا کے کام یا تخلیق کے بارے میں، اس مادی دنیا کے بارے میں بتاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دراصل گیلیلیو ایک مذہبی آدمی تھا۔ اس خیال کو مزید تقویت اس بات سے ملتی ہے کہ اس نے اپنی دونوں بیٹیوں کو راہبہ بنانے کے لئے کانوینٹ میں داخل کروایا تھا۔ یہ خط  اور اس کے مندرجات باقاعدہ شائع تو نہیں ہوئے لیکن کافی حلقوں میں مشہور اور زیر بحث رہے۔ دو سال بعد گیلیلیو نے شہزادی کو اسی نوعیت کاچالیس صفحات پر مشتمل ایک مفصل خط بھی تحریر کیا تھا۔

گیلیلیو کا یہ خط اچھا خاصہ مشہور ہوا اور ایک پادری نے اس کو رومن محکمہ تفتیش کو اس شکایت کے ساتھ جمع کروایا کہ گیلیلیو بائبل کی از سر نو تشریح کرنا چاہ رہا ہے جو کلیسا کے قانون کے مطابق غیر قانونی ہے۔ ان دنوں عیسائیت میں پروٹیسٹنٹ تحریک زوروں پر تھی اور کلیسا اس کو اپنے لیے ایک بہت بڑا چیلنچ سمجھتا تھا۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد نئے سرے سے بائبل کی تشریح اور کلیسا کے اثر و رسوخ اور تعلیمات کو ختم کرنا تھا۔ ایسے میں گیلیلیو کی اس بات کا نوٹس لیا جانا بنتا تھا۔ سولہ سو سولہ میں مذہبی عدالت نے گیلیلیو سے اس کا موقف پوچھنے کے لئے بلایا۔ اس کے سامنے ایک تفصیلی مضمون پیش کیا گیا جس میں شمسی مرکزیت کے رد میں سائنسی شواہد اور اعتراضات تھے۔ ان اعتراضات میں مشہور سائنسدان ٹائیکو براہی کے دلائل کے ساتھ مذہبی دلائل بھی تھے، لیکن گیلیلیو کو صرف سائنسی اور ریاضیاتی دلائل پر جواب دینے کو کہا گیا۔ قصہ مختصر عدالت نے  شمسی مرکزیت کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے گیلیلیو کو تنبیہ کی کہ وہ آئندہ ایسے خیالات کا پرچار نہیں کرے گا۔ اس کو بطور سائنسی اور ریاضیاتی نقطہ نظر، یہ افکار پڑھانے کی اجازت تھی لیکن ان کے ببانگ دہل پرچار کی اجازت نہیں دی گئی۔

اگلے دس سال گیلیلیو نے خاموشی سے درس و تدریس میں گزارے شاید اس لیے کہ وہ ایک متقی کیتھولک تھا یا شاید اس لیے کہ وہ اپنے لئے مسائل کھڑے نہیں کرنا چاہتا تھا۔ سولہ سو تیئیس میں گیلیلیو کے ایک سراہنے والے، پوپ اربن ہشتم کا انتخاب ہوا جس نے گیلیلیو کے خلاف فیصلے کی مخالفت کی تھی۔ اسی سال گیلیلیو نے ایک پمفلٹ شائع کیا جس کو ایسیئر Assayer کہتے ہیں۔ اس پمفلٹ میں اس نے دلائل دیے کہ سائنسدانوں کو ان کا کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے۔ پوپ اربن ہشتم کو گیلیلیو کی باتوں پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔  اس کا خیال تھا کہ خدا کائنات کو بے شمار مختلف طریقوں سے چلانے پر قادر ہے۔ وہ سمجھتا تھا کہ سچ تک پہنچنے کا واحد راستہ ایمان ہے، تو اگر کوئی اپنی راتیں جاگ کر اور ستاروں کو دیکھ کر ضائع کرنا چاہتا ہے تو بے شک کرے۔ یہاں تک کہ اربن نے گیلیلیو کو ایک نئی کتاب لکھنے کا مشورہ دیا اور اس کا عنوان بھی تجویز کیا جو سولہ سو بتیس میں شائع ہوئی “کائنات کے حوالے سے دو مختلف نظاموں کا تقابلی جائزہ”۔ وہ صرف اتنا چاہتا تھا کہ دونوں نظاموں کے بارے میں دلائل کو صاف صاف غیر جانبداری سے پیش کیا جائے۔

یہ کتاب کلیسا اور محکمہ تفتیش کی اجازت اور کلیئرنس سے شائع ہوئی۔ لیکن گیلیلیو شاید لڑائی مول لینے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ گیلیلیو کے لئے تو برا تھا ہی، لیکن یہ واقعہ کیتھولک چرچ کے حلق میں پھنسی ہڈی ثابت ہوا جس کو نہ نگلا جا سکتا تھا نہ اگلا جا سکتا تھا۔ (جاری ہے)

References

The following resources were consulted in writing of this biography:

  1. Wikipedia
  2. Crash Course – History of Science
  3. Encyclopedia Britannica
  4. Stanford Encyclopedia of Philosophy
  5. Biography.com
  6. Smithsonian Magazine

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech