فرض کریں کہ کوئی آپ کے پاس آ کر کہے کہ سورج ہمارے نظام شمسی کا مرکز نہیں ہے تو آپ کیا کریں گے؟ آپ شاید اسے عجیب سی نظروں سے دیکھیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہاں سے اٹھ کر ہی چلے جائیں۔ کیونکہ یہ بات تو ہر سکول جانے والے بچے کو بھی پتہ ہے کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے، یہ تو بنیادی تعلیم کا حصہ ہے۔ ہے ناں؟ لیکن آج میں یہ ثابت کروں گا کہ سورج ہمارے نظامِ شمسی کا مرکز نہیں ہے۔
اچھا اچھا رکیں! مضمون پورا تو پڑھ لیں۔ میں پاگل نہیں ہوں۔ میں صرف آپ کو نظام شمسی کے حوالے سے کچھ باتیں سمجھانا چاہتا ہوں۔ اول تو یہ کہ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ وجہ آپ کو کچھ ہی دیر میں معلوم ہو جائے گی۔ دوسرا یہ کہ اس قصے میں ہمیں یہ دلچسپ بات پتہ چلتی ہے کہ قدیم زمانے کے لوگوں نے ہمارے نظام شمسی کو باہر سے کھڑے ہو کر دیکھے بغیر اس کے کام کرنے کے طریقے کے بارے میں کیسے پتہ لگایا۔ اور ہم سمجھ سکتے ہیں کہ نئے آئیڈیاز کو “تسلیم شدہ حقیقت” بننے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ تو ذرا حوصلہ رکھیں اور پڑھتے رہیے۔ میرے خیال میں سائنس میں جب تک آپ کو کسی معاملے کی پوری تاریخ نہ پتہ ہو، تب تک آپ کو اس آئیڈیا کی مکمل سمجھ آنا مشکل ہے۔ دیکھتے ہیں کہ ہم یہاں تک کیسے پہنچے۔ تو آئیے! تاریخ کے ایک دلچسپ سفر پر چلتے ہیں۔
فرض کریں کہ آپ پندرہویں صدی کے ایک بڑے نامور ماہر فلکیات ہیں، تو آپ کے خیال میں زمین کائنات کا مرکز ہے اور ہر چیز اس کے گرد گھوم رہی ہے۔ اگر یہ بات واقعی سچ ہوتی، تو آپ کو باہر کھلے آسمان میں کیا نظر آتا؟
اگر زمین واقعی کائنات کا محور ہوتی تو بھی آپ کو تقریبا وہی کچھ نظر آتا جیسا اب نظر آتا ہے۔ سورج، چاند، ستارے، سب کچھ ایک طرف سے دوسری طرف بھاگتے ہوئے ملتے جبکہ زمین اپنی جگہ قائم، مضبوط محسوس ہوتی۔ آج ہمیں پتہ ہے کہ آسمان میں سورج، چاند، ستاروں کی حرک اصل میں نظر کا دھوکہ ہے جیسے ایک چلتی ہوئی ریل میں بیٹھ کر ہر چیز پیچھے کو بھاگتی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر زمین کائنات کا مرکز ہوتی تو بھی ہمیں کوئی فرق پتہ نہ چلتا۔ آج ہمارے پاس جو معلومات ہیں، ان کی موجودگی میں ایسا تصور کرنا مشکل ہے، کیونکہ یم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ پہلے وقت کے لوگوں کو سورج، چاند اور ستاروں کو دیکھتے ہوئے کیسا محسوس ہوتا ہو گا۔ لیکن جب آپ کے پاس نظارہ کرنے کے لیے صرف دو آنکھیں ہوں تو یہ ماننا کہ دوسری چیزیں حرکت کر رہی ہیں، زیادہ منطقی ہے بنسبت یہ سمجھنے کے کہ قدموں تلے زمین، جس پر آپ کھڑے ہیں، حرکت میں ہے۔
انسانوں کو یہ سمجھنے میں ہزاروں سال کیوں لگے کہ دراصل زمین حرکت کر رہی ہے؟ ہزاروں سالہ اس غلطی کا اصل ذمہ دار تین سو سال قبل مسیح کا ایک بہت مشہور شخص تھا جس کو آپ ارسطو کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ ایک یونانی فلاسفر تھا۔ اس کے خیال میں کائنات کچھ اس طرح تھی:
1۔ زمین ایک گول کرہ ہے۔ چپٹی کہنے کی غلطی وہ بھی نہیں کرتا تھا، کیونکہ اس نے کشتیوں کو سمندر میں دور افق کے نیچے سے ابھرتے ہوئے دیکھا ہوا تھا، اور اس نے چاند گرہن کے دوران چاند پر زمین کا گول سایا بنتے بھی دیکھا تھا۔ اب وہ لوگ بے وقوف تو تھے نہیں کہ ایسے شواہد کی موجودگی میں بھی زمین کو چپٹا سمجھیں۔
