قرآنِ مجید میں اللہ تعالی ہمیں بارہا وعدہ کی اہمیت باور کرواتا ہے۔ اللہ تعالی خود بھی وعدے کے خلاف نہیں کرتا اور ہمیں بھی اپنی روز مرہ زندگی میں وعدے پورے کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا کہ جو وعدہ پورا نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ مومن کا وعدہ تو قرض ہوتا ہے اور یہ ایسے ہے جیسے اس کا ہاتھ پکڑ لیا گیا ہے۔

قرآن میں ایفائے عہد

ایفائے عہد کے حوالے سے ایک انتہائی اہم واقعہ سورہ توبہ میں ذکر ہوا جس کی تفصیل کچھ یوں بیان کی جاتی ہے:

 ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص جس کا نام ثعبلہ بن حاطب تھا، آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور درخواست کی کہ آپﷺ میرے لئے مال دار ہونے کی دعا فرمادیں۔ آپﷺ نے شروع میں اسے سمجھایا کہ بہت مال دار ہونا مجھے اپنے لئے بھی پسند نہیں ہے، لیکن اس نے بار بار اصرار کیا، اور یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر میں مال دار ہوگیا تو ہر حق دار کو اس کا حق پہنچاؤں گا، آپﷺ نے اس موقع پر حکیمانہ جملہ بھی ارشاد فرمایا کہ: ’’تھوڑا مال جس کا تم شکر ادا کرسکو اس زیادہ مال سے بہتر ہے جس کا شکر ادا نہ کرسکو۔‘‘ اس پر بھی اس کا اصرار جاری رہا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعا فرما دی۔ چنانچہ وہ واقعی مال دار ہوگیا، اور اس کے مال مویشی اتنے زیادہ ہوگئے کہ ان کی دیکھ بھال میں نمازیں چھوٹنے لگیں، پھر وہ ان جانوروں کی زیادتی کی وجہ سے مدینہ منوَّرہ سے باہر جا کر رہنے لگا۔ شروع میں جمعہ کے دن مسجد میں آ جاتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ جمعہ کو آنا بھی چھوڑ دیا۔ کچھ عرصے بعد جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے لوگ زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے اس کے پاس پہنچے تو اس نے زکوٰۃ پر پھبتیاں کسیں، اور ٹال مٹول کر کے ان حضرات کو واپس بھیج دیا۔

روح المعانی بحوالہ طبرانی و بیہقی

زکوۃ جمع کرنے والے صاحب ابھی وہاں سے واپسی کے لئے نکلے ہی تھے کہ مدینہ میں محمد ﷺ پر سورہ توبہ کی آیات نازل ہوئیں جن کا ترجمہ ہے

ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر ہمیں اپنے فضل سے مال دے گا تو ہم ضرور صدقہ و خیرات کریں گے اور پکی طرح نیکوکاروں میں ہوجائیں گے ۔ لیکن جب اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا تو یہ اس میں بخیلی کرنے لگے اور ٹال مٹول کر کے منہ موڑ لیا ۔ پس اس کی سزا میں اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اللہ سے ملنے کے دنوں تک ، کیونکہ انہوں نے اللہ سے کئے ہوئے وعدے کا خلاف کیا اور کیوں کہ وہ جھوٹ بولتے رہے ۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالٰی کو ان کے دل کا بھید اور ان کی سرگوشی سب معلوم ہے اور اللہ تعالٰی غیب کی تمام باتوں سے خبردار ہے ۔

— سورہ توبہ آیات 75-78

محمد ﷺ کو معاملے کی حقیقت معلوم ہو گئی اور آپ ﷺ نے اپنی زبانِ مبارک سے تین دفعہ ثعلبہ کے لئے افسوس کے الفاظ نکالے۔ اسی دوران زکوۃ جمع کرنے والے صاحب بھی پہنچ گئے اور تمام معاملہ بیان کر دیا۔ اس وقت مجلس میں ثعلبہ کا کوئی جاننے والا بھی موجود تھا۔ اس نے یہ سارا احوال ثعلبہ کو جا سنایا۔ اس پر وہ شخص بہت پریشان ہوا اور دوڑا دوڑا اپنا مال لا کر محمد ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ تاہم چونکہ اللہ تعالی نے اس کی منافقت کا راز فاش کر دیا تھا، آپ ﷺ نے اسکا مال لینے سے انکار کر دیا۔ آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی اس نے دوبارہ زکوۃ جمع کروانے کی کوشش کی لیکن چونکہ محمد ﷺ نے اس کو منع کر دیا تھا اسلئے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی انکار کر دیا۔ اسی طرح وہ شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی ناکام لوٹایا جاتا رہا یہاں تک کہ موت نے اس کو آ دبوچا۔ (نعوذ باللہ من سیئات الاعمال)

پاکستان اور اللہ سے ایفائے عہد

ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم (رحمۃ اللہ علیہ) اپنی تقاریر اور تفاسیر میں اکثر قرآن کے اس اہم سبق کو پاکستان کی موجودہ صورتحال پر منطبق کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔ تحریک پاکستان کے دوران بچے، بوڑھے، جوان، ہر ایک کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوتا تھا “پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ”۔ گویا ہم اللہ سے وعدہ کر رہے تھے کہ اگر اللہ نے ہمیں ایک ملک دے دیا تو ہم اس کو اسلام کا قلعہ بنائیں گے۔ تاہم آج کہاں ہے اسلام اور کہاں ہے لا الہ الا اللہ؟ بقول ڈاکٹر اسرار احمد

اس بد عہدی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے تین قسم کے نفاق اس قوم پر مسلط کردیے۔ ایک باہمی نفاق ‘ جس کے باعث یہ قوم اب قوم نہیں رہی فرقوں میں بٹ چکی ہے اور اس میں مختلف عصبیتیں پیدا ہوچکی ہیں۔ صوبائیت ‘ مذہبی فرقہ واریت وغیرہ نے باہمی اتحاد پارہ پارہ کردیا ہے۔ دوسرے جب یہ نفاق ہمارے دلوں کا روگ بنا تو اس سے شخصی کردار اور پھر قومی کردار کا بیڑا غرق ہوگیا۔ (۔۔۔) حدیث کو کسوٹی سمجھ کر اپنی قوم کے کردار کو پرکھ لیجیے۔ جو جتنا بڑا ہے اتنا ہی بڑا جھوٹا ہے ‘ اتنا ہی بڑا وعدہ خلاف ہے اور اتنا ہی بڑا خائن ہے۔ تیسرا نفاق جو اس قوم کے حصے میں آیا وہ بہت ہی بڑا ہے اور وہ ہے آئین کا نفاق۔ (آئین میں لکھا ہے کہ) قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ ان الفاظ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سورة الحجرات کی پہلی آیت کا ترجمہ کر کے دستور میں لکھ دیا گیا ہے ‘ لیکن ملک اور معاشرے کے اندر اس کے عملی پہلو پر نظر ڈالیں تو قرآن و سنت کے احکام پر عمل ہوتا کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ گویا یہ الفاظ صرف آئینی اور قانونی تقاضا پورا کرنے کے لیے لکھ دیے گئے ہیں ‘ ان پر عمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ (۔۔۔) دستور کی سطح پر اتنی بڑی منافقت شاید پوری دنیا میں کہیں نہ ہو۔  اس نفاق سے اب ان کی جان روز قیامت تک نہیں چھوٹے گی۔ یہ کانٹا ان کے دلوں سے نکلے گا نہیں۔

— بحوالہ ڈاکٹر اسرار احمد – بیان القرآن

انفرادی زندگی اور اللہ سے ایفائے عہد

طالبعلمی کے زمانے میں ہر امتحان سے پہلے اور پھر فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھرتی ٹیسٹوں اور انٹرویوز سے پہلے ہم سب اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگتے ہیں۔ تب ہم اپنے اردگرد پھیلی نفسا نفسی اور بے ایمانی کے لئے انتہائی حساس ہوتے تھے اور ہمیں لگتا تھا کہ اگر ہمیں موقع دیا جائے تو ہم دوسروں سے بہت بہتر اور جانفشانی سے خدمات سرانجام دیں گے۔ ہم میں دنیا کو بدلنے اور سیدھا راستہ دکھانے کی ایک تڑپ ہوتی تھی اور یہ تڑپ بارہا تنہائی میں خدا کے سامنے اشکوں کی صورت میں ڈھلتی تھی۔ ہم اللہ سے وعدہ کرتے تھے کہ اگر اس نے ہمیں اپنی جناب سے نوازا تو ہم دوسرے ناشکرے لوگوں کی طرح نہیں ہوں گے بلکہ پورا پورا حق ادا کریں گے اور اپنے فرائض سے بڑھ کر خدمات دیں گے۔ عموما اس وعدے کے بارے میں ہمارے اور اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن جب اللہ اپنے حصے کا وعدہ پورا کر دیتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟

جب اللہ کی مدد آ جاتی ہے اور ہم اسکے فضل سے کسی اچھے مقام پر پہنچ جاتے ہیں، کوئی اچھی نوکری مل جاتی ہے یا کاروبار چل پڑتا ہے تو ہماری عقل پر ہوس کا پردہ پڑ جاتا ہے اور دولت کی لالچ ہمارے دل میں اپنا گھر بنا لیتی ہے۔ ہم سب ہی جلد یا بدیر ثعلبہ بن جاتے ہیں اور خدا سے کیے ہوئے اس وعدے کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ کبھی حالات کی ستم ظریفی، کبھی ذمہ داریاں، کبھی وسائل کی کمی کا بہانہ بنا کر ہم اپنے وعدے کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال

براہیمی نظر پیدا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں

افسوس ناک صورحال یہ ہے کہ اس جرم میں سب سے زیادہ وہ لوگ ملوث ہیں جن کی ذمہ داری اس قوم کی علمی اور فکری سطح پر آبیاری کرنا تھی۔ چنانچہ بیوروکریٹ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں، ڈاکٹر پرائیویٹ کلینک بنا کر مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور استاد اکیڈمی مافیا کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ دولت کی چمک کب ہمارے ضمیر کو سلا دیتی ہے ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا اور جب ہم اپنے اندر جھانک کر سوال کرتے ہیں کہ ہم جو کر رہے ہیں وہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں، تو اندر سے کوئی جواب ہی نہیں آتا۔ ثعلبہ کی طرح منافقت کی مہر ہمارے دلوں پر پکی لگ چکی ہوتی ہے اور واپسی کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ شیطان ہمیں تسلیاں دیتا ہے کہ “دوسرے بھی تو ایسے ہی کر رہے ہیں” یا “میری مجبوری ہے کیونکہ میرے حالات بہت تنگ ہیں” جب کہ حقیقت میں اللہ ہمیں آزما رہا ہوتا ہے کہ ہم کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ کبھی افسرانِ بالا کی بے حسی کا بہانہ، کبھی حالات کی ستم ظریفی، کبھی وسائل کی عدم دستیابی کا عذر، کبھی اپنی قابلیت کا گھمنڈ، کبھی اختیار نہ ہونے کا غم، غرض ہر طرح سے شیطان ہماری نظر میں ہماری بے عملی کا جواز پیش کرتا رہتا ہے۔

کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان ﻻئے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟ ان سے اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کرلے گا جو جھوٹے ہیں

القرآن سورۃ العنکبوت آیت 2-3

اللہ ہمیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ہمارے ایمان کی حفاظت خود کرے۔ آمین۔

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech