سنہ 1608 سائنس کی تاریخ کا ایک اہم سال تھا- اس سال ایک ولندیزی (Dutch) عینک بنانے والے نے دوربین ایجاد کی- شروع شروع میں دوربین کو محض تفریح کے لیے استعمال کیا جاتا تھا یا پھر بحری قزاق اسے دور سے آتے بحری جہازوں کو دیکھنے کے لیے استعمال کرتے تھے- فلکیات میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں تھا- گیلیلیو وہ پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے دور بین کا رخ آسمان کی طرف کیا اور یوں فلکیات کی سائنس کے سنہری دور کا آغاز ہوا

اس کے بعد چار سو سال تک زمین پر کئی بڑی بڑی دوربینیں نصب کی گئیں جن سے فلکی اجسام کے تفصیلی مشاہدات کیے گئے- پھر 1990 میں فلکیات کی سائنس میں ایک نیا انقلاب آیا جب ہبل دوربین کو لانچ کیا گیا- ہبل دنیا کی پہلی دوربین تھی جو زمین کے گرد گھومتی ہے اور خلا میں کام کرتی ہے- اس دوربین نے خلا سے (یعنی زمین کے کرہ ہوائی سے باہر نکل کر) فلکی اجسام کا مشاہدہ کیا اور یوں کئی ایسے مظاہر کا مشاہدہ ممکن ہوا جن کا زمین سے مشاہدہ ناممکن تھا-

ہبل کو کام کرتے ہوئے تیس سال سے بھی زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے- اسے ابھی تک تاریخ کی کامیاب ترین سپیس ٹیلی سکوپ ہونے کا اعزاز حاصل ہے- لیکن اب ہبل دوربین بوڑھی ہو رہی ہے اور اگلے چند سالوں میں شاید اسے ڈی کمیشن کرنا پڑے- اس لیے اب ہمیں ایک نئی سپیس دوربین کی ضرورت ہے جو ہبل سے زیادہ جدید اور ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی استعمال کرے- اس اگلی دوربین کا نام جیمز ویب دوربین ہے- یہ دوربین ہبل سے کس طرح سے مختلف ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں-

ہم جانتے ہیں کہ ہبل دوربین کا نام مشہور ماہر فلکیات جیمز ہبل کے نام پر رکھا گیا تھا جنہوں نے اپنے مشاہدات سے پہلی بار ملکی وے کہکشاں کے علاوہ کسی دوسری کہکشاں کا مشاہدہ کیا اور یہ دریافت کیا کہ ہماری کائنات پھیل رہی ہے- اس سے پہلے سائنس دانوں کو یقین تھا کہ ہماری ملکی وے کہکشاں ہی کل کائنات ہے اور کائنات جامد ہے- اس کے برعکس جیمز ویب دوربین کا نام ایک اور ماہر فلکیات جیمز ویب کے نام پر رکھا گیا ہے جو 1961 سے 1968 تک ناسا کے ایڈمنسٹریٹر تھے- اپالو مشن کو کامیاب بنانے میں ان کا بہت بڑا کنٹریبیوشن تھا-

جب ہبل دور بین پر کام شروع ہوا تو اندازہ یہ تھا کہ اس پر لگ بھگ تیس چالیس کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے- لیکن جیسے جیسے اس پراجیکٹ پر کام ہوتا رہا اس کی لاگت میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور ہبل کو لانچ کرنے پر کل پانچ ارب ڈالر خرچ ہوئے- جیمز ویب دوربین کے ڈیزائن کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے- جب جیمز ویب دوربین کے ڈیزائن کا آغاز کیا گیا اس وقت اندازہ تھا کہ اس پر لگ بھک ایک ارب ڈالر خرچ ہوں گے- لیکن اب تک اس پر نو ارب ڈالر سے زیادہ رقم خرچ ہو چکی ہے-

اگرچہ ہبل دوربین بھی سپیس ٹیلی سکوپس میں بہت بڑی تھی، لیکن جیمز ویب دوربین کا سائز ہبل سے بھی کہیں بڑا ہے- ہبل دوربین ایک بس کے سائز کی تھی جب کہ جیمز ویب دوربین کا سائز بوئنگ 737 کے سائز کے نصف کے قریب ہے- جیمز ویب دوربین کے شیشے کا قطر ہبل دوربین کے شییشے کے قطر سے پانچ گنا زیادہ ہے اور اس کے گرد ایک شیلڈ ہے جو اسے سورج کی شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہے- اس سن شیلڈ کا سائز ٹینس کے کورٹ کے برابر ہے-