2۔ زمین کے اردگرد سات چمکدار چیزیں گھومتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ چاند، عطارد، زہرہ، سورج، مریخ، مشتری اور زحل۔ اور چونکہ وہ آسمان میں گھومتے پھرتے نظر آتے تھے اسلیے ان کو “پلینٹس” یعنی آوارہ گرد کہا جاتا تھا۔
3۔ زمین حرکت کرتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی اسلیے ارسطو کے ماڈل میں زمین بالکل ساکن تھی۔ صرف آسمان کے وہ غیر مرئی کرے گھومتے تھے جن میں سیارے جڑے تھے۔
یونانیوں کے خیال میں زمین کے گرد سات بڑے بڑے نہ نظر آنے والے خول چڑھے ہوئے تھے اور ان سے باہر ایک خول میں چھوٹے چھوٹے ستارے تھے۔ سیاروں کے مدار بالکل گول تھے، جن میں ردوبدل ممکن نہیں تھا۔ اس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔ ان کی نظر میں کائنات میں بس یہی کچھ تھا۔ ان کو کہکشاؤں اور بگ بینگ کا کچھ بھی علم نہیں تھا۔ اور اگلے تقریبا دو ہزار سال لوگ اسی کو درست سمجھتے رہے۔
لیکن جلد ہی لوگوں کو یہ محسوس ہونا شروع ہو گیا کہ آسمان میں موجود اشیا اس ماڈل سے مکمل طور پر میل نہیں کھاتیں۔ اس میں کچھ نہ کچھ سقم نظر آنا شروع ہو گئے۔ کیونکہ قدیم دنیا کے لوگ سمجھ دار بھی تھے اور مشاہدہ کرنے اور مشاہدات کو ریکارڈ کرنے میں تاک تھے۔ ان کو گمراہ کرنے کے لیے سوشل میڈیا بھی نہیں تھا۔ تو جلد کچھ ہی عرصے میں دنیا بھر کے ماہرین فلکیات نے مشاہدہ کرنا شروع کیا کہ مثلا مریخ ہمیشہ ایک سیدھے راستے پر نہیں چلتا بلکہ کبھی کبھی وہ رک بھی جاتا ہے اور واپس الٹی حرکت شروع کر دیتا ہے اور پھر واپس اپنے اصل مدار کی طرف آ جاتا ہے۔ ارسطو کے ماڈل میں اس کی وضاحت نہیں تھی۔ لیکن ارسطو اپنے دور کا بڑا انفلوئنسر تھا۔ ایک ایسا انفلوئنسر جس کی شہرت چند دنوں کی نہیں تھی۔ ہم صدیوں تک مشہور رہنے والے شخص کی بات کر رہے ہیں۔ تو وہ غلط کیسے ہو سکتا تھا؟ اس کی بات کو غلط کہنے کی جرات کون کرتا۔ اس نے ایسا کرنے والے کے پیچھے پڑ جانا تھا۔
تو کیوں نہ اس کو یکسر مسترد کرنے کے بجائے اس کے آئیڈیا میں تھوڑی سی تبدیلی کر لیں؟ تھوڑا تھوڑا کر کے اس کو بہتر بنا لیں؟ تو یہ کام بطلیموس نے کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ وہ اسکندریہ، مصر کا رہائشی تھا جو اس وقت پوری دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا مرکز تھا۔ مریخ کی اس کبھی کبھار کی الٹی طرف حرکت کی وضاحت کرنے کے لیے بطلیموس نے کہا کہ مریخ نہ صرف زمین کے گرد گھوم رہا ہے بلکہ وہ اپنے ایک چھوٹے سے دائرے میں بھی گھوم رہا ہے جس کو “ایپی سائیکل” کہتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر مریخ اپنے چھوٹے مدار میں کس کے گرد گھوم رہا ہے؟ اس کا جواب ان کے پاس نہیں تھا۔
