میں نے اپنے پچھلے بلاگ میں عمومی تاریخ بیان کی اور خصوصی طور پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا جائزہ لیا۔ اس حصے میں ہم بات کریں گے کلیسا اور سائنس کے درمیان لڑی جانے والی جنگ کی۔ مغربی رومی سلطنت کے زوال کے بعد جہاں یورپ عہدِ تاریکی میں ڈوبا، وہیں کلیسا اور جاگیرداری نظام نے عام یورپی عوام کی زندگی کو مکمل طور پر جکڑ لیا۔ یہ دونوں نظام یورپ میں کسی قسم کی علمی سرگرمی کے حق میں زہرِقاتل ثابت ہوئے۔
پہلے بات کرتے ہیں جاگیرداروں کی۔ یہ اشرافیہ کا طبقہ اپنے نوابوں، راجاؤں کو جوابدہ تھا اور نواب بادشاہ کے نمک خوار۔ یہ جاگیریں انعام میں لوگوں میں بانٹی جاتیں اور غصہ و انتقام میں ضبط کرلی جاتی تھیں۔ ان جاگیروں پر عوام بحیثیت زرخرید غلام کھیتی باڑی کرتے اور محض دو وقت کی روٹی بمشکل حاصل کر پاتے، جبکہ ساری کی ساری پیداوار جاگیردار اور نواب کے ہاتھوں گزرتی ہوئی شاہی خزانے میں پہنچ جاتی۔ ایسی صورتحال میں سائنس اور تعلیم ایک ایسی عیاشی تھی جو کسی شخص کی ذہنی پیاس تو بجھا سکتی تھی مگر پیٹ اور لگان بھرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔
دوسری جانب کلیسا نہایت سختی کے ساتھ ارسطو کے تصورات کے ساتھ چمٹ چکا تھا۔ میں پچھلے بلاگ میں ارسطو کی اہمیت کو بیان کر چکا ہوں کہ اس نے انسان کو مشاہدے اور سوال کرنے کی دعوت دی، مگر اس کے کئی خیالات و تصورات انتہائی غلط تھے، اور اب صدیوں بعد کلیسا، ارسطو کی تعلیمات کو انجیل کی سی تقدیس کے ساتھ پڑھا رہا تھا۔ اس وقت زمین کو نہ صرف چپٹا سمجھا جاتا تھا بلکہ یہ پوری کائنات کا مرکز بھی تھی جس کے گرد سورج، چاند، سیارے اور دیگر اجسامِ فلکی گھومتے تھے۔ ایسے میں جب عالمِ اسلام میں بڑے بڑے شفا خانے بن رہے تھے اور ہزارہا قسم کی جڑی بوٹیاں مختلف امراض کے علاج کےلیے استعمال ہو رہی تھیں، وہیں یورپ میں بیماریاں خدا کے قہر کا نتیجہ ہوتیں یا پھر جادوئی اور شیطانی اثرات کا مظہر۔
ان تمام حالات میں بھی یورپ میں تین بڑی نشاط کی تحاریک اٹھیں جنہیں میڈیول رنسانسز (قرونِ وسطی کی نشاۃ ہائے ثانیہ) کہا جاتا ہے۔ ان میں سے پہلی رنسانس تحریک کارولنجی سلطنت (موجودہ فرانس) میں آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں شارلیمین اور اس کے جانشین لوئی کی سرپرستی میں وقوع پذیر ہوئی۔ اس تحریک کا مرکزی اثر ثقافت اور فنونِ لطیفہ پر پڑا اور ادب، انشاء پردازی، آرکیٹیکچر، مجسمہ سازی، قانونی تشریحات اور عبادات وغیرہ کی بحالی اور اصلاحات کی گئیں۔ مگر یہ اثرات شاہی دربار سے متعلق قانون، فنونِ لطیفہ اور مذہبی ماہرین تک محدود رہے اور عام آدمی اپنی دو وقت کی روٹی کی تگ و دو میں ہی پھنسا رہا۔
اسی تحریک کا تسلسل دسویں صدی میں کارولنجی سلطنت کے زوال کے بعد جرمن شاہی خاندان آٹو کی سرپرستی میں ہوا۔ اس تحریک کا بنیادی موجب قسطنطنیہ کے ساتھ روابط کی بحالی تھا۔ اس عرصے میں بھی فنونِ لطیفہ اور عمارت سازی پر زیادہ توجہ مرکوز رہی اور شاہی دربار سے منسلک ماہرین ہی اس تحریک کے روحِ رواں تھے۔
اس سلسلے کی تیسری کڑی بارہویں صدی کا رنسانس ہے۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق، بارہویں صدی میں یورپ کی اولین یونیورسٹیز بولونیا (اٹلی)، پیرس (فرانس) اور آکسفورڈ (برطانیہ) میں قائم ہوئیں اور ان کے بعد تو یورپ بھر میں یونیورسٹیز کا جال بچھتا چلا گیا۔ یہ وہ وقت ہے جب کہ اندلس میں قرطبہ کی اموی خلافت کے خاتمے کے بعد گیارہویں صدی سے ہر طرف طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا اور 1236ء میں شمال کی عیسائی ریاستوں نے مسلمانوں کے سابقہ دارالخلافہ قرطبہ پر قبضہ جما لیا اور محض بارہ برس بعد، 1248ء میں، اشبیلیہ بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ یوں عالمِ اسلام کا ایک اہم علمی مرکز مسلمانوں سے چھن گیا۔
پہلی دونوں رنسانسز کے مقابلے میں ان نئی بننے والی یونیورسٹیوں میں مذہب اور فنونِ لطیفہ کے مقابلے میں سائنس کو زیادہ اہمیت حاصل ہوئی۔ پہلی دونوں رنسانسز کے مقابلے میں اس مرتبہ اسلامی تہذیب کے اثرات خاصے نمایاں تھے جس کی وجہ اندلس (اسپین) پر قبضہ اور صلیبی جنگوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی مملکتِ یروشلم میں مسلمانوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے میل ملاپ اور خیالات کا تبادلہ تھا۔
یہاں ایک واقعہ بیان کرنا موزوں رہے گا۔ پہلی صلیبی جنگ کے نتیجے میں بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے بعد جب صلیبی افواج نے مملکتِ یروشلم قائم کی تو یورپ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ نئی زندگی اور نئی شروعات کی غرض سے فلسطین میں آباد ہوئے اور پہلی بار دونوں اقوام کو ایک دوسرے کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ اس دوران ایک عرب عالِم اُسامہ ابن منقذ کو بطور سفارتکار مملکتِ یروشلم بھیجا گیا۔ وہاں ان صاحب نے صلیبیوں کے طرزِ زندگی کو دیکھا اور اپنی تحریر میں محفوظ کرلیا۔ ان کی آپ بیتی ’’کتاب الاعتبار‘‘ میں بیت المقدس کے ایک مریض کے علاج کا واقعہ درج ہے جسے شدید سردرد کی شکایت تھی۔ صاحبِ تحریر کے بقول، اس شکایت کی وجہ خون کا دباؤ تھا اور زخم لگا کر تھوڑا سا خون نکالنے سے مریض ٹھیک ہوجاتا۔ مگر وہاں کے صلیبی راہب نے اس درد کی وجہ شیطانی اثرات کو قرار دیا اور مریض کی کھوپڑی میں سوراخ کرکے نمک بھر دیا جس سے شیطان تو نکل ہی گیا مگر ساتھ ہی اس بےچارے مریض کی روح بھی اس کے جسم سے نکل گئی۔
گیلیلیو گلیلی کے تذکرے کے بغیر سائنس اور کلیسا کی جنگ کی تاریخ ہمیشہ نامکمل رہے گی۔ گیلیلیو سولہویں صدی کا مشہور فلسفی اور ماہرِ فلکیات تھا جس نے مشاہدے سے یہ بات ثابت کی تھی کہ زمین ہمارے نظامِ شمسی کا مرکز نہیں بلکہ سورج ہے۔ اگرچہ اس تصور کو پیش کرنے والا نکولس کوپرنیکس تھا مگر یہ بات کلیسا کے اپنائے ہوئے، ارسطو کے نظریات کے خلاف تھی۔ گیلیلیو نے استدلال کے طور پر سیاروں اور دیگر اجسامِ فلکی کی حرکت کا مشاہدہ پیش کیا (اس کی دور بین کے ذریعے مشتری کی چار چاندوں کو مشتری کے گرد چکر لگاتے بہ آسانی صرف چند گھنٹے کے مشاہدے سے دیکھا جا سکتا تھا) مگر اس وقت کے مروجہ تصورات کی خلاف ورزی اور کلیسا کی توہین کے الزامات کے تحت مقدمے کا سامنا کرنا پڑا اور سزا پائی۔
گیلیلیو کا انتقال 1642 میں ہوا۔ اسی سال برطانیہ میں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ یہ بچہ مستقبل میں سائنس کی دنیا میں ایک ایسے انقلاب کا بانی بنا جس کے افکار آج بھی طبیعیات کے مسلمہ اصول ہیں۔ تاریخ اس بچے کو آئزک نیوٹن کے نام سے جانتی ہے۔