ہبل اور جیمز ویب دوربینوں میں سب سے بڑا فرق ان کے سینسرز کا ہے جو برقی مقناطیسی سپیکٹرم کے مختلف حصوں کو ڈیٹیکٹ کرتے ہیں- ہم برقی مقناطیس سپیکٹرم کا بہت چھوٹا سا حصہ دیکھ پاتے ہیں جسے ویزیبل سپیکٹرم کہا جاتا ہے- لیکن برقی مقناطسی سپیکٹرم میں ایکس ریز، گیما ریز، الٹرا وائلٹ ریز بھی ہوتی ہیں جن کی فریکوینسی روشنی کی فریکوینسی سے زیادہ ہوتی ہے جبکہ انفرا ریڈ اور ریڈیو ویوز کی فریکوینسی روشنی سے کم ہوتی ہے- دور دراز کی کہکشاؤں کے مشاہدے کے لیے ویزیبل سپیکٹرم سے کہیں زیادہ انفارمیشن انفرا ریڈ اور ریڈیو ویو کی فریکوینسیز میں پائی جاتی ہے- ہبل دوربین کے زیادہ تر ڈیٹیکٹرز الٹراوئلٹ اور ویزیبل سپیکٹرم کو ڈیٹیکٹ کرتے ہیں جبکہ جیمز ویب دوربین کے ڈیٹیکٹرز کو انفرا ریڈ اور ریڈیو فریکوینسیز کو ڈیٹیکٹ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جو ہبل دوربین ڈیٹیکٹ نہیں کر پاتی- اس لیے جیمز ویب دوربین سے ہم ایسی کہکشاؤں اور مظاہر کو بھی دیکھ پائیں گے جو ہم سے 13 ارب نوری سال یا اس سے بھی زیادہ دور ہیں-

اس کے علاوہ ان دونوں دوربینوں میں یہ بھی فرق ہے کہ ہبل دوربین زمین کے قریب ہی یعنی 570 کلومیٹر بلند مدار میں ہے جبکہ جیمز ویب کا مدار زمین سے بہت دور ہو گا جسے L1 پوائنٹ کہا جاتا ہے اور جو زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر دور ہے- اس مقام پر سورج، زمین، اور چاند کی روشنی نہیں پہنچ پاتی کیونکہ یہ مقام زمین کی اس سمت پر ہے جو سورج سے مخالف سمت میں ہوتا ہے یعنی جہاں ہمیشہ زمین کا سایہ رہتا ہے- اس لیے ہبل کے ڈیٹیکٹرز کو منفی 220 سینٹی گریڈ پر رکھنا ممکن ہو گا- یہ درجہ حرارت ہبل کے درجہ حرارت سے 15 گنا کم ہے- جیمز ویب دوربین کا زمین سے فاصلہ اس قدر زیادہ ہو گا کہ اس پر مرمت کا کوئی بھی مشن بھیجنا ممکن نہیں ہو گا- اس لیے جیمز ویب دوربین میں کسی بھی خرابی کو دور کرنا ممکن نہیں ہو گا-

ہبل دوربین کا مقصد کائنات کے نت نئے مظاہر کو دریافت کرنا تھا اور ہبل دوربین اپنے مشن میں بے انتہا کامیاب رہی- ہبل نے بے شمار دم دار ستارے، شہابیے، نیبولا اور شمسی سیاروں کے کئی نئے چاند دریافت کیے- ہبل کی بدولت ہمیں یہ معلوم ہوا کہ کہکشائیں، ستارے، اور سیارے کیسے تشکیل پاتے ہیں- لیکن جیمز ویب دوربین کا مقصد خود کائنات کی تشکیل کو سمجھنا ہے- اس سے ہمیں یہ معلوم ہو پائے گا کہ کائنات کی پہلی چند کہکشائیں کیسے تشکیل پائیں- اس کے علاوہ امید ہے کہ جیمز ویب دوربین سے غیر شمسی سیاروں کی براہِ راست شبیہہ بنانا ممکن ہو سکے گا- یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ جیمز ویب کس قدر کامیاب دوربین رہے گی لیکن اگر اس نے درست طور پر کام کیا تو فلکیات اور کاسمالوجی میں جیمز ویب دوربین ایک اور انقلابی قدم ثابت ہو گی

اصل ویڈیو کا لنک