پھر لوگوں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ربیع اور خریف کے اعتدال یعنی بہار اور خزاں کے وہ ایام جب دن اور رات کا دورانیہ برابر ہو جاتا ہے، کے درمیان فاصلہ برابر نہیں ہے۔ بہار کے وسط (نوروز) سے لے کر خزاں کے وسط تک کا دورانیہ خزاں سے لے کر بہار تک کے دورانیے سے ایک ہفتہ زیادہ ہے۔ اب بجائے اس کے کہ وہ سمجھتے کہ زمین کا مدار گول نہیں ہے بلکہ بیضوی ہے، بطلیموس نے یہ توجیح پیش کی کہ زمین عین وسط میں نہیں ہے بلکہ مرکز سے تھوڑا سا ہٹ کر موجود ہے۔ تو ہر چیز اصل میں زمین نہیں بلکہ اس جادوئی نقطے کے گرد گھومتی ہے۔ بطلیموس نے اس کے حق میں جو ریاضیاتی دلائل دیے وہ یقیناً متاثر کن تھے لیکن بہر حال یکسر غلط تھے۔ اس کی کتاب تقریبا ایک ہزار سال تک مسلم اور یورپی اداروں میں پڑھائی جاتی رہی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لوگوں کے ایک بہت طاقتور گروہ کو سالوں اور موسموں کے حساب کتاب میں خصوصی دلچسپی تھی کیونکہ ان کو تہوار منانے ہوتے تھے۔
اس دور میں کیتھولک چرچ ہر سال یہ اعلان کرتا تھا کہ اس دفعہ ایسٹر کا تہوار کس دن منایا جائے گا۔ ان کے مطابق نوروز کے بعد پہلے مکمل چاند سے اگلے اتوار کو ایسٹر منایا جائے گا۔ تین سو پچیس عیسوی میں نیقیا کے اجلاس میں یہ طے ہو چکا تھا کہ نوروز ہمیشہ اکیس مارچ کو ہو گا۔ لیکن وہ لوگ رومی کیلنڈر استعمال کر رہے تھے جس میں ایک سال میں گیارہ منٹ کی غلطی تھی۔ تو اس وجہ سے ایک ہزار سال بعد یہ گیارہ منٹ مل کر صورتحال یہ تھی کہ ایسٹر بالکل ایسے موسم میں آتا تھا جس میں بائبل کے مطابق ایسٹر کا اصل واقعہ نہیں ہوا تھا۔ اور پھر بائبل میں یہ بھی لکھا تھا کہ زمین ساکن ہے جیسا کہ ارسطو کے ماڈل میں تھا۔ تو اب چرچ کی اس غلط فہمی پر بات کون کرتا؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت کے بہترین ماہرین فلکیات اور ریاضی دان چرچ کے ملازم تھے جیسا کہ پولینڈ میں کوپرنیکس۔ شاید آپ کے لیے یقین کرنا مشکل ہو کہ سورج کی مرکزیت کا نظریہ چرچ کی زیر سرپرستی پیش کیا گیا۔ پندرہ سو کے آس پاس وہ اپنے دور کی جدید ترین فلکیات پر تحقیق کر رہا تھا اور اس میں اس کو ہندی، چینی، فارسی اور مسلم سائنسدانوں کی تحقیقات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ ان سائنسدانوں نے آسمانی اجسام کے حوالے سے تفصیلی مشاہدات مہیا کیے جن کی مدد سے یہ واضح ہو رہا تھا کہ بطلیموس کا زمین کی مرکزیت کا نظریہ ریاضی کی بنیاد پر درست نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ اگلی کچھ دہائیاں کوپرنیکس نے بار بار حساب کتاب کی جانچ پرکھ کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ دراصل سورج نظام شمسی کے مرکز میں براجمان ہے، اور زمین اور دوسرے سیار اس کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ چرچ کو کوپرنیکس کے اس نظریے سے مکمل اتفاق تھا اور اس کتاب نے سائنسی میدان میں تہلکہ مچا دیا۔ تاہم وہ سورج کی مرکزیت کی بات کرنے والا پہلا شخص نہیں تھا۔ ارسطو کے وقت سے ہی لوگ اس حوالے سے بھی کتابیں لکھتے رہے تھے لیکن ان کی بات کو کوپرنیکس کی طرح پذیرائی نہیں مل سکی تھی۔ شاید اس لیے کہ وہ چرچ میں ایک بااثر عہدے پر تھا، یا شاید اب دنیا اس بات کو ماننے کے لیے پہلے سے زیادہ تیار تھی۔
