یہ 786 ء کی بات ہے جب ہارون الرشید بیس سال سے کچھ زیادہ عمر میں عباسی سلطنت کا خلیفہ بنا۔ اسکی وجہ معرفت الف لیلہ کی داستانیں ہیں لیکن اسکی زندگی میں اور بھی بہت کچھ ایسا تھا جو اسکو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ تختِ بغداد ابھی لگ بھگ تیس سال ہی پرانا تھا لیکن آدھی دنیا پر حکومت کرتا تھا اور بغداد بلا مقابلہ دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہربنتا جا رہا تھا۔ اس وقت کے بادشاہوں کی زیادہ تر زندگی قتل و غارت اور جنگ و جدل میں گزرتی تھی اور بغداد کے خلیفہ کی صورتحال بھی کوئی خاص مختلف نہیں تھی۔ تاہم فراغت کے لمحات میں اسکے شوق ایسے تھے جو عام طور پر بادشاہوں کے نہیں ہوتے۔ اسکو علم نجوم اور فلسفے میں لگاؤ تھا اورشاعری اور فنونِ لطیفہ کا تو وہ دلدادہ تھا۔ اپنے اس شوق کو پورا کرنے کے لئے اس نے اپنے سے پہلے خلیفہ المنصور کی ذاتی لائبریری کو ایک مکمل یونیورسٹی ”بیت الحکمۃ“ میں تبدیل کروا دیا اور دنیا جہان سے علما کو لا کر یہاں وظائف اور بڑے عہدوں سے نوازا۔
یہ لوگ یوں تو بیت الحکمۃ میں تحقیقی مباحث میں مشغول رہتے تھےلیکن بغداد کے عوام کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں تھے کیونکہ آرکیٹیکچر، انجینئرنگ، اور میڈیسن کے شعبوں میں ان کا علم روز مرہ زندگیوں میں آسانیاں پیدا کر رہا تھا۔ یہ لوگ حکومت کے معاون، مشیر، اور بیوروکریسی جیسے اہم عہدوں پر بھی فائز ہوتے تھے۔اسی دوران شاہی فرمان کے ذریعے ایک نیا سنہری دور برپا ہوا۔ سنسکرت سے لے کر یونانی زبان میں لکھی تمام کتابوں کو عربی میں ترجمہ کرنے کا حکم ہوا۔ اس پراجیکٹ کو آج دنیا ٹرانسلیشن موومنٹ کے نام سے جانتی ہے۔ بیت الحکمۃ کے علما نے ساری دنیا سے کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر عربی میں ترجمہ کیں۔
خلیفہ مامون الرشید کے دور تک آتے آتے ترجمہ کرنا ایک انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکا تھا کیونکہ اصول یہ تھا کہ جو شخص کوئی ایسی کتاب عربی میں ترجمہ کر کے لائے گا جو بادشاہ کی ذاتی لائبریری میں پہلے موجود نہیں ہے، تو اس کو اس کتاب کے وزن کے برابر سونے سے نوازا جائے گا۔ ترجمہ کرنے والوں کو 500 دینار ماہانہ تک تنخواہ دی جاتی تھی جو آج کے دور میں تقریبا ساڑھے چھے لاکھ روپے ماہانہ بنتے ہیں! اس حیران کن مہم کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری دنیا میں تب تک لکھی گئی لاکھوں کتابیں تقریبا 150 سال سے کم عرصے میں عربی میں ترجمہ کی گئیں اور ان کتابوں نے اگلے 600 سال دنیا پر فکری اور سیاسی میدان میں مسلمانوں کی برتری کو یقینی بنایا۔
علم کے اس عظیم ذخیرے نے آگے چل کر مصر، عراق، ایران اور سپین میں سائنٹیفیک میتھڈ کی بنیاد رکھی اور جگہ جگہ لائبریریاں، یونیورسٹیاں، ریسرچ ہسپتال اور آبزرویٹریاں بننے لگیں۔ ان علما کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1258 میں جب منگولوں نے بغداد پر حملہ کر کے اینٹ سے اینٹ بجا دی اور بیت الحکمۃ کی تمام کتابیں دریا برد کر دی گئیں تو ایسے نامساعد حالات میں بھی نصیر الدین الطوسی نے منگول جرنیل ہلاکو خان کو اپنے لئے رصد خانہ آبزرویٹری کے قیام کے لئے گرانٹ دینے پر راضی کر لیا۔ اس آبزرویٹری میں ریاضی اور فلکیات پر ہونے والی تحقیق بعد میں یورپیوں کے لئے مشعل راہ بنی۔بغداد کے بعد سپین، سسلی اور ترکی کے علم و تحقیق کے مراکز نے یورپ کے لوگوں میں علم کی محبت کو اجاگر کیا۔ ابن الرشد اور اس جیسے دیگر علما کے ترجمہ اورتحقیق کی وجہ سے یورپ کو بطلیموس، افلاطون اور سقراط کے بھولے ہوئے نام دوبارہ یاد آئے۔ البتانی، الجاحظ اور الخوارزمی کے کام کو بنیاد بنا کر کوپرنیکس، فیبو ناچی اور ان جیسے دیگر محققین نے جدید سائنس کی عمارت کو استوار کیا اور پندرہویں صدی کا اختتام آتے آتے یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا آغاذ ہوا۔ ترجمہ کی ایک نئی تحریک نے جنم لیا۔
عربی میں لکھی کتابوں کو لاطینی اور دیگر یورپی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور ان سے علم کی بنیاد دوبارہ استوار کی گئی۔ اس دور کی کتابیں دیکھیں تو ان میں قرون وسطی کے علماء کی میڈیسین، ریاضی، جغرافیہ، اور بصریات پر لکھی کتابوں کے حوالے آسانی سے مل جاتے ہیں۔ شروعات ایک دفعہ پھر فنون لطیفہ، فلسفہ اور آج بالکل فضول سمجھے جانے والے رد شدہ نظریات سے ہوئی جس نے تقریبا دو صدیوں کے عرصے میں صحیح معنوں میں اپلائیڈ سائنس کی شکل اختیار کی۔ ایک دفعہ پھر عباسیوں کی ٹرانسلیشن موومنٹ کی طرح پیسے نے علم کی مدد کی چنانچہ ”نئی دنیا“ (امریکہ) سے لوٹا جانے والا سونا اور چاندی خرچ کرنے کا کوئی اور راستہ سمجھ نہ آیا تو لوگ کتابوں اور سائنسی کھلونوں کو دل بہلانے کے لئے گھروں میں لے آئے۔ یہ کھیل آہستہ آہستہ تجسس اور تحقیق بن گئے۔1600 کے بعد سے مسلمان ممالک ایک طرف تو اپنی اندرونی چپقلشوں کی وجہ سے کمزور تھے، دوسرا امریکہ کی دریافت نے دنیا میں طاقت کا توازن اتنا بگاڑ دیا کہ ایشیا سے افریقہ تک کوئی ملک یورپ کی یلغار کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا۔
نوآبادیاتی نظام کے تحت 300 سال کی بدترین غلامی اور لوٹ مار نے حاکم اور محکوم کا فرق اتنا بڑھا دیا کہ یہ خلیج آج کے آزاد دور میں باوجود کوشش بسیار عبور ہوتی نظر نہیں آتی۔ امکان یہ ہے کہ اس فرق کو جلد از جلد ختم نہ کیا گیا تو شاید پھر کبھی اس کمی کو پورا نہ کیا جا سکے کیونکہ ٹیکنالوجی کی بدولت باقی دنیا بہت آگے نکل جائے گی اور پیچھے رہ جانے والے ہمیشہ کے لئے صرف ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔تاہم کل کے افق پر ایک نیا انقلاب طلوع ہونے کو ہے۔ انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی نے پچھلے 15 سال میں ہماری زندگیوں میں واضح تبدیلیاں پیدا کی ہیں اور موبائل اور انٹرنیٹ زندگی کا لازمی جزو بن چکے ہیں۔
تاہم حال ہی میں پی ٹی اے نے ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کو پاکستان میں 5 جی ٹیکنالوجی ٹیسٹ کرنے کے لئے دعوت دی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ایک دفعہ پھر ہماری زندگیوں میں بڑی تبدیلیاں لانے والی ہے۔ کمیونیکیشن اور گھریلو مصنوعات سے لے کر ٹرانسپورٹ ، میڈیسن اور تعلیم جیسے شعبوں میں ایک دفعہ پھر انقلاب آیا چاہتا ہے۔ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ معلومات کا ایک بیش بہا خزانہ ہے جس کی وسعت کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ صرف یوٹیوپ پر پائے جانے والی انفارمیشن کا ہی حساب لگائیں تو دماغ ماؤف ہونے لگتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق
- یو ٹیوپ پر ہر ماہ تقریبا 2 ارب سے تھوڑا ہی کم لوگ سائن ان کرتے ہیں
- یہ ایپ 80 مختلف زبانوں میں دستیاب ہے جو دنیا کی 95٪ آبادی سمجھ سکتی ہے
- ہر ایک منٹ یوٹیوب پر تقریبا 400 گھنٹے کی نئی ویڈیوز اپلوڈ ہو رہی ہیں۔
- لوگ تقریبا ایک ارب گھنٹے کے برابر ویڈیوز روزانہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے دیکھتے ہیں
- یوٹیوب پر سب سے مشہور ویڈیو تقریبا 6 ارب سے زائد دفعہ دیکھی جا چکی ہے۔
- اس وقت یوٹیوب کا سب سے مشہور چینل بھارتی میوزک کمپنی ٹی سیریز کا ہے۔
- یوٹیوب گوگل کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویب سائٹ ہے۔
گرچہ یوٹیوب پر زیادہ تر مواد انٹرٹینمنٹ، ہنسی مذاق، ہلہ گلا، اور بلیوں اور طوطوں کی ویڈیوز پر مشتمل ہوتا ہے لیکن یوٹیوب پر پائی جانے والی ویڈیوز کا ایک بڑا حصہ معلوماتی اور ایجوکیشنل ویڈیوز بھی ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک تحقیق کے مطابق 25 سال سے زائد عمر کے 70٪ لوگ یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے کسی کام کو کرنے کا طریقہ یوٹیوب ویڈیو کی مدد سے سیکھا ہے اور 68 فیصد لوگ خریداری کا فیصلہ کرنے میں مدد کے لئے یوٹیوب کا سہارا لیتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں خآن اکیڈمی، ٹیڈ ایجوکیشن، کریش کورس، اور بچوں کی نرسری کی نظموں پر مشتمل کئی چینلز پر کل ایک ارب ایک ارب سے زیادہ دفعہ ویڈیوز دیکھی جا چکی ہیں۔ اسی طرح فزکس گرل، برین کرافٹ، برین سکوپ، وی ساس اور ان اے نٹ شیل جیسے سائنسی چینلز کے سبسکرائبرز کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔
اب آخرمیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرون وسطی کی ٹرانسلیشن موومنٹ کا یوٹیوب سے کیا تعلق۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یوٹیوب پر معلومات کا ایک مفت خزانہ دستیاب ہے۔ تاہم انگریزی میں ہونے کی وجہ سے یہ معلومات عام پاکستانی کی رسائی میں نہیں اور ان کا زیادہ تر وقت محض ہلہ گلا اور ٹک ٹاک کی ویڈیوز میں گزرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے صرف 6 فیصد لوگ بی اے یا اس سے زیادہ تعلیم کے حامل ہیں۔ ایسے میں ایک بھاری ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو انگریزی سمجھ سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی، زراعت، فنون لطیفہ، فلسفہ اور اس جیسے دیگر مضامین پر موجود معلومات کو اردو یا دیگر علاقائی زبانوں میں ترجمہ کر کے عام آدمی کی کی دسترس تک پہنچایا جائے۔
ایسا کرنا اسلئے انتہائی ضروری ہے کہ جب تک ہمارے اردگرد کے لوگ بہتر سوچنے سمجھنے، منطقی فیصلے کرنے، اور دور اندیشی رکھنے والے نہیں ہوں گے تب تک ہمارے اپنے لئے بھی آسان، سہولیات سے بھرپور اور خوشگوار زندگی کا خواب ایک خواب ہی رہے گا خواہ ہم اپنی ذات کی حد تک جتنی مرضی ترقی کر لیں۔صرف یوٹیوب ہی نہیں، بے شمار کتابیں، ریسرچ جرنلز، انسائکلوپیڈیاز اور دیگر مواد انٹرنیٹ پر مفت دستیاب ہے۔ 5 جی ٹیکنالوجی کی وجہ سے یہ سب ایک عام آدمی کی سکرین تک پہنچایا جا سکتا ہے اگر صرف زبان کی اس رکاوٹ کو دور کر دیا جائے۔
میری یونیورسٹیوں اور پوسٹ گریجوایٹ کالجوں میں پڑھانے والے اساتذہ سے بالخصوص یہ درخواست ہے کہ کاپی پیسٹ اسائنمنٹ کا ٹاسک دینے کے بجائے اپنے طلبا کو کم سے کم ایک سیمسٹر میں ایک معلوماتی ویڈیو کی ڈبنگ، نئے سرے سے تشکیل، اپنے سے نچلی کلاس کے کسی سبق کو پڑھانے کی ویڈیو بنانے یا کسی کتاب کے چند صفحات کو ترجمہ کر کے بلاگ پوسٹ کی شکل میں شائع کرنے کی ذمہ داری دی جائے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف طالبعلم کو اپنی توانائی ایک مثبت سمت میں استعمال کرنے کی تحریک ملے گی بلکہ بہت سے دوسرے لوگوں کا بھلا بھی ہو گا۔
ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آتی ہے
علامہ محمد اقبال
عجب نہیں ہے کہ ہوں میرے ہم عناں پیدا
یہ مضمون یکم اگست دو ہزار انیس کو ایکسپریس بلاگ میں شائع ہوا۔