اللہ تعالی سورۃ البقرۃ میں فرماتا ہے کہ ہم نے تم کو درمیانی امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ اور (پھر) اللہ کا رسول (ﷺ) تم پر گواہی دے۔ اسی طرح سورۃ النسا میں ارشاد ہوا کہ اللہ کی خاطر حق بات کی گواہی پر ڈٹ جانے والے بن جاؤ خواہ (وہ گواہی) اپنے ہی خلاف ہو، یا والدین اور قرابت داروں کے خلاف۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس گواہی کی بات ہو رہی ہے جو خود اپنے ہی خلاف دینے پر اکسایا جا رہا ہے؟ اور پھر اللہ کے رسول ﷺ نے کس بات کی گواہی دینی ہے؟
کچھ دن پہلے کلاس میں پریکٹیکل کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا تو ایک سٹوڈنٹ بولا کہ سر میٹرک میں تو بغیر پیپر کیے نمبر لگ گئے تھے تو پھر انٹر میں کام کرنے کی ضرورت کیا ہے یہاں بھی نمبر لگ نہیں جائیں گے؟
انٹرنیٹ پر ایک تصویر گردش کر رہی ہے جس میں بل گیٹس کو برگر خریدنے کے لیے لائن میں کھڑے دکھایا گیا ہے۔ تصویر شیئر کرنے کا مقصد ظاہر ہے سیاسی ہے، کہ دکھایا جائے کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز طاقتور لوگوں کو قوانین کا پابند بنانا ہے۔
اس بچے نے جب سوال پوچھا تو میں خلاف معمول ٹھیک سے جواب نہیں دے سکا تھا۔ لیکن اس سوال، اپنی نالائقی، اغیار کے دوہرے معیارات اور جیسے ان سب نے دل میں کئی خنجر پیوست کر دیے جو اب تک سینے میں چبھ رہے ہیں۔
جس قوم کے استاد کی اخلاقی گراوٹ کا لیول یہ ہے کہ اس کے پیشِ نظر اس کو نمبر لگانے کا اختیار ہی نہیں دیا جاتا اور پیپر تھرڈ پارٹی سے چیک کروائے جاتے ہیں اور اس کے باوجود استاد باقی کے چند نمبروں کی گواہی بھی صرف ایک فون کال پر بیچ دیتے ہیں، اور یہ برائی اس درجہ عام ہو گئی ہے کہ پروفیسر ہی پروفیسروں کو فون کر رہے ہوتے ہیں اور پھر اگر کوئی “حق بات کی گواہی” دے دے تو اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ اور ہر طالبعلم کو بھی استاد کی “اوقات” معلوم ہے۔ ان لوگوں کو ایک بل گیٹس کیا، ہزاروں ارب پتی بھی لائنوں میں لگے دکھا دیں تو یہ ان سے کچھ نہیں سیکھ سکتے کیونکہ بے شرمی کی اعلی ترین مثالیں تو روز ان کے سامنے موجود رہتی ہیں۔
یہاں حالت یہ ہے کہ ایک پولیس افسر کو ناجائز “اٹھایا” تو پوری کی پوری ٹیم نے استعفے رکھ دیے یہاں تک کہ اٹھانے والوں نے معافی مانگی۔ لیکن سینکڑوں میں سے ایک استاد اگر فون کال پر ڈٹ جائے کہ میں میرٹ پر اپنا اختیار استعمال کروں گا اور پھر اس کے خلاف “انکوائری” شروع ہو تو سو دوسرے اس کی جگہ لینے کے لیے لائن میں کھڑے ہوتے ہیں کہ “تحفہ قبول کریں غلام حاضر ہیں”۔
اساتذہ سے ان لاجوازیوں کا تذکرہ کریں تو بہانہ یہ ہوتا ہے کہ تنخواہ کم ہے اور مراعات کوئی نہیں ہیں۔ گویا مراعات نہ ہونا اخلاقی گراوٹ اور قوم کے ساتھ ظلم کا جواز ہے۔
رات بیٹی نے ضد کی کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی کہانی سننی ہے۔ میں نے کتاب کھول لی۔ اس بندے کو لوہے کی زرہ پہنا کر عرب کے صحرا کی تپتی ریت پر لٹا دیا جاتا تھا، لیکن وہ بندہ پھر بھی حق بات کی گواہی دیتا جاتا تھا احد احد۔ یقین کریں وہ جملے پڑھنا میرے لیے مشکل ہو گیا۔ جنہوں نے مرتبے پائے ان کو تو بڑی کٹھن آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ ایسے ہی نہیں اللہ نے کہہ دیا کہ وہ اللہ سے راضی ہیں اور اللہ ان سے راضی ہے۔
بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو کون سی مراعات کا وعدہ تھا؟ ان بے چارے کو تو حکم تھا کہ “ہاتھ باندھ کر رکھو”۔ ایک بندہ کوڑے مار مار کر تھک جاتا تھا تو دوسرے کی باری شروع ہو جاتی تھی، پھر تیسرے کی، پھر چوتھے کی۔ ان کو تو یہ امید بھی نہیں تھی کہ آزاد ہی ہو جائیں گے۔ زیادہ سے زیادہ آزادی کی صورتحال یہی نظر آتی تھی کہ جان نکل جائے تو یہ عذاب ختم ہو۔ اور کچھ نہیں تو منہ ہی بند کر لیتے، احد احد کہہ کر عذاب دینے والوں کو چڑاتے تو نہ، ہاتھ باندھنے کا حکم تھا، زبان کھولنے کا نہیں۔ لیکن وہ اپنے حصے کی گواہی دیتے رہے۔ ان کو نہ کوئی بادشاہت ملنی تھی، نہ کسی عہدے یا تنخواہ کا ہی وعدہ تھا۔ لیکن وہ گواہی دیتے گئے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے جنت میں ان کے قدموں کی چاپ اپنے آگے سنی۔
تقریبا ایک سال پہلے روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا جو کہ ایک سیاسی معاملہ تھا۔ اس صورتحال کے پیش نظر سویڈن اور دیگر ایسے ممالک جو گزشتہ سو سال سے امریکہ اور روس کی لڑائی میں نیوٹرل تھے، اپنی بقا کی فکر میں امریکہ کی جانب جھکنے لگے۔ سویڈن نے نیٹو میں شمولیت کی خواہش ظاہر کی تو نیٹو ممالک نے شمولیت کی درخواست قبول کرنے کے لیے اپنی اپنی شرائط رکھیں۔ ان ممالک میں ترکی بھی شامل ہے۔ تاہم سویڈن نے ترکی کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ یہ معاملات سراسر سیاسی نوعیت کے تھے اور ترکی کی شرائط بھی سیاسی تھیں۔
یورپ تین سو سال سے ہمیں دین اور سیاست کو الگ الگ رکھنے کا درس دیتا رہا ہے۔ لیکن روس اور یورپ کی اس جنگ نے اس پرچار کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ ایک سال پہلے تک کھیل کے میدانوں میں سیاسی محاذ آرائیوں کی تشہیر اور پرچم لہرانے پر پابندی ہوتی تھی۔ کسی سٹیڈیم میں فلسطین کا پرچم لہرایا جاتا تو سٹیڈیم انتظامیہ اور فیفا وغیرہ جیسی تنظیمیں سخت ایکشن لیتیں کہ کھیل اور سیاست کو مکس نہ کریں۔ لیکن ایک سال سے یہ اصول پست پشت ڈال دیا گیا اور اپنی ذاتی دشمنی میں یوکرین کو سپورٹ کرنا فرض ٹھہرا۔ اب کھیل تو کیا، ہر ہر میدان میں، خواہ دفاتر ہوں یا آن لائن غیر متعلقہ، غیر سیاسی ویب سائٹس، ہر جگہ یوکرین کا جھنڈا نظر آئے گا۔ کھیل کے میدان میں جہاں فلسطین کا پرچم لہرانے پر گرفتار کر لیا جاتا تھا، اب یوکرین کے پرچم جا بجا نظر آتے ہیں۔
تاہم مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بدترین مثال سویڈن نے پیش کی۔ ترکی کے ساتھ سیاسی تنازعے کو مذہبی رنگ دے کر قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی جسارت کی گئی۔ کسی سرپھرے نے کہا کہ میں تورات کو جلاؤں گا تو پولیس فوراً حرکت میں آئی، کہ نہیں “آزادی اظہارِ رائے” صرف مسلمانوں کی کتاب جلانے کا نام ہے۔ کوئی اور کتاب جلائی تو لوگوں کو تکلیف ہو گی۔
دوسری طرف ایک سال سے وطن عزیز میں عجیب سیاسی تماشہ لگا ہوا ہے جس کے رنگ ہی نرالے ہیں۔ ہمارے حق بات پر ڈٹنے کا عالم یہ ہے کہ ایک پارٹی کا لیڈر اثاثے چھپاتا ہے تو آدھے اس کی طرف اور آدھے خلاف ہو جاتے ہیں۔ پھر دوسری پارٹی کے سربراہ کو اسی کام پر سزا ہو جائے تو دونوں کے معیار بدلنے میں چند سیکنڈ لگتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہو تو ایک پارٹی دوسری پر ملک بیچنے کا الزام لگاتی ہے، اور پیروکار اس کو ڈیفنڈ کرتے ہیں۔ پھر مخالف پارٹی کی حکومت آتی ہے تو وہی لوگ اب قرضے کے فائدے گنوانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے ہیں اور جو پہلے نا خوب تھا اب وہی خوب ہو جاتا ہے۔ بوٹ پالش کرنے میں بھی دونوں گروہ باریوں کا انتظار کرتے ہیں۔ جھوٹے خداؤں کی محبت میں ہم لوگوں کے راستے بھی روک لیتے ہیں، عوامی املاک کو آگ بھی لگا دیتے ہیں اور پولیس والوں کی جان بھی لے لیتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے حق اور باطل کا معیار مستقل کچھ ہے بھی یا نہیں؟ ذاتی زندگی میں ہم سفارش کو بھی ڈیفنڈ کر لیتے ہیں، رشوت کو بھی ڈیفنڈ کر لیتے ہیں، سود کو بھی، نقل کا بھی جواز بنا لیتے ہیں۔
کئی دن سے ایک خیال بہت تنگ کر رہا ہے۔ کچھ دن پہلے کالج میں میلاد تھا تو اس کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ فیس بک پر ایک ویڈیو دیکھی تھی۔ چند سیکنڈ کی ویڈیو میں اینکر ہر آنے جانے والے سے پوچھتا ہے کہ اگر آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہونا پڑے تو کیا کہیں گے؟ عموما جواب دینے والوں کے چہرے کا نقشہ ایک سیکنڈ میں بدل جاتا ہے، جذبات کی شدت سے مغلوب ہو جاتے ہیں اور کوئی جواب نہیں بن پاتا۔ آنسو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔
علامہ اقبال کی ایک نظم ہے جس میں وہ خود کو قیامت کے روز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں آپ کے لیے دنیا سے ایسا تحفہ لایا ہوں جو انتہائی قیمتی ہے اور جنت میں بھی نہیں ملتا۔ اسی طرح سرسید احمد خان نے الطاف حسین حالی سے مسدس لکھوانے کو پوری زندگی کا حاصل قرار دیا کہ میں قیامت کے روز اس کو فخر سے پیش کروں گا کہ میری کوشش کی وجہ سے لکھی گئی۔ آج سے چند نسلیں پہلے تک لوگوں کو اس بات کی فکر ہوتی تھی کہ قیامت کے دن کیا عمل پیش کرنا ہے کہ دنیا میں کیا کارنامہ کر کے آئے ہیں؟
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂِ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
سچ بتاؤں تو مجھے اللہ کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر نہیں لگتا۔ کبھی بھی نہیں لگا۔ دماغ نے کسی نہ کسی طرح ضمیر کو سلایا ہوا ہے۔ لیکن جس دن سے ویڈیو دیکھی ہے تو یہ سوچ تنگ کر رہی ہے کہ وہاں حوض کوثر کے ساقی بھی تو موجود ہوں گے (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ ان کے سامنے نامہ اعمال کیسے پڑھنا ہے؟ اپنی نالائقی کے کیا جواز بیان کرنے ہیں؟ دنیا میں ایسا کون سا تیر مار رہے ہیں ہم جس کے لیے ان سے گواہی کی درخواست کرنی ہے؟ کیا وہ پوچھیں گے نہیں کہ جب میری ذات پر کیچڑ اچھالا جا رہا تھا تو تم کیا کر رہے تھے؟ جب میرے محبوب قرآن کو جلایا جا رہا تھا تب تم کیا کر رہے تھے؟ جلانے والے اور کیچڑ اچھالنے والے مردودوں نے تو اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا۔ وہ تو ان کو نہیں جانتے۔ وہ تو ہمارے کرتوت دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) ان بیغیرتوں کا نبی بھی ان جیسا ہو گا۔
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خو گر ہیں
امتی باعث رسوائئِ پیغمبر ہیں
یقین کریں بہت دکھ ہوتا ہے اپنی نالائقی پر۔ دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ مجھے کون سی چیز موٹیویٹ کرتی ہے؟ میں کیوں اپنا وقت ایسے بے مقصد کاموں میں ضائع کرتا رہتا ہوں؟ میں اس کا صرف اتنا جواب دے دیتا ہوں کہ اللہ کی خاطر کام کرتا ہوں یا میرے محرکات مذہبی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے اپنی نالائقی کا یہ خوف چین نہیں لینے دیتا کہ قیامت کے دن میں کیا شکل دکھاؤں گا؟ میں تو اپنی بنیادی ذمہ داریاں بھی پوری نہیں کرتا۔ جس اخلاقی انحطاط کا ہم شکار ہیں، اس میں سوشل میڈیا پر پلنے والی ہماری اگلی نسل کو محمد ﷺ سے محبت اور یہ سب چیزیں کون سکھائے گا؟