یہاں نوٹ کرنے کی ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہزاروں سال تک یہ ماڈلز ابھی تک صرف یہ بات کر رہے تھے کہ چیزیں کام کیسے کرتی ہیں اور کسی نے بھی اس پر توجہ نہیں دی کہ سب کچھ جیسا ہے ویسا کیوں ہے۔ اصل میں ان تمام ماڈلز کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ان کی مدد سے آسمان میں اجسام کے درست مقام کا حساب لگا سکیں کہ کب کون سی چیز کہاں ملے گی۔ ان کا مقصد کائنات کے کام کرنے کے طریقے کو کھوجنا نہیں تھا۔ لیکن اب حالات بدلنے لگے تھے۔ کچھ ہی عرصے میں یوحانس کیپلر نے دکھایا کہ سورج کے گرد گھومنے والے اجسام کے مدار گول نہیں بلکہ بیضوی ہیں۔ کچھ عرصے بعد ایک اطالوی فلکیات دان گیلیلیو گیلیلی نے دوربین بنا کر مشاہدہ کیا کہ سیاروں کے اپنے بھی چاند ہیں جو ان کے گرد گھومتے ہیں۔ اور یہ کہ زہرہ کی شکل چاند کی طرح تبدیل ہوتی رہتی ہے جو اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ سورج کے گرد گھوم رہا ہو۔
پھر ایک اور شخص آیا جس نے ہمیں بتایا کہ چیزیں آسمان میں غیر مرئی جادوئی کروں کی وجہ سے حرکت نہیں کرتیں بلکہ کشش ثقل نے ان کو جوڑا ہوا ہے۔ شاید آپ نے اس کا نام سنا ہو۔ اسے نیوٹن کہتے ہیں۔
پس، تقریبا دو ہزار سال تک ارسطو کے غلط نظریے میں پھنسے رہنے کے بعد، اب کائنات کا ماڈل کئی دفعہ ازسرنو ترتیب دیا جا چکا تھا۔ اور اب ہم اس نقطے پر پہنچتے ہیں کہ کیا واقعی سورج نظام شمسی کے مرکز میں ہے؟ کیونکہ اگر آپ نیوٹن کی دی گئی تعریف کے مطابق کشش ثقل کے فارمولے میں قیمتیں درج کریں تو آپ کو پتہ لگے گا کہ صرف زمین ہی سیب کو نہیں کھینچ رہی بلکہ کچھ نہ کچھ سیب بھی زمین کو اپنی طرف کھینچتا ہے خواہ یہ کشش بہت خفیف سی ہی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاند زمین کے گرد نہیں گھومتا بلکہ چاند اور زمین ایک دوسرے کے گرد ایک ایک محور پر گھومتے ہیں جو زمین میں ہی کسی جگہ واقع ہے۔ اسی طرح اگر صرف مشتری اور سورج کی گردش کو دیکھیں تو دونوں ایک محور کے گرد گھوم رہے ہیں جو ان دونوں کے درمیان میں کسی جگہ واقع ہے۔ اور پھر اگر آپ نظام شمسی کے تمام اجسام کی کمیت، کشش اور پوزیشن کی بنیاد پر حساب لگائیں تو معلوم ہو گا کہ نظام شمسی کا مرکز یعنی جس نقطے کے گرد یہ سب چیزیں گھوم رہی ہیں، سورج کے اندر موجود نہیں ہے بلکہ خاصا باہر ہے اور دوبارہ سورج یہاں دو ہزار ستائیس میں پہنچے گا۔ اس نقطے کو بیری سینٹر کہتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں اس کی پرواہ کرنے کی کوئی ضرورت بھی ہے؟ کیا اس کا ہماری زندگی پر کوئی اثر یا فائدہ یا نقصان ہے؟ شاید نہیں۔ لیکن سائنس کا مقصد ہمیں یہ بتانا نہیں ہے کہ چیزیں کس طرح کام کر رہی ہیں، بلکہ اس سب کا مقصد آنے والے معاملات کی پیش گوئی کرنا ہے۔ مثلا یہ کہ اگر آپ نے کوئی بہت اچھی دور بین خلا میں بھیجنی ہے یا مشتری تک خلائی جہاز پہنچانے ہیں تو آپ کو ان معلومات کی ضرورت پڑے گی۔ آج ہم زیادہ تفصیل سے جانتے ہیں کہ ہمارا نظام شمسی دراصل کیسا ہے اور یہ بھی کہ یہ سورج اپنے پورے کنبے کے ساتھ ملکی وے کہکشان کے مرکز کا چکر لگا رہا ہے۔ اور ملکی وے اور اردگرد کی دوسری کہکشائیں ورگو سوپر کلسٹر کے بیری سینٹر کا چکر لگا رہی ہیں۔ اور وہ سوپر کلسٹر اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ ایک اور بڑے سوپر کلسٹر کا حصہ ہے۔ یہ سب دو ہزار سال پرانی کہانیوں کی نسبت بہتر سچائیاں ہیں اور یہ ہمارا انتظار کر ہی ہیں کہ ہم کب کوئی بڑی انقلابی ایجاد کریں۔
اصل ویڈیو یہاں دیکھیں: